حضرت اسلم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ برسرِ منبر فرماتے تھے: اے لوگو! اپنے گھروں کی اصلاح کرو اور ان چھوٹے سانپوں کو ڈراؤ (مار دو) اس سے پہلے کہ وہ تمہیں خوف زدہ کریں۔ ان میں سے جو غیر موذی یا مسلمان (جن) ہوتے ہیں وہ تمہارے سامنے ظاہر نہیں ہوتے۔ اللہ کی قسم! ہم نے ان سے کوئی صلح نہیں کی جب سے ان کی ہماری دشمنی ہوئی ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّرَفِ فِي الْبِنَاءِ/حدیث: 446]
تخریج الحدیث: «حسن الإسناد و الجملة الأخيرة منه صحت مرفوعة: المشكاة / التحقيق الثاني: 4139 - أخرجه عبدالرزاق: 9250 و ابن أبى شيبة: 26328»
قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد و الجملة الأخيرة منه صحت مرفوعة
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 446
فوائد ومسائل: (۱)عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنے گھروں کو درست اور مضبوط رکھو تاکہ نقصان سے بچ سکو۔ اگر گھر درست ہوگا اور اس میں سوراخ وغیرہ نہیں ہوں گے تو موذی جانور اندر داخل نہیں ہوسکیں گے۔ (۲) گھر میں اگر سانپ نظر آئے تو اس سے ڈرنے کی بجائے اسے قتل کر دینا چاہیے تاکہ ان پر رعب قائم ہو جائے اور وہ بھاگ جائیں۔ اگر ان سے ڈر کر چھوڑا گیا تو وہ غالب آجائیں گے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ تَرَكَ شَیْئًا مِنْهُنَّ خَیْفَةً فَلَیْسَ مِنَّا))(سنن أبي داود:۵۲۵۰) ”جس نے ان میں سے کسی کو ڈر کر چھوڑا (کہ وہ بدلہ نہ لے)وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ (۳) جنات بھی سانپوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ شروع اسلام میں بہت سے جن مسلمان ہوگئے تو وہ مدینہ میں رہتے تھے اور گھروں میں بسا اوقات سانپ کی شکل میں ظاہر ہوتے تھے۔ اس لیے یہ حکم دیا گیا کہ تین دفعہ کہہ دو کہ گھروں سے نکل جاؤ اور اس کے بعد ظاہر ہو تو اسے قتل کرنا جائز ہے۔ ایک روایت میں تین دن مہلت دینے اور تنبیہ کرنے کا حکم بھی آیا ہے۔ (ابي داود:۵۲۵۹)بعد ازاں مطلق طور پر قتل کرنے کی اجازت دے دی گئی جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان سے ظاہر ہے کہ جو مسلمان جن ہوتے ہیں وہ سانپ کی صورت میں تمہارے گھروں میں ظاہر نہیں ہوتے۔ (۴) انسان کی طرح سانپ کی جبلت اور فطرت میں یہ چیز شامل ہے کہ وہ شکست قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور انتقام کا جذبہ اس میں کار فرما ہوتا ہے اس لیے انسان سے روز اول سے اس کی دشمنی ہے اور کبھی صلح نہیں ہوئی اس لیے اس سے ڈرنے کی بجائے اور اس پر پہلے حملہ کر دینا چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 446