ثابت بن ضحاک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم کھائی وہ ویسے ہی ہو گیا جیسے اس نے کہا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ جب کوئی اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی قسم کھائے اور یہ کہے: اگر اس نے ایسا ایسا کیا تو یہودی یا نصرانی ہو گا، پھر اس نے وہ کام کر لیا، تو بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس نے بہت بڑا گناہ کیا لیکن اس پر کفارہ واجب نہیں ہے، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، مالک بن انس بھی اسی کے قائل ہیں اور ابو عبید نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، ۳- اور صحابہ و تابعین وغیرہ میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس صورت میں اس پر کفارہ واجب ہے، سفیان، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1543]
من حلف على ملة غير الإسلام فهو كما قال ليس على ابن آدم نذر فيما لا يملك من قتل نفسه بشيء في الدنيا عذب به يوم القيامة من لعن مؤمنا فهو كقتله من قذف مؤمنا بكفر فهو كقتله
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3801
´اسلام کے سوا کسی دوسری ملت اور مذہب کی قسم کھانے کا بیان۔` ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کے سوا کسی اور ملت و مذہب کی جو کوئی جھوٹی قسم کھائے تو وہ ویسا ہی ہو گا جیسا اس نے کہا“، قتیبہ نے اپنی حدیث میں «متعمدا» کہا ہے (یعنی دوسری ملت کی جان بوجھ کر قسم کھائے) اور یزید نے «كاذبا» کہا ہے (جو دوسری ملت کی جھوٹی قسم کھائے گا) تو وہ ویسا ہی ہو گا جیسا اس نے کہا ۱؎ اور جو کوئی اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کر لے گا تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3801]
اردو حاشہ: (1) اس قسم کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کہے: اگر میں نے فلاں کام کیا ہو تو میں یہودی یا عیسائی وغیرہ ہوجاؤں‘ حالانکہ اس نے وہ کام کیا ہے اور اسے یاد بھی ہے۔ یا اگر میں یہ کام کروں تو میں یہودی یا عیسائی‘ جب کہ اس کی نیت ہو کام کرنے کی ہے‘ صرف دھوکا دہی کے لیے قسم کھاتا ہے۔ ظاہر ہے اس شخص نے یہودی یا عیسائی ہونے کے پسند کیا ہے۔ گویا وہ یہودی یا عیسائی ہی ہے۔ (2)”عذاب دیتا رہے گا“ یعنی اس کی موت سے لے کر حشر تک۔ اس کے بعد اس کے مجموعی اعمال کی بنیاد پر اس کے جنت یا جہنم میں جانے کا فیصلہ ہوگا۔ یہ اس کی قسمت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3801
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3802
´اسلام کے سوا کسی دوسری ملت اور مذہب کی قسم کھانے کا بیان۔` ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اسلام کے سوا کسی ملت و مذہب کی جھوٹی قسم کھائی تو وہ ویسا ہی ہے، جیسا اس نے کہا، اور جس نے خود کو کسی چیز سے مار ڈالا (خودکشی کر لی) تو اسے آخرت میں اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا۔“[سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3802]
اردو حاشہ: انسان کا نفس اس کی ملکیت نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ اس میں ایسا تصرف جائز نہیں جو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے خلاف ہو جیسا کہ اپنے آپ کو قتل کرنا یا بھوکا پیاسا رکھنا وغیرہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3802
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3844
´قبضے اور ملکیت سے باہر چیزوں کی نذر ماننے کا بیان۔` ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی دین اسلام کے سوا کسی دوسری ملت کی جھوٹی قسم کھائے گا تو وہ اسی طرح ہو گا جیسے اس نے کہا، اور جس نے اپنے آپ کو دنیا میں کسی چیز سے قتل کیا تو اسے قیامت کے دن اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا، اور آدمی پر اس چیز کی نذر نہیں جس کا وہ مالک نہ ہو۔“[سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3844]
