عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، تو اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر، ابوہریرہ، اور معاویہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2645]
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو علم حاصل کرنے کے ارادہ سے کہیں جائے، تو اللہ اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان (و ہموار) کر دیتا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2646]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الذکر والدعاء 18 (2699)، سنن ابی داود/ العلم 1 (3643)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 17 (225)، ویأتي في القراءت 12 (2945) (تحفة الأشراف: 12486)، و مسند احمد (2/252، 325، 407)، وسنن الدارمی/المقدمة 32 (356) (صحیح)»
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے نکلے تو وہ لوٹنے تک اللہ کی راہ میں (شمار) ہو گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- بعض اہل علم نے اسے غیر مرفوع روایت کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2647]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 830) (حسن) (اس کے تین رواة ”خالد بن یزید“ ابو جعفر رازی“ اور ”ربیع بن انس“ پر کلام ہے، اور حدیث کی تحسین ترمذی نے کی ہے اور ضیاء مقدسی نے اسے احادیث مختارہ میں ذکر کیا ہے، نیز ابوہریرہ کے شاہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب 87، 88، السراج المنیر 254، و الضعیفة رقم 2037، تراجع الألبانی 354)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (220) ، الضعيفة (2037) ، الروض النضير (109) // ضعيف الجامع الصغير (5570) //
سخبرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو علم حاصل کرے گا تو یہ اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند ضعیف ہے، ۲- راوی ابوداود نفیع اعمی حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، ۳- ہم عبداللہ بن سخبرہ سے مروی زیادہ حدیثیں نہیں جانتے اور نہ ان کے باپ کی (یعنی یہ دونوں باپ بیٹے غیر معروف قسم کے لوگ ہیں)، ابوداؤد کا نام نفیع الاعمیٰ ہے۔ ان کے بارے میں قتادہ اور دوسرے بہت سے اہل علم نے کلام کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2648]
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس سے علم دین کی کوئی ایسی بات پوچھی جائے جسے وہ جانتا ہے، پھر وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2649]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ العلم 9 (3658)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 24 (261) (تحفة الأشراف: 14196) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (264)
4. باب مَا جَاءَ فِي الاِسْتِيصَاءِ بِمَنْ يَطْلُبُ الْعِلْمَ
4. باب: علم (دین) حاصل کرنے والوں کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا بیان۔
ابوہارون کہتے ہیں کہ ہم ابو سعید خدری رضی الله عنہ کے پاس (علم دین حاصل کرنے کے لیے) آتے، تو وہ کہتے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق تمہیں خوش آمدید، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ تمہارے پیچھے ہیں ۱؎ کچھ لوگ تمہارے پاس زمین کے گوشہ گوشہ سے علم دین حاصل کرنے کے لیے آئیں گے تو جب وہ تمہارے پاس آئیں تو تم ان کے ساتھ بھلائی کرنا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی بن عبداللہ بن المدینی نے کہا: یحییٰ بن سعید کہتے تھے: شعبہ ابوہارون عبدی کو ضعیف قرار دیتے تھے، ۲- یحییٰ بن سعید کہتے ہیں: ابن عون جب تک زندہ رہے ہمیشہ ابوہارون عبدی سے روایت کرتے رہے، ۳- ابوہارون کا نام عمارہ بن جوین ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2650]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 22 (249) (تحفة الأشراف: 4262) (ضعیف) (سند میں ابو ہارون العیدی عمارة بن جوین مشہور کذابین میں سے ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (249) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (50) ، المشكاة (215) ، ضعيف الجامع الصغير (1797) //
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس پورب سے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے آئیں گے پس جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے ساتھ بھلائی کرنا“۔ راوی حدیث کہتے ہیں: ابو سعید خدری رضی الله عنہ کا حال یہ تھا کہ جب وہ ہمیں (طالبان علم دین کو) دیکھتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق ہمیں خوش آمدید کہتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ہم اس حدیث کو صرف ابوہارون کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2651]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ماقبلہ (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (249) // ضعيف سنن ابن ماجة الصفحة (19) ، ضعيف الجامع الصغير (6411) //
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ علم اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں کے سینوں سے کھینچ لے، لیکن وہ علم کو علماء کی وفات کے ذریعہ سے اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب وہ کسی عالم کو باقی نہیں رکھے گا تو لوگ اپنا سردار جاہلوں کو بنا لیں گے، ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث زہری نے عروہ سے اور عروہ نے عبداللہ بن عمرو سے روایت کی ہے، اور زہری نے (ایک دوسری سند سے) عروہ سے اور عروہ نے عائشہ رضی الله عنہا کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے، ۳- اس باب میں عائشہ اور زیاد بن لبید سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2652]
ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اچانک آپ نے اپنی نظریں آسمان پر گاڑ دیں، پھر فرمایا: ”ایسا وقت (آ گیا) ہے کہ جس میں لوگوں کے سینوں سے علم اچک لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ لوگوں کے پاس کچھ بھی علم نہیں ہو گا، زیاد بن لبید انصاری نے کہا: (اللہ کے رسول!) علم ہم سے کس طرح چھین لیا جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہوں گے۔ قسم اللہ کی! ہم ضرور اسے پڑھیں گے اور ہم ضرور اپنی عورتوں کو اسے پڑھائیں گے اور اپنے بچوں کو سکھائیں گے۔ آپ نے فرمایا: ”اے زیاد تمہاری ماں تمہیں کھو دے! میں تو تمہیں اہل مدینہ کے فقہاء میں سے شمار کرتا تھا۔ یہ تورات اور انجیل بھی تو پاس ہے یہود و نصاریٰ کے کیا کام آئی ان کے؟“۱؎(کیا فائدہ پہنچایا تورات اور انجیل نے ان کو؟)۔ جبیر (راوی) کہتے ہیں: میری ملاقات عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے ہوئی تو میں نے ان سے کہا: کیا آپ نہیں سنتے کہ آپ کے بھائی ابوالدرداء رضی الله عنہ کیا کہتے ہیں؟ پھر ابوالدرداء رضی الله عنہ نے جو کہا تھا وہ میں نے انہیں بتا دیا۔ انہوں نے کہا: ابوالدرداء رضی الله عنہ نے سچ کہا۔ اور اگر تم (مزید) جاننا چاہو تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ پہلے پہل لوگوں سے اٹھا لیا جانے والا علم، خشوع ہے۔ عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم جامع مسجد کے اندر جاؤ گے لیکن وہاں تمہیں کوئی (صحیح معنوں میں) خشوع خضوع اپنانے والا شخص دکھائی نہ دے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- معاویہ بن صالح محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔ اور یحییٰ بن سعید قطان کے سوا ہم کسی کو نہیں جانتے کہ اس نے ان کے متعلق کچھ کلام کیا ہو، ۳- معاویہ بن صالح سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے، ۴- بعضوں نے یہ حدیث عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر سے، عبدالرحمٰن نے اپنے والد جبیر سے، جبیر نے عوف بن مالک سے اور عوف بن مالک نے بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2653]
کعب بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص علم اس واسطے سیکھے کہ اس کے ذریعہ علماء کی برابری کرے ۱؎، کم علم اور بیوقوفوں سے بحث و تکرار کرے یا اس علم کے ذریعہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل فرمائے گا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۳- اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ محدثین کے نزدیک کچھ بہت زیادہ قوی نہیں ہیں، ان کے حافظہ کے سلسلے میں کلام کیا گیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2654]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11140) (حسن) (سند میں اسحاق ضعیف ہیں شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)»
قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (223 - 225) ، التعليق الرغيب (1 / 68)