270/352 (صحيح) عن أنس ؛ أن رجلاً سأل النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا نبي الله! متى الساعة؟ فقال:" وما أعددت لها؟". قال: ما أعددت لها من كبير، إلا أني أحب الله ورسوله.فقال:" المرء مع من أحب". قال أنس: فما رأيت المسلمين فرحوا بعد الإسلام أشد مما فرحوا يومئذٍ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو کہا: اے اللہ کے نبی! قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے۔“ اس نے عرض کیا: میں نے کوئی بڑی تیاری تو نہیں کر رکھی ہے۔ مگر میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرتا ہے۔“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد میں نے مسلمانوں کو اتنا زیادہ خوش (کسی بات پر) نہیں دیکھا جتنا وہ (اس بات پر) اس دن خوش ہوئے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 270]
146. باب فضل الكبير
حدیث نمبر: 271
271/353 (صحيح) عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من لم يرحم صغيرنا، ويعرف حق كبيرنا، فليس منا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کیا اور ہمارے بڑوں کا حق احترام نہیں پہچانا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 271]
حدیث نمبر: 272
272/354 (صحيح) عن عبد الله بن عمرو بن العاص، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال:"من لم يرحم صغيرنا، ويعرف حق (وفي لفظ: ويوقر/358) كبيرنا، فليس منا".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ اس حدیث کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کیا اور ہمارے بڑوں کا حق نہیں پہچانا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 272]
حدیث نمبر: 273
273/356 (حسن صحيح) عن أبي أمامة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" من لم يرحم صغيرنا، ويجل كبيرنا، فليس منا".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کیا اور ہمارے بڑے کی تکریم نہیں کی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 273]
147. باب إجلال الكبير
حدیث نمبر: 274
274/357 (حسن) عن الأشعري [ وهو أبو موسى] قال:" إن من إجلال الله إكرام ذي الشيبة المسلم، وحامل القرآن، غير الغالي فيه، ولا الجافي عنه، وإكرام ذي السلطان المقسط".
سیدنا ابوموسی ا شعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کی تعظیم کرنے میں سے سفید بالوں والے بوڑھے مسلمان کی تکریم کرنا اور ایسے حامل قران کی تکریم کرنا جو نہ تو اس میں غلو کرنے والا ہو اور نہ اس سے دور جانے والا ہو اور انصاف کرنے والے حکمران کی عزت کرنا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 274]
148. باب يبدأ الكبير بالكلام والسؤال
حدیث نمبر: 275
275/359 (صحيح) عن رافع بن خديج وسهل بن أبي حثمة، أنهما حدثا – أو حدثاه- أن عبد الله بن سهل ومحيصة بن مسعود أتيا خيبر، فتفرقا في النخل، فقتل عبد الله بن سهل، فجاء عبد الرحمن بن سهل، وحويصة ومحيصة ابنا مسعود إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فتكلموا في أمر صاحبهم، فبدأ عبد الرحمن، وكان أصغر القوم! فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:"الكبر الكبر"- قال يحيى ليَلي الكلام الأكبر- فتكلموا في أمر صاحبهم. فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"استحقوا قتيلكم- أو قال صاحبكم- بأيمان خمسين منكم؟". قالوا: يا رسول الله! أمرٌ لم نره. قال:" فتبرئكم يهود بأيمان خمسين منهم؟". قالوا: يا رسول الله! قوم كفار! ففداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من قِبَلِه. قال: سهل فأدركت ناقة من تلك الإبل، فدخلت مربداً(1) لهم، فركضتني برجلها.
