سیدہ ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرواتا ہے، تو وہ اچھی بات کرتا ہے یا اچھی بات پھیلاتا ہے۔“ وہ فرماتی ہیں: میں نے تین مواقع کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں سنی: لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے، خاوند کا بیوی کے ساتھ، اور بیوی کا خاوند سے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 385]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الصلح، باب ليس الكاذب الذى يصلح بين الناس: 2692 و مسلم: 2605 و أبوداؤد: 4921 و الترمذي: 1938 - انظر الصحيحة: 545»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 385
فوائد ومسائل: (۱)خلاف واقع بات کو جھوٹ کہتے ہیں، قائل جان بوجھ کر کرے یا جہالت کی بنا پر، ہر دو صورتوں میں جھوٹ ہی ہوگا، تاہم جہالت کی بنا پر گناہ نہیں ہوگا۔ قرآن مجید کی روشنی میں ہر وہ بات جھوٹ ہے جس پر کوئی دلیل نہ ہو۔ (۲) امام نووی فرماتے ہیں کہ جھوٹ مطلقاً حرام ہے (الاذکار)تاہم مصلحت کی بنا پر بعض صورتیں مستثنیٰ ہیں جن میں سے تین درج بالا حدیث میں مذکور ہیں۔ پہلی صورت یہ کہ لوگوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے خلاف واقعہ بات کرنا جائز ہے بشرطیکہ مقصد اصلاح ہو، فساد برپا کرنا نہ ہو۔ ہوگا یہ بھی جھوٹ ہی لیکن مخصوص صورت میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ (۳) ینمی خیراً کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی کی اچھی بات آگے کرتا ہے لیکن بری بات نہیں کرتا بلکہ اس سے خاموشی اختیار کرتا ہے۔ اس صورت میں یہ جھوٹ نہیں ہوگا کیونکہ اس نے خلاف واقع کوئی بات نہیں کی۔ (۴) میاں بیوی کا رشتہ صداقت اور محبت پر استوار ہونا چاہیے۔ انہیں ایک دوسرے کا مخلص ہونا چاہیے لیکن بسا اوقات دل میں محبت اور پیار اس درجے کا نہیں ہوتا جس کا فریق ثانی تقاضا کرتا ہے تو ایسی صورت میں دلی محبت سے زیادہ کا اظہار جائز ہے تاکہ رشتہ زواج زیادہ دیر قائم رہے اور فریق ثانی کا اخلاق درست رہے۔ (۵) اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میاں بیوی ہر معاملے میں ایک دوسرے سے جھوٹ بول سکتے ہیں۔ بلکہ صرف بگاڑ سے بچنے اور اصلاح کی خاطر مخصوص صورت میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 385