530/685 عن عبد الله بن عمر قال: كان من دعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اللهم إني أعوذ بك من زوال نعمتك، وتحول عافيتك، وفجأة نقمتك، وجميع سخطك".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں سے ایک یہ بھی تھی: «اللهم إني أعوذ بك من زوال نعمتك، وتحول عافيتك، وفجأة نقمتك، وجميع سخطك»”اے اللہ! میں تجھ سے پناہ چاہتا ہوں تیری نعمتوں کے ختم ہو جانے سے، تیری عافیت کے بدل جانے سے، تیری سزا کے اچانک وارد ہو جانے سے اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 530]
تخریج الحدیث: (صحيح)
259. باب الدعاء عند الغيث والمطر
حدیث نمبر: 531
531/686 عن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رأى ناشئاً في أُفُق من آفاق السماء، ترك علمه- وإن كان في صلاة- ثم أقبل عليه؛ فإن كشفه الله حمد الله، وإن مطرت قال:"اللهم صيّباً نافعاً".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آسمان کے کسی سمت جب بادل دیکھتے تھے تو اپنا کام چھوڑ دیتے تھے چاہے وہ نماز ہی کیوں نہ ہو اور بادل کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے اگر اللہ بادل کو دور کر دیتا تو اس کی حمد کرتے اور اگر بارش برسا دیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: «اللهم صيّباً نافعاً»”یا اللہ نفع والی بارش برسا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 531]
تخریج الحدیث: (صحيح)
260. باب الدعاء عند الموت
حدیث نمبر: 532
532/687 عن قيس قال: أتيت خباباً- وقد اكتوى سبعاً- وقال:" لولا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا أن ندعو بالموت لدعوت به".
قیس سے مروی ہے کہ میں خباب کے پاس آیا انہوں نے سات داغ لگوا رکھے تھے انہوں نے کہا: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کی دعا کرنے سے منع فرمایا ہوتا تو میں اس کی دعا کرتا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 532]
تخریج الحدیث: (صحيح)
261. باب دعوات النبى صلى الله عليه وسلم
حدیث نمبر: 533
533/688 عن أبي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يدعو بهذا الدعاء:"رب[ وفي لفظ: اللهم/689](2) اغفر لي خطأي كله، وإسرافي في أمري كله، وما أنت أعلم به مني، اللهم اغفر لي خطأي كله، وعمدي وجهلي وهزلي، وكل ذلك عندي. اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت وما أعلنت، أنت المقدم وأنت المؤخر، وأنت على كل شيء قدير".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: «رب (اللهم) اغفر لي خطأي كله، وإسرافي فى أمري كله، وما أنت أعلم به مني، اللهم اغفر لي خطأي كله، وعمدي وجهلي وهزلي، وكل ذلك عندي اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت وما أعلنت، أنت المقدم وأنت المؤخر، وأنت على كل شيء قدير»”اے میرے رب! (اور ایک روایت میں ہے: اے اللہ!) میر ی سب خطاؤں کو بخش دے، میرے کاموں میں میری ساری بےاعتدالی کو بخش دے، اور (ان تمام غلطیوں کو بخش دے) جنہیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ اے اللہ! میری تمام خطاؤں کو بخش دے جو عمداً کی ہوں، جو ناواقفیت سے کی ہوں جو مذاق سے کی ہوں یہ سب میری ہی ہیں۔ اے اللہ! مجھے بخش دے جو میں نے پہلے گناہ کیے اور جو بعد میں کیے، جو چھپا کر کیے جو ظاہر کیے، تو ہی مقدم کرنے والا ہے تو ہی موخر کرنے والا ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 533]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 534
534/690 عن معاذ بن جبل قال: أخذ بيدي النبي صلى الله عليه وسلم فقال:"يا معاذ"! قلت: لبيك. قال:"إني أحبك". قلت: وأنا والله أحبك. قال:"ألا أعلمك كلمات تقولها في دبر كل صلاتك"؟ قلت: نعم. قال:"قل: اللهم أعني على ذكرك وشكرك، وحسن عبادتك".
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ”اے معاذ!“ میں نے کہا: لبیک، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک میں تجھ سے محبت کرتا ہوں“، میں نے کہا: اور اللہ کی قسم! میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھاؤں جنہیں تم اپنی ہر نماز کے بعد پڑھ لیا کرو“، میں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو! «اللهم أعني على ذكرك وشكرك، وحسن عبادتك» ۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 534]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 535
535/691 عن أبي أيوب الأنصاري قال: قال رجل عند النبي صلى الله عليه وسلم الحمد لله حمداً كثيراً طيباً مباركاً فيه. فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"من صاحب الكلمة؟". فسكت، ورأى أنه هجم من النبي صلى الله عليه وسلم على شيء كرهه. فقال:"من هو؟ فلم يقل إلا صواباً". فقال رجل: أنا؛ أرجو بها الخير. قال:"والذي نفسي بيده، رأيت ثلاثة عشر ملكاً يبتدرون أيهم يرفعها إلى الله عز وجل".
