الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


سلسله احاديث صحيحه کل احادیث (4103)
حدیث نمبر سے تلاش:

سلسله احاديث صحيحه
सिलसिला अहादीस सहीहा
المناقب والمثالب
فضائل و مناقب اور معائب و نقائص
حدیث نمبر: 3289
- (من سره أن ينظر إلى رجل من أهل الجنة، فلينظر إلى الحسين بن علي).
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی جنتی آدمی کو دیکھ کر خوش ہونا چاہتا ہے، وہ حسین بن علی کو دیکھ لے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3289]
حدیث نمبر: 3290
-" من أحبهما فقد أحبني ومن أبغضهما فقد أبغضني. يعني الحسن والحسين رضي الله عنهما".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، اس حال میں کہ آپ کے ساتھ حسن و حسین بھی تھے، ایک ایک کندھے پر تھا اور دوسرا دوسرے پر۔ آپ کبھی ایک کا بوسہ لیتے اور کبھی دوسرے کو چومتے، حتیٰ کہ ہمارے پاس پہنچ گئے۔ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ ان سے محبت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ان سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3290]
حدیث نمبر: 3291
-" إن الحسن والحسين هما ريحانتاي من الدنيا".
عبدالرحمٰن بن ابونعم کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اس کپڑے کے بارے میں دریافت کیا جس کو مچھر کا خون لگ جاتا ہے، میں بھی وہاں بیٹھا تھا۔ انھوں نے کہا: تو کہاں سے ہے؟ اس نے کہا: عراق سے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: دیکھو اس آدمی کو، یہ مچھر کے خون کے بارے میں سوال کرتا ہے؟ (‏‏‏‏یہ اتنے ظالم ہیں کہ) انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کو شہید کر دیا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا تھا: بیشک حسن اور حسین میری دنیا کے خوشبودار پودے ہیں۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3291]
حدیث نمبر: 3292
-" الحسن مني والحسين من علي".
خالد بن معدان کہتے ہیں کہ سیدنا مقدام بن معدیکرب اور سیدنا عمرو بن اسود رضی اللہ عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا مقدام سے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما فوت ہو گئے ہیں؟ انہوں نے «إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ» کہا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: کیا تم اس خبر کو آزمائش سمجھتے ہو؟ انہوں نے کہا: میں اس واقعہ کو ابتلا و آزمائش کیوں نہ سمجھوں، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن کو اپنی گود میں بٹھایا اور فرمایا: حسن مجھ سے ہے اور حسین، علی سے ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3292]
حدیث نمبر: 3293
-" الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہوں گے۔ یہ حدیث سیدنا ابوسعید خدری، سیدنا حذیفہ بن یمان، سیدنا علی بن ابوطالب، سیدنا عمر بن خطاب، سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا براء بن عازب، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا جابر بن عبداللہ اور سیدنا قرہ بن ایاس رضی اللہ عنہم سے روایت کی گئی ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3293]
حدیث نمبر: 3294
-" حسين مني وأنا من حسين، أحب الله من أحب حسينا، حسين سبط من الأسباط".
یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین امتوں میں سے ایک امت ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3294]
2188. سیدنا حسن و حسین اور ان کے والدین کی عظمت
حدیث نمبر: 3295
- (إنّي، وإيّاكِ، وهذين، وهذا الرّاقد- يعني: عليّاً- يوم القيامة في مكان واحد، يعني: فاطمة وولديْها: الحسن والحسين رضي الله عنهم)
ابوفاختہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمارے ہاں ہی رات گزاری، حسن و حسین سو رہے تھے۔ (‏‏‏‏رات کو) حسن نے پانی مانگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مشکیزے کی طرف گئے، پیالے میں پانی نکالا، پھر اسے پلانے کے لیے لے آئے، (‏‏‏‏اب حسن کی بجائے وہ پیالہ) حسین نے پینے کے لیے پکڑنا چاہا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہ پینے دیا، پھر حسن سے ابتداء کی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسے لگتا ہے کہ آپ کو حسن زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بات نہیں ہے، (‏‏‏‏دراصل) حسن نے پانی پہلے مانگا تھا (‏‏‏‏اس لیے پہلے پینے کا حق بھی اسی کا ہے)۔ پھر فرمایا: میں، تو، یہ دونوں اور یہ سونے والے (‏‏‏‏علی رضی اللہ عنہ) روز قیامت ایک مقام میں ہوں گے۔ ان دونوں سے مراد سیدہ فاطمہ کے بیٹے حسن اور حسین ہیں۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3295]