اردو حاشہ: تفصیل کے لیے ح نمبر 3801 دیکھیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3844
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2098
´اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب میں جانے کی قسم کھانے کا بیان۔` ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اسلام کے سوا کسی اور دین میں چلے جانے کی جھوٹی قسم جان بوجھ کر کھائی، تو وہ ویسے ہی ہو گا جیسا اس نے کہا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2098]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) دوسرے مذہب کی قسم کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کہا: ”اگر میں نے فلاں کام کیا ہو تو میں یہودی ہوں“ یا کہا: ”اگر میں جھوٹ کہوں تو کافر ہو جاؤں۔“ اس انداز کی قسم سے پرہیز کرنا چاہیے۔
(2) حافظ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ اس کی بابت یوں لکھتے ہیں کہ اگر قسم کھاتے وقت اس کا ارادہ بھی یہی تھا کہ اگر اس نے یہ کام کیا تو وہ کفر کا راستہ اختیار کر لے گا تو وہ فی الفور کافر ہو جائے گا اور اگر اس کا مقصد دین اسلام پر استقامت کا اظہار تھا اور اس کا عزم تھا کہ وہ کبھی کفر کا راستہ اختیار نہیں کرے گا تو وہ کافر تو نہیں ہو گا لیکن اس کے لیے اس نے جو طریقہ اختیار کیا، وہ غلط تھا اس لیے اسے توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے بلکہ بہتر ہے کہ دوبارہ کلمہ شہادت پڑھ کر تجدید اسلام کر لے۔ دیکھیے: (ریاض الصالحین (اردو) جلد دوم، حدیث: 1710 کے فوائد مطبوعہ دارالسلام)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2098
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 302
حضرت ثابت بن ضحاک ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے درخت کے نیچے رسول اللہ ﷺ سے بیعت رضوان کی آپؐ نے فرمایا: ”جس شخص نے اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب پر ہونے کی جھوٹی قسم اٹھائی تو وہ ویسا ہی ہو گا۔ اور جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کیا اسے اسی چیز کے ذریعہ قیامت کے دن عذاب ہو گا۔ اور جو شخص کسی چیز کا مالک نہیں ہے اس کے بارے میں نذر پوری کرنا اس کے لیے لازم نہیں ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:302]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) اسلام کے سوا کسی مذہب کی قسم اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے فلاں کام کیا ہو تو میں یہودی یا نصرانی ہوں حالانکہ وہ کام کر چکا ہے جس کا معنی ہے، اس نے اسلام کو اپنے مفاد کی خاطر تج دیا اور اسلام کو دنیوی فائدہ پر قربان کر دیا، اسی طرح دنیا کو آخرت پر ترجیح دی ہے۔ اگر اس نے یہ کام شعوری طور پر کیا ہے تو ہو واقعی غیر اسلام پر ہوگا، اور اگر اس نے اپنے جھوٹ کو یا غلط کام کو چھپانے کےلیے زور وتاکید پیدا کرنے کی خاطر یہ حرکت کی ہے۔ گویہ کام اتنا سنگین ہے، کہ دین سے نکل گیا ہو، کیونکہ اس نے جھوٹی قسم کو ہلکا خیال کیا ہے اور اللہ کی توقیر وتعظیم کے منافی حرکت کی ہے جو کفر کا باعث بن سکتی ہے۔ (2) نذر اس چیز کے بارے میں ماننی چاہیے، جو انسان کے بس میں ہے یا اس کی ملکیت میں ہے، وگرنہ یہ نذر لغو اور بے کار ہوگی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 302
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6047
6047. حضرت ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت ہے۔۔۔۔ اور یہ اصحاب شجرہ سے تھے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ملت اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی قسم اٹھائی تو وہ اپنے کہنے کے مطابق بن جاتا ہے۔ ابن آدم کا ایسی چیز کے متعلق نذر ماننا صحیح نہیں جس کا وہ مالک نہیں۔ جس نے دنیا میں خود کو کسی چیز کے ساتھ قتل کیا تو قیامت کے دن اسی کے ساتھ اسے سزا دی جائے گی۔ جس نے کسی مومن پر لعنت کی تو یہ اس کو قتل کرنے کے مترادف ہے اور جس نے کسی مسلمان کو کفر سے مہتم کیا تو اس کو مار ڈالنے کی طرح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6047]