رافع بن خدیج اور سہل بن ابی حثمہ سے مروی ہے کہ ان دونوں نے بیان کیا یا دونوں نے اس کو بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود دونوں خیبر میں آئے اور ایک دوسرے سے باغ میں بچھڑ گئے۔ تو عبداللہ بن سہل (اکیلے میں) قتل کر دئیے گئے تو عبدالرحمان بن سہل اور مسعود کے دونوں بیٹے حویصہ اور محیصہ تینوں مل کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمات میں آئے اور اپنے (مرحوم) ساتھی کے متعلق گفتگو کرنے لگے۔ عبدالرحمان نے گفتگو کی ابتداء کی اور وہ تینوں میں (عمر میں) سب سے چھوٹے تھے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ بڑے کو پہل کرنے دو۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ (اس کا مطلب یہ ہے کہ) سب سے بڑا گفتگو کرے۔ تو ان لوگوں نے اپنے ساتھی کے معاملے میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) بات کی۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے مقتول کی یا اپنے ساتھی کی دیت کا حق اپنے پچاس آدمیوں کی قسم سے لے سکتے ہو۔“(یعنی پچاس آدمی قسم کھائیں کہ یہودیوں نے اسے قتل کیا ہے) ان لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ ایسا کام تھا جس کو ہم نے دیکھا نہیں۔ یہود بری ہو جاتے ہیں تمہارے روبرو پچاس آدمی قسم دے کر۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! یہ لوگ تو کفار ہیں۔ ہم ان کی قسمیں کیسے قبول کر لیں؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے اس کی دیت ادا کر دی۔ سہل بیان کرتے ہیں: اس میں ایک اونٹنی میرے حصے میں آئی تھی، میں ان کے باڑے میں گیا تو اس نے مجھے ٹانگ مار دی۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 275]
149. باب إذا لم يتكلم الكبير، هل للأصغر أن يتكلم؟
حدیث نمبر: 276
276/360 (صحيح) عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" أخبروني بشجرة مَثَلُها مثَلُ المسلم، تؤتي أكلها كل حين بإذن ربها، لا تحُتُّ ورقها". فوقع في نفسي النخلة، فكرهت أن أتكلم، وثم أبو بكر وعمر رضي الله عنهما، فلما لم يتكلما.قال النبي صلى الله عليه وسلم:" هي النخلة". فلما خرجت مع أبي قلت: يا أبت! وقع في نفسي النخلة. قال: ما منعك أن تقولها؟ لو كنت قلتها، كان أحب إلي من كذا وكذا. قال: ما منعني إلا لم أرك، ولا أبا بكر تكلمتُما، فكرهت.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا: ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے وہ درخت بتاؤ جس کی مثال مسلمان کی طرح ہے، جو ہر موسم میں اپنے رب کے حکم سے پھل دیتا ہے اس کے پتے بھی نہیں گرتے، اپنے پتوں میں پھل کو چھپاتا نہیں؟“ میرے دل میں آیا کہ ایسا درخت تو کھجور کا درخت ہے لیکن میں نے بولنا پسند نہیں کیا۔ وہیں سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہا بھی تھے۔ جب یہ دونوں بھی نہ بولے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کھجور کا درخت ہے۔“ میں جب وہاں سے اپنے والد کے ساتھ نکلا تو میں نے کہا: ابا جی! میرے دل میں تو آیا تھا کہ یہ کھجور کا درخت ہے، انہوں نے کہا: تم کو بولنے سے کون روکتا تھا؟ اگر تم کہہ دیتے تو مجھے یہ بات فلاں فلاں چیز سے بھی زیادہ عزیز ہوتی۔ میں نے کہا کہ آپ اور ابوبکر رضی اللہ عنہما تو بولے ہی نہیں، تو مجھے بولنا اچھا نہ معلوم ہوا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 276]
150. باب تسويد الأكابر
حدیث نمبر: 277
277/361(حسن الإسناد) عن حكيم بن قيس بن عاصم؛ أن أباه أوصى عند موته بنيه، فقال:"اتقوا الله وسودُوا أكبركم؛ فإن القوم إذا سودوا أكبرهم خلفوا أباهم، وإذا سودوا أصغرهم أزرى بهم ذلك في أكفائهم. وعليكم بالمال واصطناعه؛ فإنه منبهةٌ للكريم، ويستغنى به عن اللئيم. وإياكم ومسألة الناس؛ فإنها من آخر كسب الرجل. وإذا متّ فلا تنوحوا، فإنه لم ينح على رسول الله صلى الله عليه وسلم. وإذا مت فادفنوني بأرضٍ لا يشهر بدفني بكر بن وائل؛ فإني كنت أغافلهم في الجاهلية.
