الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


شمائل ترمذي کل احادیث (417)
حدیث نمبر سے تلاش:

شمائل ترمذي
بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انکساری کا بیان
1. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع اور انکساری
حدیث نمبر: 329
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا: عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ"
امیر المومنین خلیفہ ثانی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مجھے میری مدح سرائی میں حد سے نہ بڑھانا جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حد سے بڑھا دیا تھا، میں تو اللہ کا بندہ ہوں اس لئے مجھے تم بھی اللہ کے بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 329]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحيح» ‏‏‏‏ :
«صحيح بخاري (3445)»

2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال تواضع اور انکساری کا ایک واقعہ
حدیث نمبر: 330
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ لَهُ: إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً، فَقَالَ: «اجْلِسِي فِي أَيِّ طَرِيقِ الْمَدِينَةِ شِئْتِ أَجْلِسْ إِلَيْكِ»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی مجھے آپ سے کوئی کام ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینے کے جس راستے پر چاہو بیٹھ جاؤ، میں بھی تیرے پاس بیٹھ جاؤں گا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 330]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحيح» ‏‏‏‏ :
«سنن ابي داود (4818) نحو المعنيٰ مطولا وسنده صحيح.»

3. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تواضع والے اعمال
حدیث نمبر: 331
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ مُسْلِمٍ الْأَعْوَرِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُ الْمَرِيضَ، وَيَشْهَدُ الْجَنَائِزَ، وَيَرْكَبُ الْحِمَارَ، وَيُجِيبُ دَعْوَةَ الْعَبْدِ، وَكَانَ يَوْمَ بَنِي قُرَيْظَةَ عَلَى حِمَارٍ مَخْطُومٍ بَحَبْلٍ مِنْ لِيفٍ وَعَلَيْهِ إِكَافٌ مِنْ لِيفٍ»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مریضوں کی عیادت کرتے تھے، جنازوں میں شرکت کرتے تھے، گدھے پر سوار ہو جاتے تھے، غلاموں کی دعوت قبول کر لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قریظہ کی لڑائی کے دن ایک ایسے گدھے پر سوار تھے جس کی لگام کھجور کے پٹھوں کی تھی اور اس پر پالان بھی کھجور کی چھال (پٹھوں) کا تھا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 331]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده ضعيف» ‏‏‏‏ :
«(سنن ترمذي: 1017، وقال . . .)»
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں فرمایا: یہ حدیث ہمیں صرف مسلم بن کیسان الملائی الاعور کی سند سے معلوم ہے اور اسے ضعیف قرار دیا جاتا ہے۔ [ح 1017 ]
ابوحمزہ مسلم الاعور ضعیف ہے۔ دیکھئے [تقريب التهذيب 6641 ]
تنبیہ: اس روایت کے بعض فقرے صحیح احادیث سے ثابت ہیں، جو اس ضعیف روایت سے بے نیاز کر دتیے ہیں.

4. آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادنیٰ دعوت بھی قبول فرما لیتے تھے
حدیث نمبر: 332
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُدْعَى إِلَى خُبْزِ الشَّعِيرِ وَالْإِهَالَةِ السَّنِخَةِ فَيُجِيبُ. وَلَقَدْ كَانَ لَهُ دِرْعٌ عِنْدَ يَهُودِيٍّ فَمَا وَجَدَ مَا يَفُكُّهَا حَتَّى مَاتَ»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر جو کی روٹی اور پرانی چربی کی طرف بھی دعوت دی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قبول فرما لیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کو رہن سے واگزار کروانے کے لیے کوئی چیز نہیں تھی یہاں تک کہ آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 332]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحيح» ‏‏‏‏ :
«مسند احمد (102/3)، سنن ترمذي (1215) بسند آخر عن انس رضى الله عنه به.»
اس روایت کی سند اعمش کے عن اور انقطاع کی وجہ سے ضیعف ہے، لیکن سنن ترمذی (1214) اور صحیح بخاری (2069) وغیرہما میں اس کے شواہد ہیں جن کے ساتھ یہ صحیح ہے۔

