الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


سلسله احاديث صحيحه
السيرة النبوية وفيها الشمائل
سیرت نبوی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات و اطوار
2650. ملک روم کے نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوتی خط اور اس کا اثر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی صفات (ہرقل کے سوالات و جوابات کی روشنی میں)
حدیث نمبر: 4033
- (بسم الله الرحمن الرحيم: من محمد عبد الله ورسوله: إلى هرقل عظيم الروم؛ سلام على من اتبع الهدى، أما بعد: فإني أدعوك بدعاية الإسلام: أسلم تسلم: يؤتك الله أجرك مرتين؛ فإن توليت فإن عليك إثم الأريسيين؛ و (يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم أن لا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئاً ولا يتخذ بعضنا بعضاً أرباباً من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون)).
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کو سیدنا ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، سیدنا ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ نے کہا (‏‏‏‏شاہ روم) ہرقل نے اس کو بلانے کے لیے اس کی طرف ایک آدمی بھیجا، جبکہ وہ قریش کے ایک قافلے میں تھا، اس وقت یہ لوگ تجارت کے لیے شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور ابوسفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا، ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیاء پہنچ گئے، ہرقل نے دربار طلب کیا تھا، اس کے اردگرد روم کے بڑے بڑے لوگ (‏‏‏‏علما، وزرا اور امرا) بیٹھے ہوئے تھے۔ ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا، پھر ان سے پوچھا کہ تم میں کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں: میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں (‏‏‏‏یہ سن کر) ہرقل نے حکم دیا کہ اس (‏‏‏‏ابوسفیان) کو میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو، پھر اپنے ترجمان سے کہا: ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص (‏‏‏‏محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حالات پوچھتا ہوں، اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا۔ (‏‏‏‏ابوسفیان کا قول ہے کہ) خدا کی قسم! اگر مجھے یہ غیرت نہ آتی کہ یہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے تو میں آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نسبت ضرور غلط گوئی سے کام لیتا۔ خیر پہلی بات جو ہرقل نے مجھ سے پوچھی۔ (‏‏‏‏ہم آسانی کے لیے روایت کا ترجمہ مکالمے کی صورت میں پیش کرتے ہیں) ہرقل: تم لوگوں میں اس شخص کا خاندان کیسا ہے؟ ابوسفیان: وہ بڑے عالی نسب والا ہے۔ ہرقل: اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: بڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے؟ ابوسفیان: کمزوروں نے کی ہے۔ ہرقل: اس کے تابعدار روز بروز بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں؟ ابوسفیان: بڑھ رہے ہیں۔ ہرقل: کیا کوئی اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد اس دین کو ناپسند کرتے ہوئے مرتد بھی ہوا ہے؟ ابوسفیان نہیں۔ ہرقل: کیا اس دعوی نبوت سے پہلے تم لوگ اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: کیا وہ دھوکہ کرتا ہے؟ ابوسفیان: نہیں اور اب ہماری اس سے (‏‏‏‏صلح کی) ایک مقررہ مدت ٹھہری ہوئی ہے، معلوم نہیں کہ وہ اس میں کیا کرنے والا ہے۔ میں اس بات کے سوا اور کوئی (‏‏‏‏جھوٹ) اس گفتگو میں شامل نہ کر سکا۔ ہرقل: کیا تمہاری اس سے کبھی لڑائی ہوئی ہے؟ ابوسفیان: ہاں۔ ہرقل: تمہاری اور اس کی جنگ کا کیا حال ہوا؟ ابوسفیان: کبھی اس کے فریق کو کامیابی حاصل ہوئی اور کبھی ہمارے فریق کو، کبھی وہ جیت جاتے تھے اور کبھی ہم۔ ہرقل: وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے؟ ابوسفیان: وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، جو یکتا و یگانہ ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اپنے باپ دادا کی (‏‏‏‏شرک والی) باتیں چھوڑ دو اور ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ (‏‏‏‏یہ سب سن کر) ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے کہا کہ وہ ہم میں عالی نسب ہے اور پیغمبر اپنی قوم میں عالی نسب ہی ہوتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا کہ (‏‏‏‏دعوی نبوت کی) یہ بات تمہارے اندر اس سے پہلے کسی اور نے بھی کہی تھی، تم نے جواب دیا کہ نہیں۔ تب میں نے (‏‏‏‏اپنے دل میں) کہا کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی نے کہی ہوتی تو میں یہ سمجھا کہ اس شخص نے بھی اسی بات کی تقلید کی ہے، جو پہلے کہی جا چکی ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ بھی گزرا ہے، تم نے کہا کہ نہیں، میں نے (‏‏‏‏دل میں) کہا کہ اگر ان کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو کہہ دیتا کہ وہ شخص (‏‏‏‏یہ بہانہ بنا کر) اپنے آباؤ اجداد کی بادشاہت اور ان کا ملک (‏‏‏‏دوبارہ) حاصل کرنا چاہتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس بات کے کہنے (‏‏‏‏یعنی پیغمبر کا دعویٰ کرنے) سے پہلے تم نے کبھی اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا ہے، تم نے کہ کہا کہ نہیں، میں نے سمجھ لیا کہ جو شخص آدمیوں کے ساتھ دروغ گوئی سے بچے وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹی بات کہہ سکتا ہے، اور میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے اس کے پیرو ہیں یا کمزور آدمی، تم نے کہا کہ کمزوروں نے اس کی اتباع کی ہے، (‏‏‏‏دراصل) یہی لوگ پیغمبروں کے متبعین ہوتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں، تم نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں اور ایمان کی کیفیت یہی ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ کامل ہو جاتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا کوئی شخص اس کے دین سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے، تم نے کہا کہ نہیں۔ درحقیقت ایمان کی خاصیت بھی یہی ہے کہ جن کے دلوں میں اس کی مسرت رچ بس جائے وہ اس سے لوٹا نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا اس نے کبھی عہد شکنی بھی کی ہے، تم نے کہا کہ نہیں، پیغمبروں کا یہی حال ہوتا ہے وہ عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور میں نے تم سے کہا کہ وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے، تم نے کہا کہ وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہراؤ اور تمہیں بتوں کی پرستش سے روکتا ہے، سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتا ہے۔ اگر یہ باتیں، جو تم کہہ رہے ہو، سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک بن جائے گا، جہاں میرے دو پاؤں ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ (‏‏‏‏پیغمبر) آنے والا ہے، لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ تمہارے اندر ہو گا، اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس سے ملنے کے لیے ہر تکلیف گوارا کرتا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا اس کے پاؤں دھوتا۔ ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خط منگوایا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ذریعے حاکم بصرٰی کے پاس بھیجا تھا اور اس نے وہ ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا، پھر اس کو پڑھا تو اس میں (‏‏‏‏لکھا تھا): «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» یہ خط اﷲ کے بندے اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شاہ روم کی طرف ہے اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے بعد تم پر دعوت اسلام پیش کرتا ہوں، اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو (‏‏‏‏تمہیں دین و دنیا میں) سلامتی نصیب ہو گی، اللہ تعالیٰ آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ (‏‏‏‏میری دعوت) سے روگردانی کریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ ہی پر ہو گا اور اے اہل کتاب! ایک ایسی بات پر آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے، پھر اگر وہ اہل کتاب (‏‏‏‏اس بات سے) منہ پھیر لیں تو (‏‏‏‏مسلمانو!) تم ان سے کہہ دو کہ (‏‏‏‏ تم مانو یا نہ مانو) ہم تو ایک اللہ کے اطاعت گزار ہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں: جب ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اور خط پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے ارد گرد بہت شور و غوغا ہوا۔ بہت سی آوازیں اٹھیں اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ تب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابوکبشہ کے بیٹے (‏‏‏‏محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا۔ (‏‏‏‏دیکھو کہ) اس سے بنو اصفر (‏‏‏‏رومیوں) کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔ مجھے اس وقت سے اس بات کا یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب غالب ہو کر رہیں گے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مسلمان کر دیا۔ (‏‏‏‏راوی کا بیان ہے کہ) ابن ناطور ایلیاء کا حاکم ہرقل کا مصاحب اور شام کے نصاریٰ کا لاٹ پادری بیان کرتا تھا کہ ہرقل جب ایلیاء آیا، تو ایک دن صبح کو پریشان اٹھا، اس کے درباریوں نے دریافت کیا کہ آج ہم آپ کی حالت بدلی ہوئی پاتے ہیں، (‏‏‏‏کیا وجہ ہے؟) ابن ناطور کا بیان ہے کہ ہرقل نجومی تھا، وہ علم نجوم میں پوری مہارت رکھتا تھا، اس نے اپنے ہم نشینوں کو بتایا کہ میں نے آج رات ستاروں پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ ہمارے ملک پر غالب آ گیا ہے، (‏‏‏‏بھلا) اس زمانے میں کون لوگ ختنہ کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہود کے سوا کوئی ختنہ نہیں کرتا، سو ان کی وجہ سے پریشان نہ ہوں، سلطنت کے تمام شہروں میں یہ حکم لکھ بھیجئیے کہ وہاں جتنے یہودی ہوں سب قتل کر دیے جائیں۔ وہ لوگ انہی باتوں میں مشغول تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا، جسے شاہ غسان نے بھیجا تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کئے۔ جب ہرقل نے سارے حالات سن لیے تو کہا کہ جا کر دیکھو وہ ختنہ کئے ہوئے ہے یا نہیں؟ انہوں نے دیکھا تو بتلایا: کہ وہ ختنہ کئے ہوئے ہے۔ ہرقل نے جب اس شخص سے عرب کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتلایا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں، تب ہرقل نے کہا کہ یہ وہی (‏‏‏‏محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اس امت کے بادشاہ ہیں جو پیدا ہو چکے ہیں۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کو رومی زبان میں خط لکھا اور وہ بھی علم نجوم میں ہرقل کی طرح ماہر تھا۔ پھر وہاں سے ہرقل حمص چلا گیا۔ ابھی حمص سے نکلا نہیں تھا کہ اس کے دوست کا جوابی خط آ گیا۔ اس کی رائے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کی رائے کے موافق تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (‏‏‏‏واقعی) پیغمبر ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے روم کے بڑے آدمیوں کو حمص کے محل میں طلب کیا اور اس کے حکم سے محل کے دروازے بند کر دیے گئے۔ پھر وہ (‏‏‏‏اپنے محل سے) باہر آیا اور کہا: اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھ حصہ تمہارے لیے بھی ہے؟ اگر تم اپنی سلطنت کی بقا چاہتے ہو تو پھر اس نبی کی بیعت کر لو اور مسلمان ہو جاؤ (‏‏‏‏یہ سننا ہی تھا کہ) وہ سب وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف دوڑے، مگر دروازوں کو بند پایا۔ آخر جب ہرقل نے (‏‏‏‏اس بات سے) ان کی یہ نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو کہنے لگا کہ ان لوگوں کو میرے پاس لاؤ۔ (‏‏‏‏جب وہ دوبارہ آئے) تو اس نے کہا: میں نے جو بات کہی تھی اس سے تمہاری دینی پختگی کی آزمائش مقصود تھی، سو میں نے اس کو دیکھ لیا۔ تب (‏‏‏‏ یہ بات سن کر) وہ سب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور اس سے خوش ہو گئے۔ بالآخر ہرقل کا آخری معاملہ تھا۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4033]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 3607

قال الشيخ الألباني:
- (بسم الله الرحمن الرحيم: من محمد عبد الله ورسوله: إلى هرقل عظيم الروم؛ سلام على من اتبع الهدى، أما بعد: فإني أدعوك بدعاية الإسلام: أسلم تسلم: يؤتك الله أجرك مرتين؛ فإن توليت فإن عليك إثم الأريسيين؛ و (يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم أن لا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئاً ولا يتخذ بعضنا بعضاً أرباباً من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون)) .