حکیم بن قیس بن عاصم نے بیان کیا کہ ان کے والد (یعنی قیس بن عاصم) نے اپنی موت کے وقت اپنی اولاد کو وصیت کی تو کہا: اللہ سے ڈرتے رہنا، جو تم میں سے بڑا ہو اسی کو سردار بنانا۔ جب کسی قوم کے لوگ اپنے بڑے کو سردار بناتے ہیں تو وہ اپنے باپ کی نیابت کرتے ہیں۔ اور جب وہ اپنے چھوٹے کو سردار بنائیں یہ چیز ان کو ان کے ہم پلہ لوگوں میں معیوب قرار دیتی ہے۔ مال کمانے اور اس کے ہنر کو لازم کر لینا۔ یہ معزز آدمی کی عزت اور شہرت کا باعث ہے اور اس مال کے ذریعے سے کمینے آدمی سے بےنیازی کی جاتی ہے لوگوں سے مانگنے سے بچنا یہ آدمی کی سب سے آخری درجے کی کمائی ہے، (یہ روزی کا سب سے آخری ذریعہ ہے) جب میں مر جاؤں تو نوحہ نہ کرنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر بین نہیں کیا گیا تھا جب میں فوت ہو جاؤں تو کسی زمین میں مجھے دفن کر دینا اور بکر بن وائل کو میرے کفن دفن کا پتا نہ چلے کیونکہ میں جاہلیت میں ان کو نظر انداز کیا کرتا تھا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 277]
151. باب يعطى الثمرة أصغر من حضر من الولدان
حدیث نمبر: 278
278/362(صحيح) عن أبي هريرة، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أُتي بالزهو قال:" اللهم! بارك لنا في مدينتنا ومدّنا، وصاعنا، بركةً مع بركة". ثم ناوله أصغر من يليه من الولدان.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب ڈوکے (پکنے کے قریب کھجور) لائی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعافرماتے تھے: ”اے اللہ! ہمارے مدینہ میں، ہمارے مد اور ہمارے صاع میں برکت دے، برکت پر برکت دے اس کے بعد آپ کے قریب جو سب سے چھوٹا بچہ ہوتا اسے کھجور دے دیتے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 278]
152. باب معانقة الصبي
حدیث نمبر: 279
279/364(حسن) عن يعلى بن مرة، أنه قال: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم، ودُعينا إلى طعام فإذا حسين يلعب في الطريق، فأسرع النبي صلى الله عليه وسلم أمام القوم، ثم بسط يديه، فجعله يمر مرة ها هنا ومرة ها هنا؛ يضاحكه حتى أخذه فجعل إحدى يديه في ذقنه والأخرى في رأسه، ثم اعتنقه فقبله، ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم:" حسين مني وأنا منه، أحبّ الله من أحب الحسن والحسين، سبطان(1) من الأسباط".
یعلی بن مرۃ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ہمیں ایک کھانے کی دعوت دی گئی، تو راستے میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کھیل رہے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لپک کر آگے بڑھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پھیلا دیے۔ تو کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزر جاتے اور کبھی ادھر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہنسانے لگے۔ یہاں تک کہ آپ نے ان کو پکڑ لیا۔ آپ نے اپنا ایک ہاتھ ان کی تھوڑی کے نیچے اور دوسرا سر پر رکھ کر انہیں گلے لگایا اور ان کا بوسہ لیا اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت کرے جو حسن اور حسین سے محبت کرتے ہیں۔ یہ امتوں میں سے دو امتوں کے قائم مقام ہیں۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 279]