369/473 عن أنس بن مالك قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" يسروا ولا تعسروا، وسكنوا(1) ولا تنفروا".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”آسانی اختیار کرو، سختی نہ کرو، دلوں کو تسکین دو، نفرت نہ دلاؤ۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 369]
تخریج الحدیث: (صحيح)
197. باب الخرق
حدیث نمبر: 369M
" أسند تحته حديث عائشة المتقدم برقم (365/469)".
198. باب اصطناع المال
حدیث نمبر: 370
370/478 عن الحارث [هو ابن لقيط] قال: كان الرجل منّا تنتج فرسه فينحرها، فيقول: أنا أعيش حتى أركب هذا؟! فجاءنا كتاب عمر:"أن أصلحوا ما رزقكم الله؛ فإن في الأمر تنفساً".
حارث ابن لقیط سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کسی کی گھوڑی بچہ دیتی تو وہ اسے مار ڈالتا اور کہتا: کیا میں اس پر سواری کرنے تک زندہ رہوں گا؟ پھر ہمارے پاس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا خط آیا کہ جو کچھ اللہ نے تمہیں عطا کیا ہے اسے اچھی طرح رکھو۔ بیشک اس کام میں آسانی ہے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 370]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 371
371/479 عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إن قامت الساعة وفي يد أحدكم فسيلة(1)؛ فإن استطاع أن لا تقوم حتى يغرسها، فليغرسها".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اگر قیامت بھی آ جائے اور تمہارے ہاتھ میں ایک کھجور ہو تو اگر ہو سکے کہ اس کھجور کو زمین میں لگاتے ہوئے قیامت نہ قائم ہو جائے تو اسے ضرور زمین میں لگا دے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 371]
تخریج الحدیث: (صحيح)
199. باب دعوة المظلوم
حدیث نمبر: 372
223 372/481 عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ثلاث دعوات مستجابات: دعوة المظلوم، ودعوة المسافر، ودعوة الوالد على ولده".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین دعائیں مقبول ہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، اور باپ کی اپنی اولاد کے خلاف دعا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 372]
تخریج الحدیث: (صحيح)
200. باب الظلم ظلمات
حدیث نمبر: 373
225 373/483 عن جابر بن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتقوا الظلم؛ فإن الظلم ظلمات يوم القيامة، واتقوا الشحّ؛ فإن الشحّ أهلك من كان قبلكم، وحملهم على أن سفكوا دماءهم، واستحلوا محارمهم".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکی ہی تاریکی ہے۔ اور بخل سے بچو، کیونکہ بخل نے تم سے پہلوں کو ہلاک کر دیا۔ اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آپس میں خوں ریزی کریں اور انہوں نے اپنی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر لیا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 373]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 374
374/485 عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" الظلم ظلمات يوم القيامة".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم قیامت کے دن کئی اندھیروں کا باعث ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 374]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 375
375/486 عن أبي سعيد، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إذا خلص المؤمنون من النار حبسوا بقنطرة(2) بين الجنة والنار، فيتقاصون مظالم بينهم في الدنيا، حتى إذا نقوا وذهبوا، أُذن لهم بدخول الجنة فوالذي نفس محمد بيده! لأحدهم بمنزلهِ أدلُّ منه في الدنيا".
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اہل ایمان جہنم (پل صراط) سے نجات پا جائیں گے تو جنت و دوزخ کے مابین ایک پل پر روک دیے جائیں گے اور جو دنیا میں آپس میں مظالم کیے ہوں گے ان کا بدلہ لیں گے اور جب انہیں پاک صاف کر لیا جائے گا تب انہیں جنت میں جانے کی اجازت دی جائے گی۔ تو قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے ان میں سے ہر شخص اپنی منزل کو اس سے زیادہ بہتر طریقے پر پہچانے گا جتنا کہ وہ دنیا میں پہچانتا ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 375]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 376
376/489 عن أبي الضحى قال: اجتمع مسروق وشتير بن شكل في المسجد، فتقوض إليهما(3) حلق المسجد، فقال مسروق: لا أرى هؤلاء يجتمعون إلينا، إلا ليستمعوا منا خيراً، فإما أن تحدّث عن عبد الله فأصدقك أنا، وإما أن أحدث عن عبد الله فتصدقني؟ فقال: حدث يا أبا عائشة! قال: هل سمعت عبد الله يقول:" العينان يزنيان واليدان يزينيان، والرجلان يزنيان، والفرج يصدق ذلك كله ويكذبه!". فقال: نعم. قال: وأنا سمعته. قال: فهل سمعتَ عبد الله يقول:" ما في القرآن آية أجمع لحلال وحرام وأمر ونهي، من هذه الآية:? إن الله يأمر بالعدل(4) والإحسان وإيتاء ذي القربى? [النحل: 90]؟ قال: نعم، وأنا قد سمعته، قال فهل سمعت عبد الله يقول: ما في القرآن أية أسرع فرجاً من قوله:? ومن يتق الله يجعل له مخرجاً? [الطلاق: 2]؟ قال: نعم. قال: وأنا قد سمعته. قال: فهل سمعت عبد الله يقول:" ما في القرآن آية أشد تفويضاً من قوله:? يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله? [ الزمر: 53]؟" قال: نعم. قال: وأنا سمعته..