‏‏‏‏_____________________
‏‏‏‏
‏‏‏‏رواه البخاري (رقم 7- واللفظ له - و 51 و 2681 و 2941 و 2979 و 3174 و 4553 و 5980 و 6260 و 7196) ، ومسلم (5/163 - 166) ، والترمذي (2717) ، والنسائي في "الكبرى" (11064) ، وعبد الرزاق (9724) ، وابن حبان (6555) ، وأحمد (1/263) ، وا بن منده في "الإيمان " (143) ، والطحاوي في "مشكل الآثار" (1380و 1977) ، وابن أبي عاصم في "الآحاد والمثاني " (488) ، والبيهقي في "دلائل النبوة" (4/380 - 381) -، واللالكائي في "شرح أصول اعتقاد أهل السنة " (1457) ، وابن عساكر في "تاريخ دمشق " (23/428) من طرق عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود أن عبد الله بن عباس أخبره أن أبا سفيان بن حرب أخبره: أن هرقل أرسل إليه في ركب من قريش، وكانوا تجاراً بالشام في المدة التي كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مادَّ فيها أبا سفيان وكفار قريش، فأتوه وهم بإيلياء، فدعاهم
‏‏‏‏في مجلسه، وحوله عظماء الروم، ثم دعاهم ودعا بترجمانه، فقال: أيكم أقرب نسباً بهذا الرجل الذي يزعم أنه نبي؛ فقال أبو سفيان: فقلت: أنا أقربهم نسباً، فقال: أدنوه مني، وقربوا أصحابه فاجعلوهم عند ظهره، ثم قال لترجمانه: قل لهم: إني سائل هذا الرجل، فإن كذبني فكذبوه، فوالله لولا الحياء من أن يأثروا عليَّ كذباً لكذبت عنه، ثم كان أول ما سألني عنه؛ أن قال: كيف نسبه فيكم؛ قلت: هو فينا ذو نسب، قال: فهل قال هذا القول منكم أحد قط قبله؟ قلت: لا، قال: فهل كان من آبائه من ملك؟ قلت: لا، قال: فأشراف الناس يتبعونه أم ضعفاؤهم؟ فقلت: بل ضعفاؤهم، قال: أيزيدون أم ينقصون؟ قلت: بل يزيدون، قال: فهل يرتد أحد منهم سُخطة لدينه بعد أن يدخل فيه؟ قلت: لا، قال: فهل كنت تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال؟ قلت: لا، قال: فهل يغدر؟ قلت: لا، ونحن منه في مدَّة لا ندري ما هو فاعل فيها؟! قال: ولم تمكنِّي كلمة أدخل فيها شيئاً غير هذه الكلمة، قال: فهل قاتلتموه؟ قلت: نعم، قال: فكيف كان قتالكم إياه؟ قلت: الحرب بيننا وبينه سجال، ينال منا وننال منه، قال: ماذا يأمركم؟ قلت: يقول: اعبدوا الله وحده ولا تشركوا به شيئاً، واتركوا ما يقول آباؤكم، ويأمرنا بالصلاة والصدق والعفاف والصِّلة.
