448/575 عن ابن عباس قال:"عجبت للكلاب والشاء؛ إن الشاء يذبح منها في السنة كذا وكذا، ويهدى كذا وكذا، والشاء أكثر منها! والكلب تضع الكلبة الواحدة كذا وكذا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے کتوں اور بکریوں پر تعجب ہوتا ہے۔ ایک سال میں اتنی اور اتنی بکریاں ذبح کی جاتی ہیں اور اتنی اور اتنی ذبح کے لیے مکہ میں لائی جاتی ہیں (اور بکریاں کتوں سے زیادہ ہیں) حالانکہ ایک کتیا اتنے اور اتنے بچے جنم دیتی ہے (یہ بکریوں میں اللہ نے ہی کوئی برکت ڈالی ہے)۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 448]
تخریج الحدیث: (صحيح الإسناد)
حدیث نمبر: 449
449/576 عن أبي ظبيان قال: قال لي عمر بن الخطاب: يا أبا ظبيان! كم عطاؤك؟ قال: ألفان وخمسمائة. قال له:" يا أبا ظبيان! اتخذ من الحرث والسّابياء(3) من قبل أن تليكم غلمة قريش، لا يعدّ العطاء معهم مالاً".
ابوظبیان سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ مجھ سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوظبیان! تمہارا وظیفہ کتنا ہے؟ میں نے کہا: ڈھائی ہزار، انہوں نے کہا: اے ابوظبیان! تم زراعت کا کام کرو اور جانوروں کی افزائش نسل کا کام کرو اس سے پہلے کہ قریش کے چھوکرے تمہارے حکمران بنیں، ان کے ہوتے ہوئے وظیفے کو مال نہیں کہا جائے گا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 449]
تخریج الحدیث: (حسن الإسناد)
حدیث نمبر: 450
450/577 عن عبدة بن حزنٍ قال: تفاخر أهل الإبل وأصحاب الشاء، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" بعث موسى وهو راعي غنم، وبعث داود وهو راعي، وبعثت أنا وأنا أرعى غنماً لأهلي بالأجياد"(4).
عبدہ بن حزن کہتے ہیں اونٹوں کے مالکوں نے اور بکریوں کے مالکوں نے آپس میں ایک دوسرے سے فخر کا مقابلہ کیا (اونٹوں کے مالک کہتے تھے کہ ہماری برتری ہے اور بکریوں کے مالک کہتے تھے کہ ہماری برتری ہے)۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب موسیٰ علیہ السلام کو نبی بنایا گیا تو وہ بکریوں کے چرواہے تھے، داؤد علیہ السلام کو نبی بنایا گیا تو وہ بھی چرواہے تھے اور جب مجھے نبی بنایا گیا تو میں اجیاد محلہ میں اپنے گھر والوں کی بکریاں چراتا تھا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 450]
تخریج الحدیث: (صحيح)
234. باب الأعرابية
حدیث نمبر: 451
451/478 عن أبي هريرة، قال:" الكبائر سبع، أولهن: الإشراك بالله، وقتل النفس، ورمي المحصنات، والأعرابية بعد الهجرة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ کبیرہ گناہ سات قسم کے ہیں، ان میں سے سب سے پہلا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، کسی نفس کو (ناحق) قتل کرنا، پاک دامن عورتوں پر بدکاری کا الزام لگانا، ہجرت کے بعد بدوی زندگی اختیار کرنا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 451]
تخریج الحدیث: (صحيح موقوفاً)
235. باب ساكن القرى
حدیث نمبر: 452
452/579 عن ثوبان قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:"لا تسكن الكفور؛ فإن ساكن الكفور كساكن القبور". قال أحمد(1): الكفور القرى.
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”دیہاتوں میں سکونت اختیار نہ کرنا، کیونکہ دیہاتوں میں سکونت اختیار کرنے والا ایسا ہے جیسے قبرستان میں رہنے والا۔“ احمد نے کہا: «كفور» سے مراد ہے: بستیاں (دیہات)۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 452]
تخریج الحدیث: (حسن)
236. باب البدو إلى التلاع
حدیث نمبر: 453
453/580 عن شريح، عن أبيه قال: سألت عائشة عن البدو. قلت: وهل كان النبي صلى الله عليه وسلم يبدُو؟ فقالت:"نعم. كان يبدو إلى هؤلاء التلاع".
شریح اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دیہاتوں میں جانے کے متعلق پوچھا، میں نے پوچھا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی دیہاتوں میں جایا کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں، وہ ان ٹیلوں کی طرف دیہاتوں میں جاتے تھے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 453]
تخریج الحدیث: (صحيح)
237. باب التؤدة فى الأمور
حدیث نمبر: 454
454/583 عن الحسن [هو البصري]؛ أن رجلاً توفي، وترك ابناً له ومولى له، فأوصى مولاه بابنه، فلم يألوه(1) حتى أدرك وزوجه. فقال له: جهزني أطلب العلم، فجهزه، فأتى عالماً فسأله.فقال: إذا أردت أن تنطلق فقل لي: أعلمك. فقال: حضر مني الخروج، فعلمني. فقال:"اتق الله، واصبر، ولا تستعجل". قال الحسن: في هذا الخير كله – فجاء ولا يكاد ينساهن ؛ إنما هن ثلاث- فلما جاء أهله، نزل عن راحلته، فلما نزل الدار إذا هو برجل نائم متراخ عن المرأة، وإذا امرأته نائمة! قال: والله ما أريد ما أنتظر بهذا؟ فرجع إلى راحلته، فلما أراد أن يأخذ السيف قال:"اتق الله، واصبر ولا تستعجل" فرجع، فلما قام على رأسه قال: ما أنتظر بهذا شيئاً، فرجع على راحلته، فلما أراد أن يأخذ سيفه ذكره، فرجع إليه، فلماً قام على رأسه استيقظ الرجل، فلما رآه وثب إليه، فعانقه، وقبله، وسأله. قال: ما أصبت بعدي؟ قال: أصبت والله بعدك خيراً كثيراً، أصبت والله بعدك: أني مشيت الليلة بين السيف وبين رأسك ثلاث مرار، فحجزني ما أصبت من العلم عن قتلك.