ابوضحی بیان کرتے ہیں کہ مسروق اور شتیر بن شکل مسجد میں اکھٹے ہو گئے تو مسجد کے سب حلقے ان دونوں کی طرف سمٹ آئے۔ اس پر مسروق نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ ہمارے پاس کوئی اچھی بات سننے کو ہی جمع ہوئے ہیں۔ یا تو آپ عبداللہ سے روایت کریں اور میں تصدیق کروں یا میں عبداللہ سے روایت کروں اور آپ میری تصدیق کریں۔ انہوں نے کہا: اے ابوعائشہ آپ روایت کریں۔ انہوں نے کہا: کیا آپ نے عبداللہ بن مسعود کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ آنکھیں زنا کرتی ہیں، ہاتھ زنا کرتے ہیں، پیر زنا کرتے ہیں اور شرم گاہ ان کی تصدیق کرتی ہے یا ان کی تکذیب کرتی ہے۔ تو انہوں نے کہا: ہاں (میں نے سنا ہے)۔ انہوں نے کہا: یہ میں نے بھی سنا ہے۔ انہوں نے کہا: کیا آپ نے عبداللہ سے یہ بھی سنا ہے کہ قرآن مجید میں اس آیت سے بڑھ کر کوئی آیت نہیں جس میں حلال و حرام اور امر ونہی سب ہی بیان کر دیے گئے ہیں۔ وہ آیت یہ ہے: «إن الله يأمر بالعدل والإحسان وإيتاء ذي القربى» ”بے شک اللہ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے اور قرابت داروں کو دینے لینے کا حکم دیتا ہے۔“ انہوں نے کہا: ہاں۔ انہوں نے کہا: میں نے بھی سنا ہے۔ انہوں نے کہا: کیا آپ نے عبداللہ سے یہ بھی سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ قرآن مجید میں لوگوں کی مشکلات کو جلد دور کرنے والی اس آیت سے بڑھ کر کوئی آیت نہیں: «ومن يتق الله يجعل له مخرجا»”اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کی راہ پیدا کر دیتا ہے۔“ انہوں نے کہا: ہاں۔ انہوں نے کہا: میں نے بھی سنا ہے۔ انہوں نے کہا: کیا آپ نے عبداللہ سے یہ بھی سنا ہے کہ قرآن مجید میں کوئی آیت نہیں ہے جس میں اس سے زیادہ شدید توکل (سپردگی) ہو: «يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا»”اے میرے وہ بندو! جو اپنی جانوں پر زیادتی کر چکے ہو اللہ کی رحمت سے بالکل مایوس نہ ہو جاؤ۔“ انہوں نے کہا: ہاں۔ انہوں نے کہا: میں نے بھی سنا ہے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 376]
تخریج الحدیث: (حسن الإسناد)
حدیث نمبر: 377
377/490 عن أبي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، عن الله تبارك وتعالى قال:" يا عبادي! إني قد حرمت الظلم على نفسي، وجعلته محرماً بينكم فلا تظالموا. يا عبادي! إنكم الذين تخطئون بالليل والنهار وأنا أغفر الذنوب، ولا أبالي؛ فاستغفروني أغفر لكم. يا عبادي! كلكم جائع إلا من أطعمته؛ فاستطعموني أطعمكم. [يا عبادي]!(5) كلكم عارٍ إلا من كسوته؛ فاستكسوني أكسكم. يا عبادي! لو أن أولكم وآخركم، وإنسكم وجنكم، كانوا على أتقى قلب عبد منكم، لم يزد ذلك في ملكي شيئاً، ولو كانوا على أفجر قلب رجل، لم ينقص ذلك من ملكي شيئاً، ولو اجتمعوا في صعيد واحد، فسألوني فأعطيت كل إنسان منهم ما سأل؛ لم ينقص ذلك من ملكي شيئاً؛ إلا كما ينقص البحر أن يغمس فيه الخط غمسة واحدة. يا عبادي! إنما هي أعمالكم أجعلها(6) عليكم؛ فمن وجد خيراً فليحمد الله؛ ومن وجد غير ذلك فلا يلوم إلا نفسه". كان أبو إدريس، إذا حدث بهذا الحديث، جثى على ركبتيه.(7).
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اور وہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے میرے بندو! بیشک میں نے اپنے اوپر ظلم حرام کر رکھا ہے اور تمہارے لیے بھی اس کو حرام کر دیا ہے، تو ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو۔ اے میرے بندو! تم ہو کہ روزانہ دن رات خطاؤں کا ارتکا ب کرتے ہو اور میں ہوں کہ گناہوں کی مغفرت کرتا رہتا ہوں اور اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا مجھ سے معافی طلب کرو میں معاف کرتا ہوں۔ اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو، سوائے ان کے جنہیں میں کھلا دوں تو مجھ سے کھانا طلب کرو میں تم کو کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بے لباس ہو سوائے اس کے جس کو میں لباس پہناؤں۔ تو مجھ سے لباس مانگو، میں تمہیں پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اول و آخر، اور تمہارے انسان و جن سب کے سب بہترین متقی دل والے ہو جائیں تو میری ملکیت میں میں ذرّہ برابر کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔ اور اگر فاجر ترین قلب والے ہو جائیں تو اس سے میری ملکیت میں ذرّہ برابر کمی نہ ہو گی۔ اگر یہ ایک ہی ہموار جگہ اکھٹے ہو کر مجھ سے سوال کریں اور میں ہر ہر انسان کو وہ دے دوں جو اس نے مانگا ہے تو اس سے میری ملکیت میں اس سے زیادہ کمی نہ ہو گی جتنی کہ ایک سوئی کو سمندر میں ایک بار غوطہ دینے سے سمندر میں کمی ہو سکتی ہے۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جنہیں میں تم پر مسلط کر دیتا ہوں۔ اب جو شخص خیر پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے خلاف پائے وہ اپنی ذات کے علاوہ کسی اور پر ملامت نہ کرے۔“(امام شافعی) ابوادریس جب اس حدیث کو بیان کرتے تھے تو اپنے دونوں گھٹنے زمین پر ٹیک دیتے تھے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 377]