2189. سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی پیشین گوئی، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی حیثیت
حدیث نمبر: 3296
-" أتاني جبريل عليه الصلاة والسلام، فأخبرني أن أمتي ستقتل ابني هذا (يعني الحسين)، فقلت: هذا؟ فقال: نعم، وأتاني بتربة من تربته حمراء".
سیدہ ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے رات کو قبیح خواب دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وہ کیا ہے؟، اس نے کہا: وہ بہت سخت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آخر وہ ہے کہا؟، اس نے کہا: مجھے ایسے لگا کہ آپ کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں پھینکا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے عمدہ خواب دیکھا ہے، (‏‏‏‏اس کی تعبیر یہ ہے کہ) ان شاء اﷲ میری بیٹی فاطمہ کا بچہ پیدا ہو گا جو تیری گود میں ہو گا۔ واقعی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بچہ حسین پیدا ہوا جو میری گود میں تھا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور حسین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں رکھ دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں کہا: اے اللہ کے نبی ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کو کیا ہو گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے بتلایا کہ میری امت میرے اس بیٹے کو قتل کر دے گی۔ میں نے کہا: یہ بیٹا (‏‏‏‏حسین)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، وہ میرے پاس اس علاقے کی سرخ مٹی بھی لائے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3296]
حدیث نمبر: 3297
-" لقد دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها، فقال لي: إن ابنك هذا: حسين مقتول وإن شئت أريتك من تربتة الأرض التي يقتل بها".
سیدہ عائشہ و سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی ایک کو فرمایا: آج گھر میں میرے پاس ایسا فرشتہ آیا، جو پہلے کبھی نہیں آیا تھا، اس نے مجھے کہا: آپ کا یہ حسین بیٹا قتل ہو جائے گا، اگر آپ چاہتے ہیں تو میں اس کے مقتل (‏‏‏‏ جائے قتل) کی مٹی آپ کو دکھا دیتا ہوں۔ پھر اس نے سرخ مٹی نکال (‏‏‏‏ کر مجھے دکھائی)۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3297]
حدیث نمبر: 3298
-" قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات".
عبداللہ بن نجی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ طہارت والے پانی کا برتن اٹھا کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ چل رہے تھے، جب صفین کی طرف جاتے ہوئے نینوی مقام تک پہنچے، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے آواز دی: ابوعبداللہ! ٹھہر جاؤ، دریائے فرات کے کنارے ٹھہر جاؤ۔ میں نے کہا: ادھر کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، اس حال میں کہ آپ کی آنکھیں اشک بار تھیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کسی نے آپ کو غصہ دلایا ہے؟ آپ کی آنکھیں کیوں آنسو بہار ہی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری کی آمد سے قبل جبریل امین میرے پاس سے اٹھ کر گئے ہیں، انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین کو دریائے فرات کے کنارے قتل کر دیا جائے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے کہا: میں آپ کو اس کی مٹی کی خوشبو سونگھاؤں؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ پس اس نے اپنا ہاتھ لمبا کیا، مٹی کی مٹھی بھری اور مجھے دے دی۔ میں اپنے آپ پر قابو نہ پا سکا اور رونے لگ گیا۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3298]

Previous    9    10    11    12    13    14    15    16    17    Next