الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


سلسله احاديث صحيحه کل احادیث (4103)
حدیث نمبر سے تلاش:

سلسله احاديث صحيحه
सिलसिला अहादीस सहीहा
السيرة النبوية وفيها الشمائل
سیرت نبوی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات و اطوار
2650. ملک روم کے نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوتی خط اور اس کا اثر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی صفات (ہرقل کے سوالات و جوابات کی روشنی میں)
حدیث نمبر: 4033
- (بسم الله الرحمن الرحيم: من محمد عبد الله ورسوله: إلى هرقل عظيم الروم؛ سلام على من اتبع الهدى، أما بعد: فإني أدعوك بدعاية الإسلام: أسلم تسلم: يؤتك الله أجرك مرتين؛ فإن توليت فإن عليك إثم الأريسيين؛ و (يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم أن لا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئاً ولا يتخذ بعضنا بعضاً أرباباً من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون)).
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کو سیدنا ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، سیدنا ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ نے کہا (‏‏‏‏شاہ روم) ہرقل نے اس کو بلانے کے لیے اس کی طرف ایک آدمی بھیجا، جبکہ وہ قریش کے ایک قافلے میں تھا، اس وقت یہ لوگ تجارت کے لیے شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور ابوسفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا، ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیاء پہنچ گئے، ہرقل نے دربار طلب کیا تھا، اس کے اردگرد روم کے بڑے بڑے لوگ (‏‏‏‏علما، وزرا اور امرا) بیٹھے ہوئے تھے۔ ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا، پھر ان سے پوچھا کہ تم میں کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں: میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں (‏‏‏‏یہ سن کر) ہرقل نے حکم دیا کہ اس (‏‏‏‏ابوسفیان) کو میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو، پھر اپنے ترجمان سے کہا: ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص (‏‏‏‏محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حالات پوچھتا ہوں، اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا۔ (‏‏‏‏ابوسفیان کا قول ہے کہ) خدا کی قسم! اگر مجھے یہ غیرت نہ آتی کہ یہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے تو میں آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نسبت ضرور غلط گوئی سے کام لیتا۔ خیر پہلی بات جو ہرقل نے مجھ سے پوچھی۔ (‏‏‏‏ہم آسانی کے لیے روایت کا ترجمہ مکالمے کی صورت میں پیش کرتے ہیں) ہرقل: تم لوگوں میں اس شخص کا خاندان کیسا ہے؟ ابوسفیان: وہ بڑے عالی نسب والا ہے۔ ہرقل: اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: بڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے؟ ابوسفیان: کمزوروں نے کی ہے۔ ہرقل: اس کے تابعدار روز بروز بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں؟ ابوسفیان: بڑھ رہے ہیں۔ ہرقل: کیا کوئی اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد اس دین کو ناپسند کرتے ہوئے مرتد بھی ہوا ہے؟ ابوسفیان نہیں۔ ہرقل: کیا اس دعوی نبوت سے پہلے تم لوگ اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: کیا وہ دھوکہ کرتا ہے؟ ابوسفیان: نہیں اور اب ہماری اس سے (‏‏‏‏صلح کی) ایک مقررہ مدت ٹھہری ہوئی ہے، معلوم نہیں کہ وہ اس میں کیا کرنے والا ہے۔ میں اس بات کے سوا اور کوئی (‏‏‏‏جھوٹ) اس گفتگو میں شامل نہ کر سکا۔ ہرقل: کیا تمہاری اس سے کبھی لڑائی ہوئی ہے؟ ابوسفیان: ہاں۔ ہرقل: تمہاری اور اس کی جنگ کا کیا حال ہوا؟ ابوسفیان: کبھی اس کے فریق کو کامیابی حاصل ہوئی اور کبھی ہمارے فریق کو، کبھی وہ جیت جاتے تھے اور کبھی ہم۔ ہرقل: وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے؟ ابوسفیان: وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، جو یکتا و یگانہ ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اپنے باپ دادا کی (‏‏‏‏شرک والی) باتیں چھوڑ دو اور ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ (‏‏‏‏یہ سب سن کر) ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے کہا کہ وہ ہم میں عالی نسب ہے اور پیغمبر اپنی قوم میں عالی نسب ہی ہوتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا کہ (‏‏‏‏دعوی نبوت کی) یہ بات تمہارے اندر اس سے پہلے کسی اور نے بھی کہی تھی، تم نے جواب دیا کہ نہیں۔ تب میں نے (‏‏‏‏اپنے دل میں) کہا کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی نے کہی ہوتی تو میں یہ سمجھا کہ اس شخص نے بھی اسی بات کی تقلید کی ہے، جو پہلے کہی جا چکی ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ بھی گزرا ہے، تم نے کہا کہ نہیں، میں نے (‏‏‏‏دل میں) کہا کہ اگر ان کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو کہہ دیتا کہ وہ شخص (‏‏‏‏یہ بہانہ بنا کر) اپنے آباؤ اجداد کی بادشاہت اور ان کا ملک (‏‏‏‏دوبارہ) حاصل کرنا چاہتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس بات کے کہنے (‏‏‏‏یعنی پیغمبر کا دعویٰ کرنے) سے پہلے تم نے کبھی اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا ہے، تم نے کہ کہا کہ نہیں، میں نے سمجھ لیا کہ جو شخص آدمیوں کے ساتھ دروغ گوئی سے بچے وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹی بات کہہ سکتا ہے، اور میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے اس کے پیرو ہیں یا کمزور آدمی، تم نے کہا کہ کمزوروں نے اس کی اتباع کی ہے، (‏‏‏‏دراصل) یہی لوگ پیغمبروں کے متبعین ہوتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں، تم نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں اور ایمان کی کیفیت یہی ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ کامل ہو جاتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا کوئی شخص اس کے دین سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے، تم نے کہا کہ نہیں۔ درحقیقت ایمان کی خاصیت بھی یہی ہے کہ جن کے دلوں میں اس کی مسرت رچ بس جائے وہ اس سے لوٹا نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا اس نے کبھی عہد شکنی بھی کی ہے، تم نے کہا کہ نہیں، پیغمبروں کا یہی حال ہوتا ہے وہ عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور میں نے تم سے کہا کہ وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے، تم نے کہا کہ وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہراؤ اور تمہیں بتوں کی پرستش سے روکتا ہے، سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتا ہے۔ اگر یہ باتیں، جو تم کہہ رہے ہو، سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک بن جائے گا، جہاں میرے دو پاؤں ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ (‏‏‏‏پیغمبر) آنے والا ہے، لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ تمہارے اندر ہو گا، اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس سے ملنے کے لیے ہر تکلیف گوارا کرتا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا اس کے پاؤں دھوتا۔ ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خط منگوایا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ذریعے حاکم بصرٰی کے پاس بھیجا تھا اور اس نے وہ ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا، پھر اس کو پڑھا تو اس میں (‏‏‏‏لکھا تھا): «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» یہ خط اﷲ کے بندے اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شاہ روم کی طرف ہے اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے بعد تم پر دعوت اسلام پیش کرتا ہوں، اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو (‏‏‏‏تمہیں دین و دنیا میں) سلامتی نصیب ہو گی، اللہ تعالیٰ آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ (‏‏‏‏میری دعوت) سے روگردانی کریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ ہی پر ہو گا اور اے اہل کتاب! ایک ایسی بات پر آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے، پھر اگر وہ اہل کتاب (‏‏‏‏اس بات سے) منہ پھیر لیں تو (‏‏‏‏مسلمانو!) تم ان سے کہہ دو کہ (‏‏‏‏ تم مانو یا نہ مانو) ہم تو ایک اللہ کے اطاعت گزار ہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں: جب ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اور خط پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے ارد گرد بہت شور و غوغا ہوا۔ بہت سی آوازیں اٹھیں اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ تب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابوکبشہ کے بیٹے (‏‏‏‏محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا۔ (‏‏‏‏دیکھو کہ) اس سے بنو اصفر (‏‏‏‏رومیوں) کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔ مجھے اس وقت سے اس بات کا یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب غالب ہو کر رہیں گے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مسلمان کر دیا۔ (‏‏‏‏راوی کا بیان ہے کہ) ابن ناطور ایلیاء کا حاکم ہرقل کا مصاحب اور شام کے نصاریٰ کا لاٹ پادری بیان کرتا تھا کہ ہرقل جب ایلیاء آیا، تو ایک دن صبح کو پریشان اٹھا، اس کے درباریوں نے دریافت کیا کہ آج ہم آپ کی حالت بدلی ہوئی پاتے ہیں، (‏‏‏‏کیا وجہ ہے؟) ابن ناطور کا بیان ہے کہ ہرقل نجومی تھا، وہ علم نجوم میں پوری مہارت رکھتا تھا، اس نے اپنے ہم نشینوں کو بتایا کہ میں نے آج رات ستاروں پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ ہمارے ملک پر غالب آ گیا ہے، (‏‏‏‏بھلا) اس زمانے میں کون لوگ ختنہ کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہود کے سوا کوئی ختنہ نہیں کرتا، سو ان کی وجہ سے پریشان نہ ہوں، سلطنت کے تمام شہروں میں یہ حکم لکھ بھیجئیے کہ وہاں جتنے یہودی ہوں سب قتل کر دیے جائیں۔ وہ لوگ انہی باتوں میں مشغول تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا، جسے شاہ غسان نے بھیجا تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کئے۔ جب ہرقل نے سارے حالات سن لیے تو کہا کہ جا کر دیکھو وہ ختنہ کئے ہوئے ہے یا نہیں؟ انہوں نے دیکھا تو بتلایا: کہ وہ ختنہ کئے ہوئے ہے۔ ہرقل نے جب اس شخص سے عرب کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتلایا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں، تب ہرقل نے کہا کہ یہ وہی (‏‏‏‏محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اس امت کے بادشاہ ہیں جو پیدا ہو چکے ہیں۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کو رومی زبان میں خط لکھا اور وہ بھی علم نجوم میں ہرقل کی طرح ماہر تھا۔ پھر وہاں سے ہرقل حمص چلا گیا۔ ابھی حمص سے نکلا نہیں تھا کہ اس کے دوست کا جوابی خط آ گیا۔ اس کی رائے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کی رائے کے موافق تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (‏‏‏‏واقعی) پیغمبر ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے روم کے بڑے آدمیوں کو حمص کے محل میں طلب کیا اور اس کے حکم سے محل کے دروازے بند کر دیے گئے۔ پھر وہ (‏‏‏‏اپنے محل سے) باہر آیا اور کہا: اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھ حصہ تمہارے لیے بھی ہے؟ اگر تم اپنی سلطنت کی بقا چاہتے ہو تو پھر اس نبی کی بیعت کر لو اور مسلمان ہو جاؤ (‏‏‏‏یہ سننا ہی تھا کہ) وہ سب وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف دوڑے، مگر دروازوں کو بند پایا۔ آخر جب ہرقل نے (‏‏‏‏اس بات سے) ان کی یہ نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو کہنے لگا کہ ان لوگوں کو میرے پاس لاؤ۔ (‏‏‏‏جب وہ دوبارہ آئے) تو اس نے کہا: میں نے جو بات کہی تھی اس سے تمہاری دینی پختگی کی آزمائش مقصود تھی، سو میں نے اس کو دیکھ لیا۔ تب (‏‏‏‏ یہ بات سن کر) وہ سب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور اس سے خوش ہو گئے۔ بالآخر ہرقل کا آخری معاملہ تھا۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4033]
2651. تورات و انجیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ صفات
حدیث نمبر: 4034
-" مكتوب في الإنجيل: لا فظ ولا غليظ ولا سخاب بالأسواق ولا يجزي بالسيئة مثلها، بل يعفو ويصفح".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انجیل میں یہ لکھا ہوا تھا: آپ بدخلق تھے نہ سخت دل، آپ بازاروں میں شور کرنے والے تھے نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے، بلکہ آپ معاف کرتے اور درگزر فرماتے تھے۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4034]
حدیث نمبر: 4035
- (أقيمُوا اليهوديَّ عن أخيكُم. يعني: ابن اليهوديِّ الذي أسلمَ).
