الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
15. بَابُ وَمِنَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْخُمُسَ لِنَوَائِبِ الْمُسْلِمِينَ مَا سَأَلَ هَوَازِنُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَضَاعِهِ فِيهِمْ فَتَحَلَّلَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ:
15. باب: اس بات کی دلیل کہ پانچواں حصہ مسلمانوں کی ضرورتوں کے لیے ہے وہ واقعہ ہے کہ ہوازن کی قوم نے اپنے دودھ ناطے کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی، ان کے مال قیدی واپس ہوں تو آپ نے لوگوں سے معاف کرایا کہ اپنا حق چھوڑ دو۔
حدیث نمبر: 3138
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ غَنِيمَةً بِالْجِعْرَانَةِ، إِذْ قَالَ لَهُ:" رَجُلٌ اعْدِلْ، فَقَالَ لَهُ: شَقِيتُ إِنْ لَمْ أَعْدِلْ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے قرۃ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ میں غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ ایک شخص ذوالخویصرہ نے آپ سے کہا، انصاف سے کام لیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں بھی انصاف سے کام نہ لوں تو بدبخت ہوا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3138]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريشقيت إن لم أعدل
   صحيح مسلميقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون منه كما يمرق السهم من الر
   سنن ابن ماجهيمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية
   مسندالحميديويحك، فمن يعدل إذا لم أعدل؟

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3138 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3138  
حدیث حاشیہ:
شقیت کا لفظ دونوں طرح منقول ہے یعنی بصیغہ حاضر اور بصیغہ متکلم، پہلے کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں ہی غیرعادل ہوں تو پھر تو تو بدبخت ہوا کیو ں کہ تو میرا تابع ہے۔
جب مرشد اور متبوع عادل نہ ہو تو مرید کا کیا ٹھکانا اور یہ حدیث آئندہ پورے طور سے مذکور ہوگی۔
باب کی مناسبت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خمس میں سے اپنی رائے کے موافق کسی کو کم یازیادہ دیا ہوگا، جب ذوالخویصرہ نے یہ اعتراض کیا، کیوں کہ باقی چار حصے تو برابر سب مجاہدین میں تقسیم ہوتے ہیں۔
مگر اس کا اعتراض غلط تھا کہ اس نے آنحضرت ﷺ کی بابت ایسا گمان کیا۔
جب کہ آپ ﷺسے بڑھ کر بنی نوع انسان میں کوئی عادل منصف پیدا نہیں ہوا، نہ ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3138   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3138  
حدیث حاشیہ:

حدیث کے آخری حصے کے یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بدبخت!اگر میں عدل نہ کروں تو اور کون عدل کرے گا۔
امام نووی ؒنے اس معنی کو راجح قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 291/6)
چونکہ رسول اللہ ﷺ کو اپنی صوابدید کے مطابق مال خمس تقسیم کرنے کا اختیار تھا اور آپ نے کسی کو اس کی نمایاں خدمات کی وجہ سے زیادہ دیا ہو گا تبھی تو اعتراض کرنے والے نے رسول اللہ ﷺ پر بے انصافی کا الزام لگایا جو مبنی برحقیقت نہیں تھا۔

بہرحال امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد آنے والے حکمرانوں کو غنیمت فے جزیے اور مال خمس وغیرہ میں صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں۔
آپ جنھیں چاہیں دیں اور جنھیں چاہیں نہ دیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3138   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث172  
´خوارج کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ میں تشریف فرما تھے، اور آپ بلال رضی اللہ عنہ کی گود میں سے سونا، چاندی اور اموال غنیمت (لوگوں میں) تقسیم فرما رہے تھے، تو ایک شخص نے کہا: اے محمد! عدل و انصاف کیجئیے، آپ نے عدل سے کام نہیں لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا برا ہو، اگر میں عدل و انصاف نہ کروں گا تو میرے بعد کون عدل کرے گا؟، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے، میں اس منافق کی گردن اڑا دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے اور بھی ساتھی ہیں جو قرآن کو پڑھتے ہیں، لیک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 172]
اردو حاشہ:
(1)
جس شخص نے یہ گستاخی کی اس کا نام ذُوالْخُوَيْصِرَه تھا۔
اور یہ واقعه غزوہ حنین کے بعد پیش آیا۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانه کے مقام پر غزوہ حنین سے حاصل ہونے والا مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم فرمایا۔

(2)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل یا فرمان پر اعتراض کرنا یا اسے غلط قرار دینا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کو ناقابل عمل قرار دینا منافقوں کا شیوہ ہے، مومن سے ایسی حرکت کا صدور ممکن نہیں۔
 
(3)
اس واقعہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم وعفو، اور صبروبرداشت کی ایک اعلیٰ مثال ہے کہ ایسی گستاخی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سزا نہیں دی۔

(4)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب اس شخص کو منافق قرار دے کر قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تردید نہیں فرمائی۔
گویا اس شخص کے منافق ہونے کی تصدیق فرمائی، تاہم حکمت کی بنا پر اسے سزائے موت دینے سے احتراز فرمایا۔

