انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے نکلے تو وہ لوٹنے تک اللہ کی راہ میں (شمار) ہو گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- بعض اہل علم نے اسے غیر مرفوع روایت کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2647]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 830) (حسن) (اس کے تین رواة ”خالد بن یزید“ ابو جعفر رازی“ اور ”ربیع بن انس“ پر کلام ہے، اور حدیث کی تحسین ترمذی نے کی ہے اور ضیاء مقدسی نے اسے احادیث مختارہ میں ذکر کیا ہے، نیز ابوہریرہ کے شاہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب 87، 88، السراج المنیر 254، و الضعیفة رقم 2037، تراجع الألبانی 354)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ علم حاصل کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ کے برابر ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (220) ، الضعيفة (2037) ، الروض النضير (109) // ضعيف الجامع الصغير (5570) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2647) إسناده ضعيف أبو جعفر الرازي ضعيف عن الربيع بن أنس وحسن الحديث عن غيره ( وانظر د 1182) تعديلات: وروي الحاكم (91/1 ح 309) من حديث أبى هريره عن النبى صلى الله عليه وسلم قال : ”من جاء مسجدنا هذا يتعلم خيرًا أو يعلمه فهو كالمجاهد فى سبيل الله ومن جاء بغير هذا كان كالرجل يرى الشي يعجبه وليس له . . .“ وسنده حسن
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 220
´اہل علم کی فضیلت` «. . . وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى يرجع» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ والدارمي . . .» ”. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص علم حاصل کرنے کے لئے گھر سے باہرنکلا وہ اللہ کے راستہ میں ہے یہاں تک کہ وہ واپس آ جائے۔“ اس حدیث کو ترمذی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 220]
تحقیق الحدیث: اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ ◄ اس روایت کے راوی خالد بن یزید العتکی، ابوجعفر الرازی اور ربیع بن انس تینوں جمہور محدثین کی توثیق کی وجہ سے حسن الحدیث تھے، لیکن: حافظ ابن حبان نے ربیع بن انس کے بارے میں فرمایا: «والناس يتقون حديثه ما كان من رواية ابي جعفر عنه لان فيها اضطراب كثير» ”اور اس (ربیع بن انس) سے ابوجعفر (الرازی) کی روایت سے لوگ بچتے ہیں، کیونکہ اس میں بہت اضطراب ہے۔“[كتاب الثقات ج 4ص 228] ↰ یہ خاص جرح ہے، لہٰذا عام تعدیل پر مقدم ہے، یعنی ربیع بن انس سے ابوجعفر الرازی کی بیان کردہ روایات ضعیف ہیں اور دوسرے ثقہ و صدوق راویوں کی بیان کردہ روایات حسن یا صحیح ہیں۔