حسن بصری سے روایت ہے کہ ایک شخص کا انتقال ہوا تو اس نے اپنا ایک بیٹا اور ایک غلام چھوڑا، اس نے اپنے غلام کو اپنے بیٹے کے بارے میں وصیت کی (کہ میرے بیٹے کا خیال رکھنا)، اس نے (اس کی کفالت اور تربیت میں) کوئی کمی نہ کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گیا اور اس نے اس کی شادی کر دی، اس کے بعد لڑکے نے غلام سے کہا: میرے لیے سامان تیار کر دیجیئے تو میں طلب علم کے لیے نکلوں، اس نے سامان تیار کر دیا تو وہ ایک عالم کے پاس آیا، ان عالم سے علم حاصل کیا، تو عالم نے کہا: جب جانے لگو تو مجھے بتانا میں تمہیں ایک بات سکھاؤں گا۔ اس نے کہا: اب میرے جانے کا وقت آ گیا ہے تو آپ مجھے سکھا دیں۔ اس نے کہا: اللہ سے ڈرتے رہنا، صبر سے کام لینا اور جلد بازی نہ کرنا۔ حسن (بصری) نے کہا: ان (تین نصیحتوں) میں ہر طرح کی خیر پائی جاتی ہے۔ وہ لڑکا واپس آیا اور قریب نہیں تھا کہ ان باتوں کو بھول پائے۔ یہ صرف تین ہی تو تھیں، جب وہ اپنے علاقے میں آیا، اپنی سواری سے اترا، پھر جب وہ گھر اترا تو دیکھا کہ ایک شخص اس کی بیوی سے ذرا فاصلے پر سو رہا ہے اور اس کی بیوی بھی سو رہی ہے۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس منظر پر انتظار کرنے کا نہیں سوچ سکتا۔ وہ اپنی سواری کے پا س واپس گیا۔ جب اس نے تلوار پکڑنے کا ارادہ کیا تو خیال آیا: اللہ سے ڈر، صبر کر اور جلدی سے کام نہ لے، پھر وہ لوٹ آیا اور اس سوتے ہوئے شخص کے سر پر کھڑا ہو گیا لیکن سوچا میں اس پر انتظار نہیں کر سکتا پھر لوٹ کر سواری کے پاس آیا، جب تلوار اٹھانے کا ارادہ کیا تو پھر یاد آیا پھر لوٹ کر آ گیا پھر جب آ کر اس کے سر پر کھڑا ہوا تو وہ شخص جاگ گیا اس نے جیسے ہی اسے دیکھا، جھپٹ کر اس سے معانقہ کیا اور اسے بوسہ دیا اور خیر و عافیت پوچھی کہا: میرے بعد کیسی گزری، کہا: آپ کے بعد بہت اچھی گزری، واللہ بہت اچھی گزری کہ اس رات تین بار تلوار اور آپ کے سر کے مابین دوڑا لیکن وہ علم جو میں نے حاصل کیا ہے وہ حائل ہو گیا۔ (یہ جو سویا ہوا آدمی تھا یہ اس کے باپ کا آزاد کردہ غلام تھا جس کو سوئے ہوئے وہ پہچان نہ سکا جب وہ جاگ گیا تو اس نے اسے پہچان لیا۔)[صحيح الادب المفرد/حدیث: 454]
تخریج الحدیث: (حسن الإسناد)
238. باب التؤدة فى الأمور
حدیث نمبر: 455
455/584 عن أشج عبد القيس قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:"إن فيك لخلقين يحبهما الله" قلت: وما هما يا رسول الله؟ قال:"الحلم، والحياء"، قلت: قديماً أو حديثاً؟ قال:"قديماً". قلتُ: الحمد لله الذي جبلني على خلقين أحبهما الله.
اشج عبدالقیس سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تم میں دو ایسی عادات ہیں جنہیں اللہ پسند فرماتا ہے۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بردباری اور حیا“، میں نے کہا: یہ شروع سے ہیں یا نئی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شروع سے ہیں“، میں نے کہا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے دو ایسی عادات پر پیدا کیا جنہیں اللہ پسند کرتا ہے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 455]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 456
456/585 عن قتادة قال: حدثنا من لقي الوفد الذين قدموا على النبي صلى الله عليه وسلم من عبد القيس – وذكر قتادة أبا نضرة- عن أبي سعيد الخدري قال النبي صلى الله عليه وسلم لأشج عبد القيس:"إن فيك لخصلتين يحبهما الله: الحلم والأناة".
سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے اس نے بیان کیا جو عبدالقیس قبیلے کے اس وفد سے ملا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ قتادہ نے ابونضرہ کا ذکر کیا ہے وہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشج عبدالقیس سے فرمایا: ”بیشک تم میں دو ایسی خصلتیں ہیں جنہیں اللہ پسند فرماتا ہے بردباری اور تحمل مزاجی۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 456]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 457
457/586 عن ابن عباس قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم للأشج؛ أشج عبد القيس:"إن فيك لخصلتين يحبهما الله: الحلم، والأناة".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشج (یعنی اشج عبدالقیس) سے فرمایا: ”بیشک تم میں دو عادتیں ایسی ہیں جنہیں اللہ پسند فرماتا ہے، بردباری اور ٹھہر ٹھہر کر کام کرنا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 457]