(5)
اس شخص کی حرکت میں ارشاد نبوی کی حجت کا انکار پایا جاتا ہے، بعد میں خوارج نے بھی بہت سی احادیث کا انکار کیا کیونکہ ان کے خیال میں وہ قرآن کے اس مزعومہ مفہوم کے خلاف تھیں جو ان کے خیال میں قرآن کا صحیح مطلب تھا۔
لیکن اہل سنت کی نظر میں قرآن مجید کی آیات کا وہی مطلب درست ہوتا ہے جس کی تائید صحیح احادیث سے ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 172   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1308  
1308- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ کے مقام پر غزوہ حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا، کچھ ٹکڑے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی گود میں تھے، اسی دوران ایک شخص وہاں آیا اس نے عرض کی: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ صلی اللہ علیہ وسلم عدل سے کام لیجئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم عدل سے کام نہیں لے رہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا ستیاناس ہو، اگر میں عدل سے کام نہیں لو ں گا، تو پھر کو ن عدل سے کام لے گا؟ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ صلی اللہ علیہ وسلم م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1308]
فائدہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہر چیز میں اس قدر کمال انصاف کرتے تھے کہ اس کی مثال نہیں ملتی لیکن بعض فتنہ پرور منافق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرشکوک وشبہات کا اظہار کرتے رہتے تھے، کیونکہ منافقین حقیقت میں تو کافر ہی ہوتے تھے لیکن اوپر اوپر سے اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کی قسم! اب بھی منافق لوگ ہیں جو اوپر اوپر سے اسلام کا نام لیتے ہیں حقیقت میں وہ یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔ نیز اس حدیث میں ان بعض بد بخت لوگوں کا ذکر ہے جو قرآن تو پڑھیں گے لیکن قرآن کریم پرعمل کرنے سے دور ہوں گے، اللہ کی قسم! ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں، اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کی اصلاح فرمائے کہ شرور و فتن عام ہو رہے مصلحین پر حالات تنگ کر دیے گئے ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1306   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2449  
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حنین سے واپسی کے وقت جعرانہ میں ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ جبکہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑے میں کچھ چاندی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مٹھی بھر بھر کر لوگوں کو دے رہے تھے تو اس نے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! انصاف کیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تباہ ہو، اگر میں عدل نہیں کر رہا تو عدل کون کرے گا؟ تو ناکام ہوا اور خسارے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2449]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
خبت و خسرت:
اگر مخاطب کے صیغے ہوں (اور واضح صورت یہی ہے)
تو معنی ہو گا جس کو ایسا مقتدیٰ اور پیشوا ملا جو غیر منصف ہے اس کی ناکامی و نامرادی یا نقصان میں کیا شبہ ہو سکتا ہے اور اگر متکلم کا صیغہ ہو تو معنی ہو گا اگر میں مقتدیٰ اور پیشوا ہو کر بھی عادل نہیں ہوں،
تو پھر مجھ سے زیادہ ناکام اور نامراد گھاٹے کا شکار کون ہے۔
(2)
لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهم:
ان کے حلق اور حنجرہ سے نہیں اترنا۔
ان کے دل اس کے فہم و معرفت سے عاری ہیں،
اور اس کی تلاوت سے سوائے طوطے کی طرح الفاظ دہرانے سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے،
یا ان کی انتہا پسندی اور حرفیت پسندی کی بنا پر ان کا عمل اور تلاوت اوپر نہیں چڑھتی اور اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتی۔
(3)
يمرقون منه:
قراءت سے بلا فائدہ اور فہم و سمجھ نکل جاتے ہیں۔
اس سے ان کے دل و دماغ متاثر نہیں ہوتے۔
(4)
كَمَا يَمْرُقُ السَّهمُ مِنَ الرَّمِيَّة:
جس طرح تیر،
شکار سے اس حالت میں نکل جاتا ہے کہ اس کی کوئی چیز اسی کو نہیں لگی ہوتی۔
الرمية اس شکار کو کہتے ہیں جس پر تیر پھینکا جاتا ہے۔
یعنی فعيلة،
مفعولۃ کے معنی میں ہے۔
فوائد ومسائل:
یہ واقعہ 8 ہجری میں حنین سے واپسی پر جعرانہ کے مقام پر پیش آیا۔
جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑے سے ہرگزرنے والے کو چاندی کی مٹھی عنایت فرما رہے تھے اور اس میں دینی حکمت ومصلحت کے تحت کمی وبیشی ہو سکتی ہے،
محض خواہش نفس سے یہ کام نہیں ہو سکتا اور اس بدبخت نے اس کو خواہش نفس کا شاخسانہ قرار دے کر یہ گستاخانہ بات کہہ ڈالی۔
جس اُمت کا رسول ہی یہ رویہ اختیار کرے اس میں عدل وانصاف کہاں سے پیدا ہو سکتا ہے۔
اور اسے عدل وانصاف کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے۔
لیکن انتہا پسند لوگ جو دینی حکم اور مصالح کو نہیں سمجھتے۔
وہ ہر جگہ ایسا ہی رویہ اپناتے ہیں اور شرعی حکموں پر اعتراض کرتے ہیں اور اپنے آپ کو عقل کا مالک سمجھ کر ان کا انکار کر دیتے ہیں اور اپنے جرم کی پردہ پوشی کے لیے یہ کہتے ہیں یہ شرعی حکم ہی نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2449