سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہاری تین باتوں سے راضی ہوتا ہے اور تین باتوں سے ناراض ہوتا ہے۔ تمہاری جن تین باتوں سے راضی ہوتا ہے وہ یہ ہیں کہ تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور اللہ کی رسی کو مل کر مضبوطی سے تھام لو، اور جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے معاملے کا حاکم بنایا ہے اس کی خیر خواہی کرو۔ اور تمہارے لیے «قيل و قال»(یہ سنا، وہ کہا گیا، کسی نے کہا وغیرہ)، کثرت سے سوال کرنا اور مال ضائع کرنا ناپسند کیا ہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ السَّرَفِ فِي الْبِنَاءِ/حدیث: 442]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، الاقضية، باب النهي عن كثرة المسائل من غير حاجة ...........: 1715 - انظر الصحيحة: 685»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ارشاد باری تعالیٰ: ”اور تم جو چیز بھی خرچ کرو وہ اس کا بدل دے گا اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔“ کے بارے میں فرمایا: اس کا مطلب ہے فضول خرچی نہ ہو اور نہ ہی بخل ہو۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّرَفِ فِي الْبِنَاءِ/حدیث: 443]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه لوين: 10 و الصوري فى الفوائد: 20 و البيهقي فى شعب: 6129»
ابوالعبیدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے فضول خرچی کرنے والوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: جو ناحق خرچ کرتے ہیں وہ فضول خرچ ہیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّرَفِ فِي الْبِنَاءِ/حدیث: 444]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى شيبة: 26599 و الطبراني فى الكبير: 207/9 و البيهقي فى الشعب: 6126»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مبذرین کی تفسیر کے بارے میں مروی ہے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو غیر حق میں خرچ کرتے ہیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّرَفِ فِي الْبِنَاءِ/حدیث: 445]
حضرت اسلم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ برسرِ منبر فرماتے تھے: اے لوگو! اپنے گھروں کی اصلاح کرو اور ان چھوٹے سانپوں کو ڈراؤ (مار دو) اس سے پہلے کہ وہ تمہیں خوف زدہ کریں۔ ان میں سے جو غیر موذی یا مسلمان (جن) ہوتے ہیں وہ تمہارے سامنے ظاہر نہیں ہوتے۔ اللہ کی قسم! ہم نے ان سے کوئی صلح نہیں کی جب سے ان کی ہماری دشمنی ہوئی ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّرَفِ فِي الْبِنَاءِ/حدیث: 446]
تخریج الحدیث: «حسن الإسناد و الجملة الأخيرة منه صحت مرفوعة: المشكاة / التحقيق الثاني: 4139 - أخرجه عبدالرزاق: 9250 و ابن أبى شيبة: 26328»
قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد و الجملة الأخيرة منه صحت مرفوعة
سیدنا خباب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: بلاشبہ آدمی کو ہر چیز کا اجر ضرور ملتا ہے سوائے عمارت کی تعمیر کے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّرَفِ فِي الْبِنَاءِ/حدیث: 447]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الترمذي، كتاب صفة القيامة: 2483 و ابن ماجه: 4163 و الطبراني فى الكبير: 72/4 - انظر الصحيحة: 2831»
نافع بن عاصم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے سنا کہ انہوں نے اپنے بھتیجے کو کہا جبکہ وہ (طائف میں واقع) اپنے باغ سے نکل رہے تھے: کیا تیرے مزدور کام کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: مجھے علم نہیں۔ انہوں نے کہا: اگر تم ثقفی ہوتے تو تم جانتے ہوتے کہ تمہارے مزدور کیا کام کر رہے ہیں، یا تم اپنے مزدوروں کے ساتھ کام کرتے۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: آدمی جب اپنے گھر یا مال میں اپنے مزدوروں کے ساتھ کام کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے عمال میں سے ایک مزدور شمار ہوتا ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّرَفِ فِي الْبِنَاءِ/حدیث: 448]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ لوگ عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ بازی کریں۔“[الادب المفرد/كِتَابُ السَّرَفِ فِي الْبِنَاءِ/حدیث: 449]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الفتن: 7121 - انظر الإرواء: 3/32/1»
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں میں جاتا تھا تو بآسانی اپنے ہاتھ سے چھت کو چھو لیتا تھا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّرَفِ فِي الْبِنَاءِ/حدیث: 450]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى الدنيا فى قصر الأمل: 245 و أبوداؤد فى المراسيل: 297 و ابن سعد فى الطبقات: 388/1 و البيهقي فى شعب الإيمان: 10734»
داؤد بن قیس رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے ازواج مطہرات کے حجرے دیکھے جو کھجور کی ٹہنیوں کے تھے۔ باہر سے انہیں بالوں کے ٹاٹ سے ڈھانکا ہوا تھا۔ میرا خیال ہے کہ گھر کی چوڑائی حجرے کے دروازے سے لے کر دوسرے گھر کے دروازے تک تقریباً چھ سات ہاتھ تھی۔ اندر سے گھر کا اندازہ لگایا تو دس ہاتھ تھا۔ اس کی چھت آٹھ یا سات ہاتھ کے قریب تھی۔ اور میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر کھڑا ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہ مغرب کی طرف تھا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّرَفِ فِي الْبِنَاءِ/حدیث: 451]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى الدنيا فى قصر الأمل: 244 و أبوداؤد فى المراسيل: 496 و البيهقي فى شعب الإيمان: 10735»