سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک لوگ تمہارے تابع ہیں، کیونکہ لوگ دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے زمین کے اطراف و اکناف سے تمہارے پاس آئیں گے، پس جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے ساتھ خیر و بھلائی کے ساتھ پیش آنا۔ “ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 215]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا (بل موضوع)، رواه الترمذي (2650 و أشار إلٰي ضعفه من أجل أبي ھارون العبدي) [و رواه ابن ماجه: 249] ٭ أبو ھارون عمارة بن جوين ضعيف جدًا، متھم بالکذب .»
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا (بل موضوع)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دانائی کی بات، دانا شخص کی گم شدہ چیز ہے، پس وہ اسے جہاں پائے تو وہاں وہی اس کا زیادہ حق دار ہے۔ “ اس حدیث کوترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے، اور ابراہیم بن فضل راوی حدیث کے معاملے میں ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 216]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (2687) و ابن ماجه (4169) ٭ إبراهيم بن الفضل المخزومي: متروک . فائدة: وقال عبد الله بن عباس رضي الله عن: خذ الحکمة ممن سمعتھا فإن الرجل ينطق بالحکمة و ليس من أھلھا فتکون کالرمية خرجت من غير رام . (رواه الخرائطي في مساوئ الأخلاق: 390 وسنده حسن، باب ماجاء في سوء الجوار من الکراھة والذم)»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ایک فقیہ، شیطان پر، ہزار عبادت گزاروں سے زیادہ سخت ہوتا ہے۔ “اس حدیث کو ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 217]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (2681 وقال: غريب .) و ابن ماجه (222) ٭ روح بن جناح ضعفه الجمھور و اتھمه ابن حبان وغيره والجرح فيه مقدم .»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”طلب علم ہر مسلمان پر فرض ہے، کسی ایسے شخص کو، جو اس کی اہلیت نہ رکھتا ہو، پڑھانے والا، خنزیروں کے گلے میں ہیرے جواہرات اور سونے کے ہار ڈالنے والے کی طرح ہے۔ “ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے جبکہ بیہقی نے ((مسلم)) تک شعب الایمان میں روایت کیا ہے، اور انہوں نے فرمایا: اس حدیث کا متن مشہور ہے جبکہ سند ضعیف ہے، اور یہ روایت متعدد طریق سے مروی ہے، لیکن وہ سب ضعیف ہیں۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 218]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا والحديث ضعيف، رواه ابن ماجه (224) والبيھقي في شعب الإيمان (1543) ٭ حفص بن سليمان: متروک، وللحديث طرق کثيرة نحو الخمسين و کلھا ضعيفة و صححه بعض الأئمة من أجل کثرة الطرق (!) والله أعلم . فائدة: و قال شعبة: رآني الأعمش يومًا و أنا أحدث، قال: ويحک أو ويلک يا شعبة! لا تعلق الدر في أعناق الخنازير (مسند علي بن الجعد: 812 وسنده صحيح) و قال الأعمش: انظروا لا تنثروا ھذه الدنانير علي الکنائس يعني الحديث (مسند علي بن الجعد: 764 وسنده صحيح) وقال: أبو داود الطيالسي: نا زائدة بن قدامة الثقفي ... و کان لا يحدث قدريًا و لا صاحب بدعة يعرفه . (الجامع للخطيب 524/1 ح 758 وسنده صحيح)»
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا والحديث ضعيف
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دو خصلتیں کسی منافق میں اکٹھی نہیں ہو سکتی، اچھے اخلاق اور دین میں سمجھ بوجھ۔ “ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 219]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «سنده ضعيف، رواه الترمذي (2684 وقال: غريب . لا أعرفه إلا من حديث خلف بن أيوب العامري .) ٭ خلف ھذا صدوق مبتدع، حدّث عن عوف و قيس بمناکير و للحديث شواھد ضعيفة عند ابن المبارک (الزھد: 459) وغيره .»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص طلب علم کے لیے سفر کرتا ہے تو وہ واپس آنے تک اللہ کی راہ میں رہتا ہے۔ “ اس حدیث کو ترمذی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 220]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2647 وقال: حسن غريب .) والدارمي (لم أجده) ٭ خالد بن يزيد و أبو جعفر الرازي و الربيع بن أنس: کلھم حسن الحديث في غير ما أنکر عليه و قال ابن حبان في ربيع بن أنس: ’’والناس يتقون حديثه ما کان من رواية [أبي] جعفر عنه لأن فيھا اضطراب کثير‘‘ (کتاب الثقات 4/ 228) فالجرح خاص والخاص مقدم علي العام . فائدة: و روي الحاکم في المستدرک من حديث أبي ھريرة عن النبي ﷺ قال: من جاء مسجدنا ھذا يتعلم خيرًا أو يعلمه فھو کالمجاھد في سبيل الله ... (1/ 91 ح 309) وسنده حسن .»
سیدنا سخرہ ازدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص علم حاصل کرتا ہے تو یہ اس کے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ “ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے اور اس روایت میں ابوداود راوی ضعیف ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 221]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا موضوع، رواه الترمذي (2648 وقال: ھذا حديث ضعيف الإسناد .) والدارمي (1/ 139 ح 567) ٭ أبو داود الأعمي: نفيع کذاب، و محمد بن حميد الرازي ضعيف جدًا علي الراجح ضعفه الجمھور .»
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مومن خیر (کی باتیں) سن سن کر سیر نہیں ہوتا حتیٰ کہ اس کی غایت و انتہا جنت ہو جاتی ہے۔ “ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 222]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه الترمذي (2686 وقال: حسن غريب .) [و صححه ابن حبان (الموارد: 2385) والحاکم (4/ 130) ووافقه الذهبي .] ٭ دراج أبو السمح: حسن الحديث عن أبي الھيثم و عن غيره .»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے، جسے وہ جانتا ہو، پھر وہ اسے چھپائے تو روز قیامت اسے آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔ “اس حدیث کو احمد و ابوداؤد و ترمذی نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 223]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أحمد (2/ 263 ح 7561 و 2/ 305 ح 8035) و أبو داود (3658) والترمذي (2649 و حسنه) [و ابن ماجه: 261] »
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
حدیث نمبر: 224
وَرَوَاهُ ابْن مَاجَه عَن أنس
ابن ماجہ نے اسے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 224]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه ابن ماجه (264 وسنده ضعيف والحديث حسن .) انظر الحديث السابق (223) فھو شاھد له .»