5. سفر حج میں تواضع اور سادگی
حدیث نمبر: 333
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ صَبِيحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَحْلٍ رَثٍّ وَعَلَيْهِ قَطِيفَةٌ لَا تُسَاوِي أَرْبَعَةَ دَرَاهِمَ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ حَجًّا لَا رِيَاءَ فِيهِ وَلَا سُمْعَةَ»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پرانے کجاوہ پر حج کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی چادر اوڑھ رکھی تھی جس کی قیمت چار درہم کے برابر بھی نہ تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس موقع پر) یہ دعا فرمائی: اے اللہ! اس حج کو ایسا بنا دے جس میں نہ ریاء ہو اور نہ شہرت ہو۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 333]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده ضعيف» ‏‏‏‏ :
«سنن ابن ماجه (2890)»
اس روایت کی سند یزید بن ابان الرقاشی کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے اور صحیح ابن خزیمہ (2836) وغیرہ میں اس کے ضعیف شواہد بھی ہیں۔
دیکھئے [انوار الصحيفه ص 482]

6. آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے قیام تعظیمی کو ناپسند کرتے تھے
حدیث نمبر: 334
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: «لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» قَالَ: «وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا، لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهَتِهِ لِذَلِكَ»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر محبوب اور پیارا اور کوئی بھی نہ تھا اور وہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے آپ کے لیے کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ اس فعل پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناپسندیدگی اور ناراضگی کو جانتے تھے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 334]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده صحيح» ‏‏‏‏ :
«(سنن ترمذي: 2754، وقال: حسن صحيح)، مسند احمد (250/3)»

