ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو لیث نے خبر دی ‘ انہیں عقیل نے ‘ انہیں ابن شہاب نے ‘ انہیں سالم نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض مہموں کے موقع پر اس میں شریک ہونے والوں کو غنیمت کے عام حصوں کے علاوہ (خمس وغیرہ میں سے) اپنے طور پر بھی دیا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3135]
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے برید بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی خبر ہمیں ملی ‘ تو ہم یمن میں تھے۔ اس لیے ہم بھی آپ کی خدمت میں مہاجر کی حیثیت سے حاضر ہونے کے لیے روانہ ہوئے۔ میں تھا ‘ میرے بھائی تھے۔ (میری عمران دونوں سے کم تھی ‘ دونوں بھائیوں میں) ایک ابوبردہ رضی اللہ عنہ تھے اور دوسرے ابورہم۔ یا انہوں نے یہ کہا کہ اپنی قوم کے چند افراد کے ساتھ یا یہ کہا تریپن یا باون آدمیوں کے ساتھ (یہ لوگ روانہ ہوئے تھے) ہم کشتی میں سوار ہوئے تو ہماری کشتی نجاشی کے ملک حبشہ پہنچ گئی اور وہاں ہمیں جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ملے۔ جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں بھیجا تھا اور حکم دیا تھا کہ ہم یہیں رہیں۔ چنانچہ ہم بھی وہیں ٹھہر گئے۔ اور پھر سب ایک ساتھ (مدینہ) حاضر ہوئے ‘ جب ہم خدمت نبوی میں پہنچے ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر فتح کر چکے تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوسرے مجاہدوں کے ساتھ) ہمارا بھی حصہ مال غنیمت میں لگایا۔ یا انہوں نے یہ کہا کہ آپ نے غنیمت میں سے ہمیں بھی عطا فرمایا ‘ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسے شخص کا غنیمت میں حصہ نہیں لگایا جو لڑائی میں شریک نہ رہا ہو۔ صرف انہی لوگوں کو حصہ ملا تھا ‘ جو لڑائی میں شریک تھے۔ البتہ ہمارے کشتی کے ساتھیوں اور جعفر اور ان کے ساتھیوں کو بھی آپ نے غنیمت میں شریک کیا تھا (حالانکہ ہم لوگ لڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3136]
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ‘ کہا ہم سے محمد بن منکدر نے ‘ اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب بحرین سے وصول ہو کر میرے پاس مال آئے گا تو میں تمہیں اس طرح اس طرح ‘ اس طرح (تین لپ) دوں گا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور بحرین کا مال اس وقت تک نہ آیا۔ پھر جب وہاں سے مال آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے منادی نے اعلان کیا کہ جس کا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی قرض ہو یا آپ کا کوئی وعدہ ہو تو ہمارے پاس آئے۔ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا اور عرض کیا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ چنانچہ انہوں نے تین لپ بھر کر مجھے دیا۔ سفیان بن عیینہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کر کے (لپ بھرنے کی) کیفیت بتائی پھر ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ ابن منکدر نے بھی ہم سے اسی طرح بیان کیا تھا۔ اور ایک مرتبہ سفیان نے (سابقہ سند کے ساتھ) بیان کیا کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا۔ پھر میں حاضر ہوا ‘ اور اس مرتبہ بھی مجھے انہوں نے کچھ نہیں دیا۔ پھر میں تیسری مرتبہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے ایک مرتبہ آپ سے مانگا اور آپ نے عنایت نہیں فرمایا۔ دوبارہ مانگا ‘ پھر بھی آپ نے عنایت نہیں فرمایا اور پھر مانگا لیکن آپ نے عنایت نہیں فرمایا۔ اب یا آپ مجھے دیجئیے یا پھر میرے بارے میں بخل سے کام لیجئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم کہتے ہو کہ میرے معاملے میں بخل سے کام لیتا ہے۔ حالانکہ تمہیں دینے سے جب بھی میں نے منہ پھیرا تو میرے دل میں یہ بات ہوتی تھی کہ تمہیں کبھی نہ کبھی دینا ضرور ہے۔، سفیان نے بیان کیا کہ ہم سے عمرو نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن علی نے اور ان سے جابر نے ‘ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک لپ بھر کر دیا اور فرمایا کہ اسے شمار کر میں نے شمار کیا تو پانچ سو کی تعداد تھی ‘ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اتنا ہی دو مرتبہ اور لے لے۔ اور ابن المنکدر نے بیان کیا (کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا) بخل سے زیادہ بدترین اور کیا بیماری ہو سکتی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3137]
