سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مومن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی ایذا رسانی پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے بہتر ہے جو لوگوں کے ساتھ مل کر نہیں رہتا اور ان کی ایذا پر صبر نہیں کرتا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 388]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الترمذي، كتاب القيامة، باب حدثنا أبوموسىٰ: 2507 و ابن ماجه: 4032 - انظر الصحيحة: 939»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 388
فوائد ومسائل: (۱)لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا افضل ہے یا تنہائی بہتر ہے، مختلف دلائل کی بنا پر اہل علم کے درمیان اس میں اختلاف ہے۔ راجح بات یہ ہے کہ کسی ایک پہلو کو کلی طور پر افضل قرار دینا مشکل ہے۔ وقت، افراد اور جگہ کے اعتبار سے اس کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایک فرد کے لیے مل جل کر رہنا افضل ہو اور دوسرے کے لیے علیحدگی اور تنہائی افضل ہو۔ مثلاً جس شخص میں لوگوں کی ایذا برداشت کرنے کی طاقت نہ ہو اور کسی فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے خلوت نشینی افضل ہوگی اور جس میں صبر و حوصلہ ہے اس کے لیے مل جل کر رہنا افضل ہوگا۔ (۲) جو شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے لوگوں میں رہتا ہے، غیبت اور دیگر معاشرتی برائیوں سے بھی بچتا ہے اور اس راستے میں پہنچنے والی تکالیف پر صبر کرتا ہے تو یہ اس سے بلاشبہ افضل ہے جو ایسا نہیں کرسکتا لیکن اگر کوئی شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام نہیں دے سکتا اور دیگر معاشرتی برائیوں سے نہیں بچ سکتا اور اس میں صبر بھی نہیں ہے تو اس کے حق میں بہتر اور افضل یہی ہے کہ وہ الگ رہے تاکہ وہ کسی بڑے فتنے سے بچ سکے۔ (۳) الگ تھلگ رہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے باجماعت نماز، جمعہ، جنازہ اور عبادت وغیرہ دیگر فرائض سے بھی رخصت ہے۔ یہ اسے ہر حال میں کرنا پڑے گا ورنہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مجرم ٹھہرے گا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 388