سیدہ ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرواتا ہے، تو وہ اچھی بات کرتا ہے یا اچھی بات پھیلاتا ہے۔“ وہ فرماتی ہیں: میں نے تین مواقع کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں سنی: لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے، خاوند کا بیوی کے ساتھ، اور بیوی کا خاوند سے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 385]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الصلح، باب ليس الكاذب الذى يصلح بين الناس: 2692 و مسلم: 2605 و أبوداؤد: 4921 و الترمذي: 1938 - انظر الصحيحة: 545»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سچائی کو لازم پکڑو کیونکہ سچائی نیکی اور اطاعت کی طرف لے جاتی ہے، اور نیکی جنت کی راہ ہموار کرتی ہے، اور بلاشبہ آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اسے بہت سچا لکھ دیا جاتا ہے۔ اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے، اور فجور آگ کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ اور آدمی مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اسے بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 386]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6094 و مسلم: 2607 و أبوداؤد: 4989 و الترمذي: 1971 و رواه ابن ماجه بمعناه: 46 - انظر المشكاة: 4824»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: سنجیدگی یا مزاح کسی صورت میں بھی جھوٹ درست نہیں، حتی کہ یہ بھی جائز نہیں کہ تم میں سے کوئی اپنے بچے سے کسی چیز کے دینے کا وعدہ کرے اور پھر نہ دے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 387]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن المبارك فى الزهد: 1400 و ابن أبى شيبة: 25601 و هناد فى الزهد: 1341 و الطبراني فى الكبير: 199/9 و البيهقي فى الشعب: 441/6»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مومن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی ایذا رسانی پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے بہتر ہے جو لوگوں کے ساتھ مل کر نہیں رہتا اور ان کی ایذا پر صبر نہیں کرتا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 388]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الترمذي، كتاب القيامة، باب حدثنا أبوموسىٰ: 2507 و ابن ماجه: 4032 - انظر الصحيحة: 939»
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص تکلیف دہ بات سن کر اللہ عزوجل سے زیادہ صبر کرنے والا نہیں ہے۔ بلاشبہ وہ (لوگ) اس کے لیے اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ اس کے باوجود انہیں عافیت دیتا ہے اور رزق عطا کرتا ہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 389]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب الصبر فى الأذىٰ ............: 6099، 7378 و مسلم: 2804 و النسائي فى الكبرىٰ: 145/7 - انظر الصحيحة: 2249»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (غزوہ حنین کے موقع پر) مال تقسیم کیا جس طرح پہلے بھی کرتے تھے (تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نومسلموں کو ترجیح دی)، ایک انصاری شخص نے کہا: اللہ کی قسم! اس تقسیم سے اللہ کی رضا مقصود نہیں تھی۔ میں نے کہا: میں یہ بات ضرور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤں گا، چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سرگوشی کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت صحابہ کرام میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات بہت گراں گزری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدید غضب ناک ہوئے یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ ہی بتاتا (تو بہتر تھا)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقینا موسیٰ علیہ السلام کو اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی تو انہوں نے صبر کیا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 390]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب أحاديث الأنبياء عليهم السلام: 3150، 3405 و مسلم: 1062 و الترمذي: 3896 - انظر الصحيحة: 3175»
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں نماز، روزہ اور صدقہ سے بلند درجہ عمل کے متعلق نہ بتاؤں؟“ صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں (ضرور بتائیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آپس کے بگاڑ کی اصلاح کرنا۔ اور آپس میں بگاڑ پیدا کرنے کی عادت تو (دین کو) مونڈ کر رکھ دیتی ہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 391]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأدب، باب فى إصلاح ذات البين: 4919 و الترمذي: 2509 - انظر المشكاة: 5038»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے ارشادِ باری تعالیٰ: «﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ﴾»”اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی معاملات کی اصلاح کرو“ کے بارے میں فرمایا: اس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو پابند کر دیا ہے کہ وہ ہر صورت میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور اپنے معاملات کی اصلاح کریں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 392]
تخریج الحدیث: «صحيح الإسناد موقوفًا و روى نحوه مرفوعًا من حديث ابن عباس: أخرجه ابن أبى شيبة: 34780 و الطبراني فى تفسيره: 384/13 و البيهقي فى شعب الإيمان: 11084 - التعليق الرغيب: 410/3»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوفًا و روى نحوه مرفوعًا من حديث ابن عباس
سیدنا سفیان بن اسید حضرمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات بیان کرو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو جبکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 393]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه المصنف فى التاريخ الكبير: 86/4 و أبوداؤد: 4973 و البيهقي فى الكبرىٰ: 199/10 - انظر الضعيفة: 1251»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
185. بَابُ لا تَعِدْ أَخَاكَ شَيْئًا فَتُخْلِفَهُ
185. اپنے بھائی سے کوئی وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی نہ کریں
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو، اور نہ اس سے مذاق کرو (جس سے اس کو تکلیف ہو)، اور نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی تم خلاف ورزی کرو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 394]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه الترمذي، كتاب البر و الصلة، باب ماجاء فى المراء: 1995 - انظر المشكاة: 4892»