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے قرۃ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ میں غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ ایک شخص ذوالخویصرہ نے آپ سے کہا، انصاف سے کام لیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر میں بھی انصاف سے کام نہ لوں تو بدبخت ہوا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3138]
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں محمد بن جبیر نے اور انہیں ان کے والد رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں فرمایا تھا کہ اگر مطعم بن عدی (جو کفر کی حالت میں مر گئے تھے) زندہ ہوتے اور ان نجس، ناپاک لوگوں کی سفارش کرتے تو میں ان کی سفارش سے انہیں (فدیہ لیے بغیر) چھوڑ دیتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3139]
17. باب: اس کی دلیل کہ خمس میں امام کو اختیار ہے وہ اسے اپنے بعض (مستحق) رشتہ داروں کو بھی دے سکتا ہے اور جس کو چاہے نہ دے، دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے خمس میں سے بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کو دیا (اور دوسرے قریش کو نہ دیا)۔
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام رشتہ داروں کو نہیں دیا اور اس کی بھی رعایت نہیں کی کہ جو قریبی رشتہ دار ہو اسی کو دیں۔ بلکہ جو زیادہ محتاج ہوتا، آپ اسے عنایت فرماتے، خواہ رشتہ میں وہ دور ہی کیوں نہ ہو۔ اگرچہ آپ نے جن لوگوں کو دیا وہ یہی دیکھ کر وہ محتاجی کا آپ سے شکوہ کرتے تھے اور یہ بھی دیکھ کر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانبداری اور طرفداری میں ان کو جو نقصان اپنی قوم والوں اور ان کے ہم قسموں سے پہنچا (وہ بہت تھا)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: Q3140]
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے ابن مسیب نے بیان کیا اور ان سے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ نے بنو مطلب کو تو عنایت فرمایا لیکن ہم کو چھوڑ دیا، حالانکہ ہم کو آپ سے وہی رشتہ ہے جو بنو مطلب کو آپ سے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنو مطلب اور بنو ہاشم ایک ہی ہے۔ لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا اور (اس روایت میں) یہ زیادتی کی کہ جبیر رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبدشمس اور بنو نوفل کو نہیں دیا تھا، اور ابن اسحاق (صاحب مغازی) نے کہا ہے کہ عبدشمس، ہاشم اور مطلب ایک ماں سے تھے اور ان کی ماں کا نام عاتکہ بن مرہ تھا اور نوفل باپ کی طرف سے ان کے بھائی تھے (ان کی ماں دوسری تھیں)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3140]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
18. بَابُ مَنْ لَمْ يُخَمِّسِ الأَسْلاَبَ:
18. باب: جو کوئی مقتول کافروں کے ساز و سامان میں خمس نہ دے۔
مقتول کے جسم پر جو سامان ہو (کپڑے، ہتھیار وغیرہ) وہ سامان تقسیم میں شریک ہو گا نہ اس میں سے خمس لیا جائے گا بلکہ وہ سارا قاتل کو ملے گا اور امام کا ایسا حکم۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: Q3141]
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یوسف بن ماجشون نے، ان سے صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف نے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے صالح کے دادا (عبدالرحمٰن بن عوفص) نے بیان کے کہ بدر کی لڑائی میں، میں صف کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ میں نے جو دائیں بائیں جانب دیکھا، تو میرے دونوں طرف قبیلہ انصار کے دو نوعمر لڑکے تھے۔ میں نے آرزو کی کاش! میں ان سے زبردست زیادہ عمر والوں کے بیچ میں ہوتا۔ ایک نے میری طرف اشارہ کیا، اور پوچھا چچا! آپ ابوجہل کو بھی پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں! لیکن بیٹے تم لوگوں کو اس سے کیا کام ہے؟ لڑکے نے جواب دیا مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے وہ مل گیا تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک ہم میں سے کوئی جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہو گا، مر نہ جائے، مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی۔ پھر دوسرے نے اشارہ کیا اور وہی باتیں اس نے بھی کہیں۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے ابوجہل دکھائی دیا جو لوگوں میں (کفار کے لشکر میں) گھومتا پھر رہا تھا۔ میں نے ان لڑکوں سے کہا کہ جس کے متعلق تم لوگ مجھ سے پوچھ رہے تھے، وہ سامنے (پھرتا ہوا نظر آ رہا) ہے۔ دونوں نے اپنی تلواریں سنبھالیں اور اس پر جھپٹ پڑے اور حملہ کر کے اسے قتل کر ڈالا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو خبر دی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم دونوں میں سے کس نے اسے مارا ہے؟ دونوں نوجوانوں نے کہا کہ میں نے قتل کیا ہے۔ اس لیے آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا اپنی تلواریں تم نے صاف کر لی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں تلواروں کو دیکھا اور فرمایا کہ تم دونوں ہی نے اسے مارا ہے۔ اور اس کا سامان معاذ بن عمرو بن جموح کو ملے گا۔ وہ دونوں نوجوان معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن جموع تھے۔ محمد نے کہا یوسف نے صالح سے سنا اور ابراہیم نے اپنے باپ سے سنا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3141]
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے ابن افلح نے، ان سے ابوقتادہ کے غلام ابومحمد نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے۔ پھر جب ہمارا دشمن سے سامنا ہوا تو (ابتداء میں) اسلامی لشکر ہارنے لگا۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ مشرکین کے لشکر کا ایک شخص ایک مسلمان کے اوپر چڑھا ہوا ہے۔ اس لیے میں فوراً ہی گھوم پڑا اور اس کے پیچھے سے آ کر تلوار اس کی گردن پر ماری۔ اب وہ شخص مجھ پر ٹوٹ پڑا، اور مجھے اتنی زور سے اس نے بھینچا کہ میری روح جیسے قبض ہونے کو تھی۔ آخر جب اس کو موت نے آ ڈبوچا، تب کہیں جا کر اس نے مجھے چھوڑا۔ اس کے بعد مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ملے، تو میں نے ان سے پوچھا کہ مسلمان اب کس حالت میں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جو اللہ کا حکم تھا وہی ہوا۔ لیکن مسلمان ہارنے کے بعد پھر مقابلہ پر سنبھل گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا کہ جس نے بھی کسی کافر کو قتل کیا ہو اور اس پر وہ گواہ بھی پیش کر دے تو مقتول کا سارا ساز و سامان اسے ہی ملے گا (ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا) میں بھی کھڑا ہوا۔ اور میں نے کہا کہ میری طرف سے کون گواہی دے گا؟ لیکن (جب میری طرف سے کوئی نہ اٹھا تو) میں بیٹھ گیا۔ پھر دوبارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (آج) جس نے کسی کافر کو قتل کیا اور اس پر اس کی طرف سے کوئی گواہ بھی ہو تو مقتول کا سارا سامان اسے ملے گا۔ اس مرتبہ پھر میں نے کھڑے ہو کر کہا کہ میری طرف سے کون گواہی دے گا؟ اور پھر مجھے بیٹھنا پڑا۔ تیسری مرتبہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی ارشاد دہرایا اور اس مرتبہ جب میں کھڑا ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی دریافت فرمایا، کس چیز کے متعلق کہہ رہے ہو ابوقتادہ! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سارا واقعہ بیان کر دیا، تو ایک صاحب (اسود بن خزاعی اسلمی) نے بتایا کہ ابوقتادہ سچ کہتے ہیں، یا رسول اللہ! اور اس مقتول کا سامان میرے پاس محفوظ ہے۔ اور میرے حق میں انہیں راضی کر دیجئیے (کہ وہ مقتول کا سامان مجھ سے نہ لیں) لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم! اللہ کے ایک شیر کے ساتھ، جو اللہ اور اس کے رسول کے لیے لڑے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں کریں گے کہ ان کا سامان تمہیں دے دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر نے سچ کہا ہے۔ پھر آپ نے سامان ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا۔ ابوقتادہ نے کہا کہ پھر اس کی زرہ بیچ کر میں نے بنی سلمہ میں ایک باغ خرید لیا اور یہ پہلا مال تھا جو اسلام لانے کے بعد میں نے حاصل کیا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3142]