‏‏‏‏فقال للترجمان: قل له: سألتك عن نسبه؟ فذكرت أنه فيكم ذو نسب؛ فكذلك الرسل تبعث في نسب قومها، وسألتك: هل قال أحد منكم هذا القول؟ فذكرت أن لا؛ فقلت: لو كان أحد قال هذ القول قبله؛ لقلت: رجل يأتسي بقول قيل قبله، وسألتك: هل كان من آبائه من ملك؛ فذكرت أن لا، قلت: فلو كان من آبائه من ملك؛ قلت: رجل يطلب ملك أبيه، وسألتك: هل كنتم تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال؟ فذكرت أن لا، فقد أعرف أنه لم يكن ليذر الكذب
‏‏‏‏__________جزء : 7 /صفحہ : 1607__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏على الناس؛ ويكذب على الله، وسألتك: أشراف الناس اتبعوه أم ضعفاؤهم؟ فذكرت أن ضعفاءهم اتبعوه؛ وهم أتباع الرسل، وسألتك: أيزيدون أم ينقصون؟ فذكرت أنهم يزيدون؛ وكذلك أمر الإيمان حتى يتم، وسألتك: أيرتد أحد سخطةً لدينه بعد أن يدخل فيه؟ فذكرت أن لا؛ وكذلك الإيمان حين تخالط بشاشته القلوب، وسألتك: هل يغدر؟ فذكرت أن لا؛ وكذلك الرسل لا تغدر، وسألتك: بما يأمركم؟ فذكرت أنه يأمركم أن تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئاً، وينهاكم عن عبادة الأوثان، ويأمركم بالصلاة والصدق والعفاف؛ فإن كان ما تقول حقاً؛ فسيملك موضع قدمي هاتين، وقد كنت أعلم أنه خارج، لم أكن أظن أنه منكم، فلو أني أعلم أني أخلص إليه؛ لتجشمت لقاءه، ولو كنت عنده؛ لغسلت عن قدمه.
‏‏‏‏ثم دعا بكتاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - الذي بعث به دحية إلى عظيم بصرى، فدفعه إلى هرقل، فقرأه، فإذا فيه ... فذكره
‏‏‏‏قال أبو سفيان: فلما قال ما قال، وفرغ من قراءة الكتاب؛ كثر عنده الصخب، وارتفعت الأصوات، وأخرجنا، فقلت لأصحابي حين أخرجنا: لقد أمِرَ أمرُ ابن أبي كبشة! إنه يخافه ملك بني الأصفر، فما زلت موقناً أنه سيظهر؛ حتى أدخل الله علي الإسلام.
‏‏‏‏وكان ابن الناطور- صاحب إيلياء- وهرقل سُقُفَاً على نصارى الشام؛ يحدث أن هرقل حين قدم إيلياء أصبح يوماُ خبيث النفس، فقال بعض بطارقته: قد استنكرنا هيئتك، قال ابن الناطور: وكان هرقل حزَّاءً ينظر في النجوم، فقال لهم حين سألوه: إني رأيت الليلة - حين نظرت في النجوم - ملك الختان قد ظهر، فمن يختتن من هذه الأمة؛ قالوا: ليس يختتن إلا اليهود، فلا يهمَّنَّك شأنهم، واكتب إلى مدائن ملكك؛ فيقتلوا من فيهم من اليهود، فبينما هم على أمرهم؛ أتي هرقل
‏‏‏‏__________جزء : 7 /صفحہ : 1608__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏برجل أرسل به ملك غسان يخبر عن خبر رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فلما استخبره هرقل؛ قال: اذهبوا فانظروا أمختتن هو أم لا؟ فنظروا إليه، فحدثوه أنه مختتن، وسأله عن العرب؟ فقال: هم يختتنون، فقال هرقل: هذا ملك هذه الأمة قد ظهر، ثم كتب هرقل إلى صاحب له برومية، وكان نظيره في العلم، وسار هرقل إلى حمص، فلم يَرِمْ حمص حتى أتاه كتاب من صاحبه يوافق رأي هرقل على خروج النبي - صلى الله عليه وسلم - وأنه نبي، فأذن هرقل لعظماء الروم في دَسْكَرة له بحمص، ثم أمر بأبوابها فغلقت، ثم اطَّلع فقال؛ يا معشر الروم! هل لكم في الفلاح والرشد، وأن يثبت ملككم، فتبايعوا هذا النبي؟ فحاصوا حيصة حُمُرِ الوحش إلى الأبواب؛ فوجدوها قد غلقت، فلما رأى هرقل نفرتهم، وأيس من الإيمان قال: ردوهم علي، وقال: إني قلت مقالتي آنفا ً؛ أختبر بها شدتكم على دينكم، فقد رأيت، فسجدوا له ورضوا عنه، فكان ذلك آخر شأن هرقل.