حدیث حاشیہ: حضرت ثابت بن ضحاک ان بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے صلح حدیبیہ کے موقع پر ایک درخت کے نیچے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر جہاد کی بیعت کی تھی جس کا ذکر سورۃ فتح میں ہے کہ اللہ ان مومنوں سے راضی ہو گیا جو درخت کے نیچے برضا ورغبت جہاد کی بیعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر کر رہے تھے حدیث کا مضمون ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6047
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6105
6105. حضرت ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: ”جس نے اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم اٹھائی تو وہ ایسا ہی ہو جاتا ہے جیسا اس نے کہا ہے۔ اور جس نے کسی چیز سے اپنے آپ کو قتل کر لیا تو اسے جہنم میں اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا۔ اور مومن پر لعنت بھیجنا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اور جس نے کسی مومن پر کفر تہمت لگائی تو یہ اس کے قتل کے برابر ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6105]
حدیث حاشیہ: کسی مذہب پر قسم کھانا مثلاً یوں کہا کہ اگر میں نے یہ کام کیا تو میں یہودی یا نصرانی وغیرہ وغیرہ ہو جاؤں یہ بہت بری قسم ہے۔ أعاذنااللہ منه۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6105
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6047
6047. حضرت ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت ہے۔۔۔۔ اور یہ اصحاب شجرہ سے تھے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ملت اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی قسم اٹھائی تو وہ اپنے کہنے کے مطابق بن جاتا ہے۔ ابن آدم کا ایسی چیز کے متعلق نذر ماننا صحیح نہیں جس کا وہ مالک نہیں۔ جس نے دنیا میں خود کو کسی چیز کے ساتھ قتل کیا تو قیامت کے دن اسی کے ساتھ اسے سزا دی جائے گی۔ جس نے کسی مومن پر لعنت کی تو یہ اس کو قتل کرنے کے مترادف ہے اور جس نے کسی مسلمان کو کفر سے مہتم کیا تو اس کو مار ڈالنے کی طرح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6047]
حدیث حاشیہ: (1) ملت اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی قسم اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے فلاں کام کیا تو میں یہودی یا نصرانی ہوں، ایسی صورت میں وہ وہی ہوگا جو اس نے کہا۔ (2) اس حدیث میں پانچ احکام بیان ہوئے ہیں جن کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے، سردست عنوان کا اعتبار کرتے ہوئے یہ بیان کرتے ہیں کہ مومن پر لعنت کرنا بہت بڑا جرم ہے، گویا اسے قتل کرنا ہے کیونکہ لعنت کے معنی اللہ کی رحمت سے دور کرنا ہیں، اس طرح اسے لعنت کر کے وہ اس سے آخرت کے منافع ختم کرنا چاہتا ہے۔ حدیث میں ہے: ”بندہ جب کسی پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے، اس کے آگے آسمان کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، پھروہ زمین کی طرف اترتی ہے تو اس کے آگے زمین کے دروازے بھی بند کر دیے جاتے ہیں، پھر وہ دائیں اور بائیں جاتی ہے، اگر اسے کہیں جگہ نہ ملے تو جس پر لعنت کی گئی ہو اس پر واقع ہو جاتی ہے، بشرطیکہ وہ اس کا حق دار ہو بصورت دیگر وہ لعنت، کہنے والے پر لوٹ جاتی ہے۔ “(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4905)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6047
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6105
6105. حضرت ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: ”جس نے اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم اٹھائی تو وہ ایسا ہی ہو جاتا ہے جیسا اس نے کہا ہے۔ اور جس نے کسی چیز سے اپنے آپ کو قتل کر لیا تو اسے جہنم میں اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا۔ اور مومن پر لعنت بھیجنا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اور جس نے کسی مومن پر کفر تہمت لگائی تو یہ اس کے قتل کے برابر ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6105]
