عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی الله عنہ کو ایک قافلہ میں پایا، وہ اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تم لوگوں کو باپ، دادا کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے، قسم کھانے والا اللہ کی قسم کھائے ورنہ چپ چاپ رہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1534]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 8058) (صحیح)»
سعد بن عبیدہ سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہما نے ایک آدمی کو کہتے سنا: ایسا نہیں قسم ہے کعبہ کی، تو اس سے کہا: غیر اللہ کی قسم نہ کھائی جائے، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر کیا یا شرک کیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس حدیث کی تفسیر بعض اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان «فقد كفر أو أشرك» تنبیہ و تغلیظ کے طور پر ہے، اس کی دلیل ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کو کہتے سنا: میرے باپ کی قسم، میرے باپ کی قسم! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ باپ، دادا کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے“، نیز ابوہریرہ رضی الله عنہ کی (روایت) کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے لات اور عزیٰ کی قسم کھائی وہ «لا إله إلا الله» کہے،
امام ترمذی کہتے ہیں: ۳- یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی طرح ہے ”بیشک ریا، شرک ہے، ۴- بعض اہل علم نے آیت کریمہ «فمن كان يرجو لقاء ربه فليعمل عملا صالحا»(الکہف: ۱۱۰) کی یہ تفسیر کی ہے کہ وہ ریا نہ کرے۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1535]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الأیمان 5 (3251)، (تحفة الأشراف: 7045)، و مسند احمد 2/87، 125) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2561) ، الصحيحة (2042)
9. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَحْلِفُ بِالْمَشْىِ وَلاَ يَسْتَطِيعُ
9. باب: پیدل چلنے کی قسم کھائے اور نہ چل سکے تو اس کے حکم کا بیان۔
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نذر مانی کہ وہ بیت اللہ تک (پیدل) چل کر جائے گی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس کے (پیدل) چلنے سے بے نیاز ہے، اسے حکم دو کہ وہ سوار ہو کر جائے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، عقبہ بن عامر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب عورت (حج کو پیدل) چل کر جانے کی نذر مان لے تو وہ سوار ہو جائے اور ایک بکری دم میں دے۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1536]
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بوڑھے کے قریب سے گزرے جو اپنے دو بیٹوں کے سہارے (حج کے لیے) چل رہا تھا، آپ نے پوچھا: کیا معاملہ ہے ان کا؟ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! انہوں نے (پیدل) چلنے کی نذر مانی ہے، آپ نے فرمایا: ”اللہ عزوجل اس کے اپنی جان کو عذاب دینے سے بے نیاز ہے“، پھر آپ نے اس کو سوار ہونے کا حکم دیا۔ اس سند سے بھی انس رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اور یہ صحیح حدیث ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1537]
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نذر مت مانو، اس لیے کہ نذر تقدیر کے سامنے کچھ کام نہیں آتی، صرف بخیل اور کنجوس کا مال اس طریقہ سے نکال لیا جاتا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، وہ لوگ نذر کو مکروہ سمجھتے ہیں، ۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: نذر کے اندر کراہیت کا مفہوم طاعت اور معصیت دونوں سے متعلق ہے، اگر کسی نے اطاعت کی نذر مانی اور اسے پورا کیا تو اسے اس نذر کے پورا کرنے کا اجر ملے گا، لیکن یہ نذر مکروہ ہو گی ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1538]
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات مسجد الحرام میں اعتکاف کروں گا، (تو اس کا حکم بتائیں؟) آپ نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کرو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا مسلک اسی حدیث کے موافق ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی اسلام لائے، اور اس کے اوپر جاہلیت کی نذر طاعت واجب ہو تو اسے پوری کرے، ۴- بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ بغیر روزے کے اعتکاف نہیں ہے اور دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ معتکف پر روزہ واجب نہیں ہے الا یہ کہ وہ خود اپنے اوپر (نذر مانتے وقت) روزہ واجب کر لے، ان لوگوں نے عمر رضی الله عنہ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے جاہلیت میں ایک رات کے اعتکاف کی نذر مانی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نذر پوری کرنے کا حکم دیا (اور روزے کا کوئی ذکر نہیں کیا)، احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1539]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھاتے تھے تو اکثر «لا ومقلب القلوب» کہتے تھے ”نہیں، دلوں کے بدلنے والے کی قسم“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1540]
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس نے ایک مومن غلام کو آزاد کیا، اللہ اس غلام کے ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کے ایک ایک عضو کو آگ سے آزاد کرے گا، یہاں تک کہ اس (غلام) کی شرمگاہ کے بدلے اس کی شرمگاہ کو آزاد کرے گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح، غریب ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، عمرو بن عبسہ، ابن عباس، واثلہ بن اسقع، ابوامامہ، عقبہ بن عامر اور کعب بن مرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1541]
سوید بن مقرن مزنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صورت حال یہ تھی کہ ہم سات بھائی تھے، ہمارے پاس ایک ہی خادمہ تھی، ہم میں سے کسی نے اس کو طمانچہ مار دیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم اس کو آزاد کر دیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے حصین بن عبدالرحمٰن سے کئی لوگوں نے روایت کیا ہے، بعض لوگوں نے اپنی روایت میں یہ ذکر کیا ہے کہ سوید بن مقرن مزنی نے «لطمها على وجهها» کہا یعنی ”اس نے اس کے چہرے پر طمانچہ مارا“۔ ۳- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1542]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الأیمان 8 (1658)، سنن ابی داود/ الأدب 133 (5166)، (تحفة الأشراف: 4811)، و مسند احمد (3/448)، و (5/444) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
15. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْحَلِفِ بِغَيْرِ مِلَّةِ الإِسْلاَمِ
15. باب: اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کے قسم کی کراہت کا بیان۔
ثابت بن ضحاک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم کھائی وہ ویسے ہی ہو گیا جیسے اس نے کہا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ جب کوئی اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی قسم کھائے اور یہ کہے: اگر اس نے ایسا ایسا کیا تو یہودی یا نصرانی ہو گا، پھر اس نے وہ کام کر لیا، تو بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس نے بہت بڑا گناہ کیا لیکن اس پر کفارہ واجب نہیں ہے، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، مالک بن انس بھی اسی کے قائل ہیں اور ابو عبید نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، ۳- اور صحابہ و تابعین وغیرہ میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس صورت میں اس پر کفارہ واجب ہے، سفیان، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1543]