ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی الله عنہما جب باغیوں نے عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا تو انہوں نے اپنے گھر کی چھت پر آ کر کہا: میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم نہیں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین صورتوں کے سوا کسی مسلمان کا خون حلال نہیں: شادی کے بعد زنا کرنا، یا اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جانا، یا کسی کو ناحق قتل کرنا جس کے بدلے میں قاتل کو قتل کیا جائے، اللہ کی قسم! میں نے نہ جاہلیت میں زنا کیا ہے نہ اسلام میں، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے بعد میں مرتد ہوا ہوں اور نہ ہی اللہ کے حرام کردہ کسی نفس کا قاتل ہوں، پھر (آخر) تم لوگ کس وجہ سے مجھے قتل کر رہے ہو؟۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اسے حماد بن سلمہ نے یحییٰ بن سعید کے واسطہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے، اور یحییٰ بن سعید قطان اور دوسرے کئی لوگوں نے یحییٰ بن سعید سے یہ حدیث روایت کی ہے، لیکن یہ موقوف ہے نہ کہ مرفوع، ۳- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اور یہ حدیث عثمان کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی دیگر سندوں بھی سے مرفوعاً مروی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2158]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الدیات 3 (4502)، سنن النسائی/المحاربة 5 (4024)، سنن ابن ماجہ/الحدود 1 (2533) (تحفة الأشراف: 9782)، و مسند احمد (1/61، 62، 65، 70) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2533)
2. باب مَا جَاءَ دِمَاؤُكُمْ وَأَمْوَالُكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ
عمرو بن احوص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں سے خطاب کرتے سنا: ”یہ کون سا دن ہے؟“ لوگوں نے کہا: حج اکبر کا دن ہے ۱؎، آپ نے فرمایا: ”تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت و آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اس شہر میں تمہارے اس دن کی حرمت و تقدس ہے، خبردار! جرم کرنے والے کا وبال خود اسی پر ہے، خبردار! باپ کے قصور کا مواخذہ بیٹے سے اور بیٹے کے قصور کا مواخذہ باپ سے نہ ہو گا، سن لو! شیطان ہمیشہ کے لیے اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ تمہارے اس شہر میں اس کی پوجا ہو گی، البتہ ان چیزوں میں اس کی کچھ اطاعت ہو گی جن کو تم حقیر عمل سمجھتے ہو، وہ اسی سے خوش رہے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- زائدہ نے بھی شبیب بن غرقدہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ہم اس حدیث کو صرف شبیب بن غرقدہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۳- اس باب میں ابوبکرہ، ابن عباس، جابر، حذیم بن عمرو السعدی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2159]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ البیوع 5 (3334)، سنن ابن ماجہ/المناسک 76 (3055)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر التوبة (3087) (تحفة الأشراف: 10691) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3055)
3. باب مَا جَاءَ لاَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا
3. باب: ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو ڈرانا دھمکانا ناجائز ہے۔
یزید بن سائب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص کھیل کود میں ہو یا سنجیدگی میں اپنے بھائی کی لاٹھی نہ لے اور جو اپنے بھائی کی لاٹھی لے، تو وہ اسے واپس کر دے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف ابن ابی ذئب ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- سائب بن یزید کو شرف صحبت حاصل ہے بچپن میں انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی حدیثیں سنی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ان کی عمر سات سال تھی، ان کے والد یزید بن سائب ۱؎ کی بہت ساری حدیثیں ہیں، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثیں روایت کی ہیں، سائب بن یزید نمر کے بہن کے بیٹے ہیں، ۳- اس باب میں ابن عمر، سلیمان بن صرد، جعدہ، اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2160]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الأدب 93 (5003) (تحفة الأشراف: 11827)، و مسند احمد (4/221) (صحیح لغیرہ)»
قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (2948) ، الإرواء (1518)
سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (میرے والد) یزید رضی الله عنہ نے حجۃ الوداع کیا، اس وقت میں سات سال کا تھا۔ یحییٰ بن سعید قطان کہتے ہیں: محمد بن یوسف ثبت اور صاحب حدیث ہیں، سائب بن یزید ان کے نانا تھے، محمد بن یوسف کہتے تھے: مجھ سے سائب بن یزید نے حدیث بیان کی ہے، اور وہ میرے نانا ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2161]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر رقم 926 (إسنادہ حسن)»
4. باب مَا جَاءَ فِي إِشَارَةِ الْمُسْلِمِ إِلَى أَخِيهِ بِالسِّلاَحِ
