454/583 عن الحسن [هو البصري]؛ أن رجلاً توفي، وترك ابناً له ومولى له، فأوصى مولاه بابنه، فلم يألوه(1) حتى أدرك وزوجه. فقال له: جهزني أطلب العلم، فجهزه، فأتى عالماً فسأله.فقال: إذا أردت أن تنطلق فقل لي: أعلمك. فقال: حضر مني الخروج، فعلمني. فقال:"اتق الله، واصبر، ولا تستعجل". قال الحسن: في هذا الخير كله – فجاء ولا يكاد ينساهن ؛ إنما هن ثلاث- فلما جاء أهله، نزل عن راحلته، فلما نزل الدار إذا هو برجل نائم متراخ عن المرأة، وإذا امرأته نائمة! قال: والله ما أريد ما أنتظر بهذا؟ فرجع إلى راحلته، فلما أراد أن يأخذ السيف قال:"اتق الله، واصبر ولا تستعجل" فرجع، فلما قام على رأسه قال: ما أنتظر بهذا شيئاً، فرجع على راحلته، فلما أراد أن يأخذ سيفه ذكره، فرجع إليه، فلماً قام على رأسه استيقظ الرجل، فلما رآه وثب إليه، فعانقه، وقبله، وسأله. قال: ما أصبت بعدي؟ قال: أصبت والله بعدك خيراً كثيراً، أصبت والله بعدك: أني مشيت الليلة بين السيف وبين رأسك ثلاث مرار، فحجزني ما أصبت من العلم عن قتلك.
حسن بصری سے روایت ہے کہ ایک شخص کا انتقال ہوا تو اس نے اپنا ایک بیٹا اور ایک غلام چھوڑا، اس نے اپنے غلام کو اپنے بیٹے کے بارے میں وصیت کی (کہ میرے بیٹے کا خیال رکھنا)، اس نے (اس کی کفالت اور تربیت میں) کوئی کمی نہ کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گیا اور اس نے اس کی شادی کر دی، اس کے بعد لڑکے نے غلام سے کہا: میرے لیے سامان تیار کر دیجیئے تو میں طلب علم کے لیے نکلوں، اس نے سامان تیار کر دیا تو وہ ایک عالم کے پاس آیا، ان عالم سے علم حاصل کیا، تو عالم نے کہا: جب جانے لگو تو مجھے بتانا میں تمہیں ایک بات سکھاؤں گا۔ اس نے کہا: اب میرے جانے کا وقت آ گیا ہے تو آپ مجھے سکھا دیں۔ اس نے کہا: اللہ سے ڈرتے رہنا، صبر سے کام لینا اور جلد بازی نہ کرنا۔ حسن (بصری) نے کہا: ان (تین نصیحتوں) میں ہر طرح کی خیر پائی جاتی ہے۔ وہ لڑکا واپس آیا اور قریب نہیں تھا کہ ان باتوں کو بھول پائے۔ یہ صرف تین ہی تو تھیں، جب وہ اپنے علاقے میں آیا، اپنی سواری سے اترا، پھر جب وہ گھر اترا تو دیکھا کہ ایک شخص اس کی بیوی سے ذرا فاصلے پر سو رہا ہے اور اس کی بیوی بھی سو رہی ہے۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس منظر پر انتظار کرنے کا نہیں سوچ سکتا۔ وہ اپنی سواری کے پا س واپس گیا۔ جب اس نے تلوار پکڑنے کا ارادہ کیا تو خیال آیا: اللہ سے ڈر، صبر کر اور جلدی سے کام نہ لے، پھر وہ لوٹ آیا اور اس سوتے ہوئے شخص کے سر پر کھڑا ہو گیا لیکن سوچا میں اس پر انتظار نہیں کر سکتا پھر لوٹ کر سواری کے پاس آیا، جب تلوار اٹھانے کا ارادہ کیا تو پھر یاد آیا پھر لوٹ کر آ گیا پھر جب آ کر اس کے سر پر کھڑا ہوا تو وہ شخص جاگ گیا اس نے جیسے ہی اسے دیکھا، جھپٹ کر اس سے معانقہ کیا اور اسے بوسہ دیا اور خیر و عافیت پوچھی کہا: میرے بعد کیسی گزری، کہا: آپ کے بعد بہت اچھی گزری، واللہ بہت اچھی گزری کہ اس رات تین بار تلوار اور آپ کے سر کے مابین دوڑا لیکن وہ علم جو میں نے حاصل کیا ہے وہ حائل ہو گیا۔ (یہ جو سویا ہوا آدمی تھا یہ اس کے باپ کا آزاد کردہ غلام تھا جس کو سوئے ہوئے وہ پہچان نہ سکا جب وہ جاگ گیا تو اس نے اسے پہچان لیا۔)[صحيح الادب المفرد/حدیث: 454]