ابوصحر عقیلی کہتے ہیں: مجھے ایک بدو نے بیان کرتے ہوئے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مدینہ میں کچھ سامان تجارت لایا، میں نے اپنی تجارت سے فارغ ہو کر کہا: میں ضرور اس آدمی (‏‏‏‏یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤں گا اور اس کی باتیں سنوں گا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ملے تو سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما بھی آپ کے ہمراہ تھے، آپ نے ان کو پیچھے بھیج دیا، ہم ایک یہودی کے پاس گئے، وہ تورات کھول کر پڑھ رہا تھا، اس کے ذریعے اپنے آپ کو تسلی دے رہا تھا، کیونکہ اس کا انتہائی حسین و جمیل نوجوان بچہ موت و حیات کی کشمکش میں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: میں تجھے تورات نازل کرنے والی ذات کی قسم دیتا ہوں! کیا تو اپنی کتاب میں میری صفات اور جائے ظہور کا تذکرہ پاتا ہے؟، اس نے سر سے نہیں کا اشارہ کیا۔ لیکن اس کے بیٹے نے کہا: جی ہاں، تورات کو نازل کرنے والی ذات کی قسم! ہم اپنی کتاب میں آپ کی صفات اور جائے ظہور کا تذکرہ پاتے ہیں اور میں اب گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔ (‏‏‏‏یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس یہودی کو اپنے بھائی سے ہٹا دو۔ آپ کی مراد یہودی کا بیٹا تھا، جس نے اسلام قبول کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کفن کا انتظام و انصرام کیا، اسے حنوط خوشبو لگائی اور اس کی نماز پڑھائی۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4035]
2652. مقام محمود
حدیث نمبر: 4036
-" يبعث الناس يوم القيامة، فأكون أنا وأمتي على تل، ويكسوني ربي حلة خضراء، ثم يؤذن لي، فأقول ما شاء الله أن أقول، فذاك المقام المحمود".
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏لوگوں کو قیامت کے دن اٹھایا جائے گا، میں اور میری امت ایک ٹیلے پر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ مجھے سبز رنگ کی پوشاک پہنائیں گے۔ پھر مجھے اجازت دی جائے گی اور میں کہوں گا جو اللہ تعالیٰ چاہیں گے، یہی مقام محمود ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4036]
حدیث نمبر: 4037
-" المقام المحمود: الشفاعة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شفاعت، مقام محمود ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4037]
حدیث نمبر: 4038
-" إن الشمس تدنو حتى يبلغ العرق نصف الأذن، فبيناهم كذلك استغاثوا بآدم فيقول: لست صاحب ذلك، ثم بموسى، فيقول كذلك، ثم محمد صلى الله عليه وسلم، فيشفع بين الخلق، فيمشي حتى يأخذ بحلقة الجنة، فيومئذ يبعثه الله مقاما محمودا، يحمده أهل الجمع كلهم".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک سورج قریب ہو گا (‏‏‏‏ اور اتنا قریب ہو گا کہ اس کی حرارت کی وجہ سے) بہنے والا پسینہ آدمی کے کان کے نصف تک پہنچ جائے گا، وہ اسی حالت میں سیدنا آدم علیہ السلام کو مدد کے لیے پکاریں گے۔ وہ کہیں گے: میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ پھر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو پکاریں گے، وہ بھی یہی جواب دیں گے۔ پھر جب وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دیں گے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق کے لیے سفارش کریں گے، آپ چلیں گے اور جنت کے کڑے پکڑ لیں گے، اس دن اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر اٹھائے گا، تمام لوگ آپ کی تعریف کریں گے۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4038]
2653. کھانے کے بعد کی دعا
حدیث نمبر: 4039
-" كان إذا أكل أو شرب قال: الحمد لله الذي أطعم وسقى وسوغه وجعل له مخرجا".
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کھاتے یا (‏‏‏‏کوئی مشروب) پیتے تو فرماتے: تمام تعریفیں ا‏‏‏‏س ذات کے لیے ہیں جس نے کھلایا اور پلایا، کھانے کو خوشگوار بنایا اور ا‏‏‏‏س کے نکلنے کی جگہ بنائی۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4039]
2654. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے کا انداز
حدیث نمبر: 4040
-" كان يجلس القرفصاء".
سیدنا ابوامامہ حارثی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکڑوں بیٹھک بیٹھتے تھے۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4040]
حدیث نمبر: 4041
-" كان إذا جلس احتبى بيديه".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گوٹھ مار کر بیٹھتے تھے۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4041]
2655. غصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رخسار سرخ ہو جاتے
حدیث نمبر: 4042
-" كان إذا غضب احمرت وجنتاه".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آتے تو آپ کے رخسار سرخ ہو جاتے۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4042]

Previous    1    2    3    4    5    Next