4. باب: مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرنے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتے تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- یہ خالد حذاء کی روایت سے غریب سمجھی جاتی ہے، ۳- ایوب نے محمد بن سیرین کے واسطہ سے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، لیکن اسے مرفوعاً نہیں بیان کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے «وإن كان أخاه لأبيه وأمه»”اگرچہ اس کا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو“، ۴- اس باب میں ابوبکرہ، ام المؤمنین عائشہ اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2162]
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ننگی تلوار لینے اور دینے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حماد بن سلمہ کی روایت سے حسن غریب ہے، ۲- ابن لہیعہ نے یہ حدیث «عن أبي الزبير عن جابر عن بنة الجهني عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے، ۳- میرے نزدیک حماد بن سلمہ کی روایت زیادہ صحیح ہے، ۴- اس باب میں ابوبکرہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2163]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الجھاد 73 (2588) (تحفة الأشراف: 2690)، و مسند احمد (3/300، 361) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3527 / التحقيق الثانى)
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے فجر پڑھ لی وہ اللہ کی پناہ میں ہے، پھر (اس بات کا خیال رکھو کہ) اللہ تعالیٰ تمہارے درپے نہ ہو جائے اس کی پناہ توڑنے کی وجہ سے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں جندب اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2164]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14138) (صحیح) (سند میں معدی بن سلیمان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح انظر الحديث (222)
7. باب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ
7. باب: مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ہمیشہ رہنے کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مقام جابیہ میں (میرے والد) عمر رضی الله عنہ ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، انہوں نے کہا: لوگو! میں تمہارے درمیان اسی طرح (خطبہ دینے کے لیے) کھڑا ہوا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اپنے صحابہ کی پیروی کی وصیت کرتا ہوں، پھر ان کے بعد آنے والوں (یعنی تابعین) کی پھر ان کے بعد آنے والوں (یعنی تبع تابعین) کی، پھر جھوٹ عام ہو جائے گا، یہاں تک کہ قسم کھلائے بغیر آدمی قسم کھائے گا اور گواہ گواہی طلب کیے جانے سے پہلے ہی گواہی دے گا، خبردار! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے، تم لوگ جماعت کو لازم پکڑو اور پارٹی بندی سے بچو، کیونکہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ رہتا ہے، دو کے ساتھ اس کا رہنا نسبۃً زیادہ دور کی بات ہے، جو شخص جنت کے درمیانی حصہ میں جانا چاہتا ہو وہ جماعت سے لازمی طور پر جڑا رہے اور جسے اپنی نیکی سے خوشی ملے اور گناہ سے غم لاحق ہو حقیقت میں وہی مومن ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اسے ابن مبارک نے بھی محمد بن سوقہ سے روایت کیا ہے، ۳- یہ حدیث کئی سندوں سے عمر کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2165]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الأحکام 27 (2363) (والنسائي في الکبری) و مسند احمد (1/18، 26) (تحفة الأشراف: 10530) (صحیح) (ویأتي الإشارة إلیہ برقم: 2303)»
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد و نصرت) جماعت کے ساتھ ہوتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2166]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ میری امت کو یا یہ فرمایا: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا، اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد و نصرت) جماعت کے ساتھ ہے، جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- سلیمان مدنی میرے نزدیک سلیمان بن سفیان ہی ہیں، ان سے ابوداؤد طیالسی، ابوعامر عقدی اور کئی اہل علم نے روایت کی ہے، ۳- اہل علم کے نزدیک ”جماعت“ سے مراد اصحاب فقہ اور اصحاب علم اور اصحاب حدیث ہیں، ۴- علی بن حسین کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا: جماعت سے کون لوگ مراد ہیں؟ انہوں نے کہا: ابوبکر و عمر، ان سے کہا گیا: ابوبکر و عمر تو وفات پا گئے، انہوں نے کہا: فلاں اور فلاں، ان سے کہا گیا: فلاں اور فلاں بھی تو وفات پا چکے ہیں تو عبداللہ بن مبارک نے کہا: ابوحمزہ سکری جماعت ہیں ۱؎، ۵- ابوحمزہ کا نام محمد بن میمون ہے، وہ صالح اور نیک شیخ تھے، عبداللہ بن مبارک نے یہ بات ہم سے اس وقت کہی تھی جب ابوحمزہ باحیات تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2167]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7188) (صحیح) (سند میں ”سلیمان مدنی“ ضعیف ہیں، لیکن ”من شذ شذ إلى النار“ کے سوا دیگر ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں، دیکھیے ظلال الجنة رقم: 80)»