حدیث حاشیہ: (1) اسلام کے سوا کسی مذہب و ملت کی قسم یہ ہے کہ وہ یوں کہے: اگر میں نے ایسا کیا تو میں یہودی یا عیسائی ہوا۔ اگر وہ اس قسم میں جھوٹا ہے تو بھی یہودی یا عیسائی ہو جائے گا کیونکہ ایسا کرنا یہودیت یا نصرانیت کی تعظیم ہے اور اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی تعظیم کرنا کفر ہے۔ (2) اس حدیث کا دوسرا جملہ کہ مومن پر لعنت کرنا اسے قتل کرنے کی طرح ہے کیونکہ لعنت کے معنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کرنا ہے اور کسی کو قتل کرنا بھی دنیاوی زندگی سے دور کرنے کا باعث ہے۔ (3) آخری جملہ یہ ہے کہ مسلمان کو کفر کی طرف منسوب کرنا اسے قتل کرنے کی مانند ہے۔ اس تشبیہ کی وجہ یہ ہے کہ کفر، قتل کا موجب ہے گویا کفر کی طرف نسبت کرنے والے نے قتل کے سبب کی طرف نسبت کی گویا اسے قتل کر دیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی کی طرف کفر کی نسبت معقول تاویل کی وجہ سے ہے تو وہ قتل کے مانند نہیں ہو گا، یعنی وہ اس وعید کا سزاوار نہیں ہو گا جو حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6105
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6652
6652. حضرت ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے اسلام کے علاوہ کسی دوسرے کی قسم کھائی تو وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے کہا۔ اور جس نے کسی چیز کو قتل کیا اسے دوزخ کی آگ میں اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا۔ اور مومن پر لعنت کرنا قتل کے مترداف ہے اور جس نے کسی مومن پر کفر کا الزام لگایا وہ بھی قتل کے برابر ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6652]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس نے دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی قسم اٹھائی، مثلاً: اگر میں نے یہ کام کیا تو میں یہودی بن جاؤں یا عیسائی ہو جاؤں، اس طرح کہنے والے کا اسلام خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ یہودی ہو جائے جیسا کہ اس نے کہا ہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے مراد زجر و تہدید اور وعید معلوم ہوتی ہے، گویا وہ یہودیوں جیسے عذاب کا حق دار ہو جاتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قسم اٹھائی اور کہا کہ میں اسلام سے بے زار ہوں، اگر جھوٹا ہے تو واقعی اسلام سے بے زار ہو گا جیسا کہ اس نے کہا ہے اور اگر وہ سچا ہے تو پھر بھی اسلام کی طرف صحیح سالم نہیں لوٹ سکے گا۔ “(سنن أبي داود، الأیمان والنذور، حدیث: 3258) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے: ”جس نے جان بوجھ کر ملت اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کی جھوٹی قسم اٹھائی وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے کہا۔ “(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1363)(3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ کسی چیز کو شرط کے ساتھ معلق کرنا بھی قسم ہوتا ہے کیونکہ اس سے بھی کسی چیز کے کرنے یا نہ کرنے کا عہد ہوتا ہے اور قسم میں یہی مقصود ہے۔ جمہور کا موقف ہے کہ ایسے آدمی کو توبہ و استغفار کرنا چاہیے، نیز اس کے ذمے کوئی کفارہ وغیرہ نہیں ہے لیکن اس میں کچھ تفصیل ہے کہ اگر وہ اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کی تعظیم کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ بلاشبہ دین اسلام سے خارج ہو گا اور اگر تعظیم مقصود نہیں بلکہ تعلیق ہی پیش نظر ہے تو اگر دوسرا دین اپنانے کا ارادہ ہے تو کافر ہو جائے گا کیونکہ کفر کا ارادہ بھی کفر ہے اور اگر وہ اس سے دور رہنا چاہتا ہے تو کافر نہیں ہو گا۔ (4) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے آدمی کو دین سے خارج خیال نہیں کرنا چاہیے۔ (فتح الباري: 656/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6652