7. معمولات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تواضع و انکساری کا بین ثبوت ہیں
حدیث نمبر: 335
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا جُمَيْعُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعِجْلِيُّ قَالَ: أَنْبَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ مِنْ وَلَدِ أَبِي هَالَةَ زَوْجِ خَدِيجَةَ يُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنٍ لِأَبِي هَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ، وَكَانَ وَصَّافًا عَنْ حِلْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا أَشْتَهِي أَنْ يَصِفَ لِي مِنْهَا شَيْئًا، فَقَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخْمًا مُفَخَّمًا، يَتَلَأْلَأُ وَجْهُهُ تَلَأْلُؤَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ» فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ قَالَ الْحَسَنُ: «فَكَتَّمْتُهَا الْحُسَيْنَ زَمَانًا، ثُمَّ حَدَّثْتُهُ فَوَجَدْتُهُ قَدْ سَبَقَنِي إِلَيْهِ. فَسَأَلَهُ عَمَّا سَأَلْتُهُ عَنْهُ وَوَجَدْتُهُ قَدْ سَأَلَ أَبَاهَا عَنْ مَدْخَلِهِ وَمَخْرَجِهِ وَشَكْلِهِ فَلَمْ يَدَعْ مِنْهُ شَيْئًا» قَالَ الْحُسَيْنُ: فَسَأَلْتُ أَبِي، عَنْ دُخُولِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: كَانَ" إِذَا أَوَى إِلَى مَنْزلِهِ جَزَّأَ دُخُولَهُ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ، جُزْءًا لِلَّهِ، وَجُزْءًا لِأَهْلِهِ، وَجُزْءًا لِنَفْسِهِ، ثُمَّ جَزَّأَ جُزْأَهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ، فَيَرُدُّ ذَلِكَ بِالْخَاصَّةِ عَلَى الْعَامَّةِ، وَلَا يَدَّخِرُ عَنْهُمْ شَيْئًا، وَكَانَ مِنْ سِيرَتِهِ فِي جُزْءِ الْأُمَّةِ إِيثَارُ أَهْلِ الْفَضْلِ بِإِذْنِهِ وَقَسْمِهِ عَلَى قَدْرِ فَضْلِهِمْ فِي الدِّينِ، فَمِنْهُمْ ذُو الْحَاجَةِ، وَمِنْهُمْ ذُو الْحَاجَتَيْنِ، وَمِنْهُمْ ذُو الْحَوَائِجِ، فَيَتَشَاغَلُ بِهِمْ وَيَشْغَلُهُمْ فِيمَا يُصْلِحُهُمْ وَالْأُمَّةَ مِنْ مُسَاءَلَتِهِمْ عَنْهُ وَإِخْبَارِهِمْ بِالَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ وَيَقُولُ: «لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِبَ، وَأَبْلِغُونِي حَاجَةَ مَنْ لَا يَسْتَطِيعُ إِبْلَاغَهَا، فَإِنَّهُ مَنْ أَبْلَغَ سُلطَانًا حَاجَةَ مَنْ لَا يَسْتَطِيعُ إِبْلَاغَهَا ثَبَّتَ اللَّهُ قَدمَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» ، لَا يُذْكَرُ عِنْدَهُ إِلَا ذَلِكَ، وَلَا يُقْبَلُ مِنْ أَحَدٍ غَيْرِهِ، يَدْخُلُونَ رُوَّادًا وَلَا يَفْتَرِقُونَ إِلَا عَنْ ذَوَاقٍ، وَيُخْرِجُونَ أَدِلَّةً يَعْنِي عَلَى الْخَيْرِ" قَالَ: فَسَأَلْتُهُ عَنْ مَخْرَجِهِ كَيْفَ يَصْنَعُ فِيهِ؟ قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرِنُ لِسَانُهُ إِلَا فِيمَا يَعْنِيهِ، وَيُؤَلِّفُهُمْ وَلَا يُنَفِّرُهُمْ، وَيُكْرِمُ كَرَيمَ كُلِّ قَوْمٍ وَيُوَلِّيهِ عَلَيْهِمْ، وَيُحَذِّرُ النَّاسَ وَيَحْتَرِسُ مِنْهُمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَطْوِيَ عَنْ أَحَدٍ مِنْهُمْ بِشْرَهُ وَخُلُقَهُ، وَيَتَفَقَّدُ أَصْحَابَهُ، وَيَسْأَلُ النَّاسَ عَمَّا فِي النَّاسِ، وَيُحَسِّنُ الْحَسَنَ وَيُقَوِّيهِ، وَيُقَبِّحُ الْقَبِيحَ وَيُوَهِّيهِ، مُعْتَدِلُ الْأَمْرِ غَيْرُ مُخْتَلِفٍ، لَا يَغْفُلُ مَخَافَةَ أَنْ يَغْفُلُوا أَوْ يَمِيلُوا، لِكُلِّ حَالٍ عِنْدَهُ عَتَادٌ، لَا يُقَصِّرُ عَنِ الْحَقِّ وَلَا يُجَاوِزُهُ. الَّذِينَ يَلُونَهُ مِنَ النَّاسِ خِيَارُهُمْ، أَفْضَلُهُمْ عِنْدَهُ أَعَمُّهُمْ نَصِيحَةً، وَأَعْظَمُهُمْ عِنْدَهُ مَنْزِلَةً أَحْسَنُهُمْ مُوَاسَاةً وَمُؤَازَرَةً» قَالَ: فَسَأَلْتُهُ عَنْ مَجْلِسِهِ، فَقَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَقُومُ وَلَا يَجَلِسُ إِلَا عَلَى ذِكْرٍ، وَإِذَا انْتَهَى إِلَى قَوْمٍ جَلَسَ حَيْثُ يَنْتَهِي بِهِ الْمَجْلِسُ وَيَأْمُرُ بِذَلِكَ، يُعْطِي كُلَّ جُلَسَائِهِ بِنَصِيبِهِ، لَا يَحْسَبُ جَلِيسُهُ أَنَّ أَحَدًا أَكْرَمُ عَلَيْهِ مِنْهُ، مَنْ جَالَسَهُ أَوْ فَاوَضَهُ فِي حَاجَةٍ صَابَرَهُ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الْمُنْصَرِفُ عَنْهُ، وَمَنْ سَأَلَهُ حَاجَةً لَمْ يَرُدَّهُ إِلَا بِهَا أَوْ بِمَيْسُورٍ مِنَ الْقَوْلِ، قَدْ وَسِعَ النَّاسَ بَسْطُهُ وَخُلُقُهُ، فَصَارَ لَهُمْ أَبًا وَصَارُوا عِنْدَهُ فِي الْحَقِّ سَوَاءً، مَجْلِسُهُ مَجْلِسُ عِلْمٍ وَحِلْمٍ وَحَيَاءٍ وَأَمَانَةٍ وَصَبْرٍ، لَا تُرْفَعُ فِيهِ الْأَصْوَاتُ وَلَا تُؤْبَنُ فِيهِ الْحُرَمُ، وَلَا تُثَنَّى فَلَتَاتُهُ مُتَعَادِلِينَ، بَلْ كَانُوا يَتَفَاضَلُونَ فِيهِ بِالتَّقْوَى، مُتَوَاضِعِينَ يُوقِّرُونَ فِيهِ الْكَبِيرَ وَيَرْحَمُونَ فِيهِ الصَّغِيرَ، وَيُؤْثِرُونَ ذَا الْحَاجَةِ وَيَحْفَظُونَ الْغَرِيبَ»
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالۃ سے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک) پوچھا کیونکہ وہ اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرتے رہتے تھے اور میں بھی چاہتا تھا کہ وہ میرے لیے اس سے کچھ بیان کریں۔ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود شاندار تھے اور دوسروں کی نظروں میں بھی شان والے تھے، آپ کا رخ انور چودھویں رات کے چاند کی مانند چمکتا تھا۔ پھر انہوں نے لمبی حدیث بیان کی جو اسی کتاب کے پہلے باب میں گزر چکی ہے۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک عرصہ تک میں اس حدیث کو اپنے بھائی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے چھپائے رکھا اور انہیں بیان نہ کی۔ پھر جب میں نے یہ حدیث انہیں بیان کی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھ پر اس کے جاننے میں سبقت لے گئے ہیں اور دریافت کر چکے ہیں۔ نیز میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے گھر آنے جانے اور دیگر طور طریقے کے بارے میں دریافت کر چکے ہیں اور اس بارے میں ان سے کوئی چیز مخفی نہیں رہی۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اپنے والد گرامی (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر مبارک میں تشریف لے جانے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر تشریف لے جاتے تو اپنے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کر لیتے ایک حصہ اللہ تعالیٰ (کے ذکر و فکر) کے لیے، ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے لیے، اور ایک حصہ اپنے کام کاج اور آرام کے لیے۔ پھر وہ حصہ جو اپنے لیے مخصوص فرماتے اسے دو حصوں میں تقسیم کر لیتے، کچھ اپنے لیے اور کچھ دیگر لوگوں کے لیے، لوگوں کے حصہ میں خواص کو عوام پر ترجیح دیتے، اور ان سے کوئی چیز مخفی نہ رکھتے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ اجازت کہ ساتھ اہل فضل و علم کو ترجیح دیتے اور اس وقت کو بھی دینی فضل و عظمت کے لحاظ سے تقسیم فرما لیتے، بعض لوگ ایک ضرورت والے ہوتے، اور بعض لوگ دو ضرورتوں والے، اور بعض زیادہ ضرورتوں والے ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ مشغول رکھتے اور ان تمام امور میں مشغول رہتے جن میں ان لوگوں کی اور عام افراد امت کی اصلاح ہوتی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ایسی خبریں دیتے جو ان کے لیے ضروری ہوتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم فرماتے کہ تم میں سے جو لوگ یہاں حاضر ہیں وہ میری بات ان تک پہنچا دیں اور جو یہاں حاضر نہیں ہیں، اور جو مجھ تک پہنچنے کی طاقت نہیں رکھتا اس کی حاجت و ضرورت مجھے پہنچاؤ، کیونکہ یقیناً جو شخص امیر یا سلطان تک کسی ایسے شخص کی ضرورت پہنچائے جو خود نہیں پہنچ سکتا تو اللہ تعالیٰ عزوجل اسے قیامت کے دن ثابت قدم رکھے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اسی طرح کی باتیں ہوتی تھیں اور آپ کسی سے اس طرح کی باتوں کے علاوہ اور کچھ قبول نہ فرماتے تھے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس طالب بن کر جاتے اور سیر ہو کر جدا ہوتے نیز خیر و بھلائی کے داعی بن کر نکلتے۔ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے نکلنے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے گھر سے باہر بھی) اپنی زبان مبارک کو فضول باتوں سے محفوظ رکھتے اور صرف بامقصد گفتگو فرماتے، لوگوں کو آپس میں جوڑتے اور ان کو توڑتے نہیں تھے انہیں اپنے سے مانوس کرتے، قوم کے عزت دار اور سردار کی تکریم کرتے اور اسی کو ان کے معاملات پر امیر مقرر فرماتے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے، اور لوگوں میں جو واقعات ہوتے ان کو دریافت فرماتے اور ہر اچھی بات کی تحسین فرما کر اسے مزید تقویت دیتے، ہر بری بات کی برائی بیان فرماتے اور اسے زائل کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر کام میں میانہ روی اختیار فرماتے نہ کہ جلد باز تھے اور کسی وقت بھی اپنے ساتھیوں کی اصلاح سے غافل نہ ہوتے کہ کہیں یہ لوگ امور دین سے غافل نہ ہو جائیں اور کسی دوسری طرف مائل نہ ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہر کام کے لیے باقائدہ اہتمام و انتظام ہوتا ہے، آپ حق کے ارشاد فرمانے میں نہ کوتاہی کرتے اور نہ ہی حد سے تجاوز کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی افراد انتہائی بہترین افراد ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک صاحب فضیلت وہ ہوتا جو کہ از روئے نصیحت کرنے کے ہر ایک کی بھلائی چاہتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بڑے مرتبے والا وہ ہوتا جو مخلوق کی غمگساری اور مدد میں زیادہ حصہ لیتا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھر میں نے ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نشست و برخاست ہمیشہ ذکر الہیٰ پر ہوتی اور مجلس میں پہنچتے تو جہاں جگہ ملتی وہیں بیٹھ جاتے اور دوسرے لوگوں کو بھی اسی طرح کرنے کا حکم دیتے، حاضریں مجلس میں سے ہر ایک کو اس کا حصہ دیتے۔ مجلس کا کوئی بھی ساتھی یہ نہ سمجھتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں فلاں شخص اس سے زیادہ باعزت ہے (بلکہ تمام دوستوں کو یکساں عزت دیتے)، جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھتا یا اپنی کوئی حاجت و ضرورت پیش کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ بیٹھے رہتے حتٰی کہ وہ خود چلا جاتا، اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی کسی ضرورت و حاجت کا سوال کرتا تو آپ اسے پورا کر دیتے ورنہ نرمی کے ساتھ جواب مرحمت فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خندہ روئی اور اخلاق کریمانہ ہر ایک کو احاطہ کیے ہوئے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کے لیے باپ کے درجہ پر تھے، حقوق کے لحاظ سے تمام لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مبارک میں برابر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پاک علم و حلم، حیاء و شرم اور صبر و امانت کا مرقع ہوتی۔ مجلس میں کوئی بھی اونچی آواز نہ کرتا اور نہ ہی کسی کی بے حرمتی کی جاتی، کسی کی لغزش اور کمزوری کو شہرت نہ دی جاتی، سب لوگ باہم ایک دوسرے پر برابر جانے جاتے، ہاں مجلس پاک میں کسی کی افضلیت و مرتبت تقوی کی بنیاد پر ہوتی، شرکاء مجلس ایک دوسرے سے تواضع اور انکساری سے پیش آتے، بڑوں کی عزت اور کم عمر والے لوگوں پر شفقت کی جاتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمنشین ضرور مندوں کو ترجیح دیتے اور مسافروں کی، اجنبیوں کی خبر گیری اور حفاظت کرتے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 335]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده ضعيف» ‏‏‏‏ :
نیز دیکھئیے ح 7، 224

8. آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی قیمت والا ہدیہ بھی قبول فرما لیتے تھے
حدیث نمبر: 336
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لوْ أُهْدِيَ إِلَيَّ كُرَاعٌ لَقَبِلتُ، وَلوْ دُعِيتُ عَلَيْهِ لَأَجَبْتُ»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے بکری کا ایک پایہ بھی تحفہ اور ہدیہ میں دیا جائے تو میں اسے قبول کرلوں گا اور اگر مجھے اس کی طرف دعوت دی جائے تو میں ضرور حاضر ہوں گا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 336]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحيح» ‏‏‏‏ :
«(سنن ترمذي: 1338، وقال: حسن صحيح)، صحيح ابن حبان (الموارد: 1065) من حديث سعيد بن ابي عروبه به.»
اس روایت کی سند میں اگرچہ قتادہ مدلس ہیں، لیکن صحیح بخاری (2568، 5178) وغیرہ میں اس کے شواہد ہیں جن کے ساتھ یہ بھی صحیح ہے۔

9. مریضوں کی عیادت کرنا بھی تواضع کا نمونہ ہے
حدیث نمبر: 337
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: «جَاءَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ برَاكِبِ بَغْلٍ وَلَا بِرْذَوْنٍ»
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو آپ نہ خچر پر سوار تھے نہ ترکی گھوڑے پر (بلکہ آپ پیدل تشریف لائے)۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 337]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏حسن» ‏‏‏‏ :
«(سنن ترمذي: 3851، وقال: حسن صحيح)»
اس روایت کی سند اگرچہ سفیان ثوری کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن صحیح بخاری (6723) اور صحیح مسلم (1616) وغیرہما میں اس کے معنوی شواہد ہیں۔

10. بچوں سے شفقت و رحم دلی تواضع کا پرتو ہے
حدیث نمبر: 338
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي الْهَيْثَمِ الْعَطَّارُ قَالَ: سَمِعْتُ يُوسُفَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَّامٍ قَالَ: «سَمَّانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوسُفَ وَأَقْعَدَنِي فِي حِجْرِهِ وَمَسَحَ عَلَى رَأْسِي»
سیدنا یوسف بن عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام یوسف رکھا اور مجھے اپنی گود میں بٹھایا اور میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 338]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده صحيح» ‏‏‏‏ :
«مسند احمد (5/4، 6/6)»


1    2    Next