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص نے کہا: «الحمد لله حمداً كثيراً طيباً مباركاً فيه»”تمام قسم کی حمد اللہ کے لیے ہے بہت زیادہ حمد پاکیزہ جس میں برکت کی گئی ہے۔“ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہنے والا کون ہے؟“ اس پر وہ شخص چپ ہو گیا۔ اس نے سمجھا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی ایسی بات کہہ ڈالی ہے جو آپ کو ناگوار ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ہے؟ اس نے درست بات ہی کہی ہے“، تب اس شخص نے کہا: میں نے کہا ہے اور میں اس کے ساتھ خیر کی امید ہی رکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں نے تیرہ فرشتوں کو ایک دوسرے سے سے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا تاکہ ان کلمات کو اللہ عزوجل تک پہنچائیں۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 535]
تخریج الحدیث: (صحيح لغيره)
حدیث نمبر: 536
536/692 عن أنس قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا أراد أن يدخل الخلاء، قال:"اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء داخل ہونے کا ارادہ کرتے تو فرماتے: «اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث»”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ناپاک جنوں اور جننیوں سے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 536]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 537
537/693 عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خرج من الخلاء قال:"غفرانك".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے واپس آتے تو کہتے: «غفرانك»”اے اللہ! تیری مغفرت چاہیئے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 537]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 538
538/694 ابن عباس قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يعلمنا هذا الدعاء، كما يعلمنا السورة من القرآن:"أعوذ بك من عذاب جهنم، وأعوذ بك من عذاب القبر، وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال، وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات، وأعوذ بك من فتنة القبر".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ دعا اس طرح سکھاتے تھے جیسا کہ قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے: «أعوذ بك من عذاب جهنم، وأعوذ بك من عذاب القبر، وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال، وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات، وأعوذ بك من فتنة القبر» ۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 538]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 539
539/695 عن ابن عباس قال: بتّ عند [خالتي] ميمونة، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فأتى حاجته، فغسل وجهه ويديه ثم نام، ثم قام فأتى القربة فأطلق شناقها، ثم توضأ وضوءاً بين وضوءين؛ لم يُكثر وقد أبلغ، فصلى، فقمت فتمطيت؛ كراهية أن يرى أني كنتُ أبقيه، فتوضأت. فقام يصلي، فقمت عند يساره، فأخذ بأذني فأدارني عن يمينه، فتتامّت صلاته [ من الليل] ثلاث عشرة ركعة، ثم اضطجع فنام حتى نفخ، وكان إذا نام نفخ، فآذنه بلال بالصلاة فصلى ولم يتوضأ. وكان في دعائه:"اللهم اجعل في قلبي نوراً، وفي سمعي نوراً، وعن يميني نوراً، وعن يساري نوراً، وفوقي نوراً، وتحتي نوراً وأمامي نوراً وخلفي نوراً، وأعظم لي نوراً". قال كريب: وسبعاً في التابوت(3) فلقيت رجلاً من ولد العباس فحدثني بهن، فذكر: عصبي، ولحمي، ودمي، وشعري، وبشري، وذكر خصلتين.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے اپنی خالہ میمونہ کے ہاں رات گزاری، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور اپنی حاجت کو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ دھویا اور اپنے ہاتھ دھوئے پھر سو گئے، پھر اٹھے مشکیزہ کے قریب آئے اس کا منہ کھولا آپ نے درمیانہ درجہ کا وضو کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زیادہ پانی نہ بہایا مگر مکمل بلیغ وضو کیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی پھر میں بھی اٹھا، میں نے انگڑائی لی، اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ سمجھیں کہ میں پہلے سے جاگ رہا تھا اس کے بعد میں نے وضو کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے میں بھی جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کان پکڑا اور گھما کر مجھے دائیں طرف کھڑا کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی نماز کی تیرہ رکعتیں مکمل کیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے اور سو گئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی سوتے تھے خراٹے لیتے تھے، پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اٹھ کر صبح کی) نماز پڑھا دی اور وضو نہیں کیا (اس لیے کہ انبیاء کی یہ خصوصیت ہے کہ ان کا لیٹتے ہوئے وضو نہیں ٹوٹتا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں یہ کلمات تھے: «اللهم اجعل فى قلبي نوراً، وفي سمعي نوراً، وعن يميني نوراً، وعن يساري نوراً، وفوقي نوراً، وتحتي نوراً وأمامي نوراً وخلفي نوراً، وأعظم لي نوراً» ۔ کریب نے کہا: سات قسم کی دعائیں ڈھانچے میں تھیں تو میں عباس کی اولاد میں سے ایک شخص سے ملا تو اس نے یہ سات بیان کر دیں، تو اس نے بیان کیا: میرے پٹھوں میں، میرے گوشت میں، میرے خون میں، میرے بالوں میں اور میری کھال میں (نور کر دے) دو چیزیں اور ذکر کیں۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 539]