‏‏‏‏قلت: وقد ورد الحديث نفسه على وجه آخر:
‏‏‏‏فرواه البخاري (2936 و 2940) ، وأبو داود (5136) ، والنسائي في " الكبرى " (5858 و 8845) ، وأحمد (1/162 - 263 و 263) ، والبيهقي في "الدلائل " (4/377 - 380) ، وابن عساكر في "تاريخه " (23/422) من طريق الزهري عن عبيد الله بن عبد الله أن عبد الله بن عباس أخبره:
‏‏‏‏أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ... فذكر الحديث دون ذكر أبي سفيان مخبراً ابن عباس.
‏‏‏‏وهذا معدود من مراسيل الصحابة؛ وهي مقبولة عند جماهير أهل السنة والحديث - بحمد الله تعالى -.
‏‏‏‏(فائدة) : قول أبي سفيان- في الحديث -: (لقد أمِرَ أمرُ ابن أبي كبشة) ؛ معناه - كما قال ابن الأثير في "النهاية" (4/144) -:
‏‏‏‏__________جزء : 7 /صفحہ : 1609__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏"كان المشركون ينسبون النبي - صلى الله عليه وسلم - إلى أبي كبشة؛ وهو رجل من خزاعة، خالف قريشاً في عبادة الأوثان، وعبد الشِّعرى والعَبُور (¬1) ، فلما خالفهم النبي - صلى الله عليه وسلم - في عبادة الأوثان؛ شبهوه به ".
‏‏‏‏و (أمر) : كثُرَ، وتمًّ.
‏‏‏‏والحديث كنت قد خرجته- قديماً- في "الإرواء " (1/37) مختصراً. * ¤
   صحيح البخاريلترجمانه سلهم أيهم أقرب نسبا إلى هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي قال أبو سفيان فقلت أنا أقربهم إليه نسبا قال ما قرابة ما بينك وبينه فقلت هو ابن عمي وليس في الركب يومئذ أحد من بني عبد مناف غيري فقال قيصر أدنوه وأمر بأصحابي فجعلوا خلف ظهري عند كتفي ثم قال لترجم
   صحيح البخاريأيكم أقرب نسبا بهذا الرجل الذي يزعم أنه نبي فقال أبو سفيان فقلت أنا أقربهم نسبا فقال أدنوه مني وقربوا أصحابه فاجعلوهم عند ظهره ثم قال لترجمانه قل لهم إني سائل هذا عن هذا الرجل فإن كذبني فكذبوه فوالله لولا الحياء من أن يأثروا علي كذبا لكذبت عنه ثم كان أول
   سنن أبي داودسلام على من اتبع الهدى
   صحيح مسلمايكم اقرب نسبا من هذا الرجل الذي يزعم انه نبي؟، فقال ابو سفيان: فقلت: انا فاجلسوني بين يديه واجلسوا اصحابي خلفي ثم دعا بترجمانه، فقال له: قل لهم إني سائل هذا عن الرجل الذي يزعم انه نبي فإن كذبني فكذبوه
   سلسله احاديث صحيحهبسم الله الرحمن الرحيم: من محمد عبد الله ورسوله: إلى هرقل عظيم الروم؛ سلام على من اتبع الهدى، اما بعد: فإني ادعوك بدعاية الإسلام: اسلم تسلم: يؤتك الله اجرك مرتين؛ فإن توليت فإن عليك إثم الاريسيين
   سلسله احاديث صحيحهبسم الله الرحمن الرحيم: من محمد عبد الله ورسوله: إلى هرقل عظيم الروم؛ سلام على من اتبع الهدى، اما بعد: فإني ادعوك بدعاية الإسلام: اسلم تسلم: يؤتك الله اجرك مرتين؛ فإن توليت فإن عليك إثم الاريسيين
   الأدب المفرد للبخاريبسم الله الرحمن الرحيم، من محمد عبد الله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم، سلام على من اتبع الهدى، اما بعد، فإني ادعوك بدعاية الإسلام، اسلم تسلم، يؤتك الله اجرك مرتين، فإن توليت فإن عليك إثم الاريسيين