انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا جس نے شراب پی تھی، آپ نے اسے کھجور کی دو چھڑیوں سے چالیس کے قریب مارا، ابوبکر رضی الله عنہ نے بھی (اپنے دور خلافت میں) ایسا ہی کیا، پھر جب عمر رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اس سلسلے میں لوگوں سے مشورہ کیا، چنانچہ عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: حدوں میں سب سے ہلکی حد اسی کوڑے ہیں، چنانچہ عمر نے اسی کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ میں سے اہل علم اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ شرابی کی حد اسی کوڑے ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1443]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الحدود 2 (6771)، (بدون قصة الاستشارة)، صحیح مسلم/الحدود 8 (1706) سنن ابی داود/ الحدود 36 (4479)، سنن ابن ماجہ/الحدود 16 (2570)، (تحفة الأشراف: 1254)، و مسند احمد (3/115، 180، 247، 272- 273)، سنن الدارمی/الحدود 9 (2357) (صحیح)»
معاویہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شراب پئیے اسے کوڑے لگاؤ، پھر اگر چوتھی بار پئے تو اسے قتل کر دو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- معاویہ رضی الله عنہ کی حدیث کو اسی طرح ثوری نے بطریق: «عاصم عن أبي صالح عن معاوية عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، اور ابن جریج اور معمر نے بطریق: «سهيل بن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ابوصالح کی حدیث جو بواسطہ معاویہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں آئی ہے، یہ ابوصالح کی اس حدیث سے جو بواسطہ ابوہریرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے زیادہ صحیح ہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ، شرید، شرحبیل بن اوس، جریر، ابورمد بلوی اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا ۱؎ پھر اس کے بعد منسوخ ہو گیا، اسی طرح محمد بن اسحاق نے ” «محمد بن المنكدر عن جابر بن عبد الله» کے طریق سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”جو شراب پئیے اسے کوڑے لگاؤ، پھر اگر چوتھی بار پئیے تو اسے قتل کر دو“، پھر اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا جس نے چوتھی بار شراب پی تھی، تو آپ نے اسے کوڑے لگائے اور قتل نہیں کیا، اسی طرح زہری نے قبیصہ بن ذویب سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ۵- چنانچہ قتل کا حکم منسوخ ہو گیا، پہلے اس کی رخصت تھی، عام اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، میرے علم میں اس مسئلہ میں ان کے درمیان نہ پہلے اختلاف تھا نہ اب اختلاف ہے، اور اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بےشمار سندوں سے آئی ہے کہ آپ نے فرمایا: جو مسلمان شہادت دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو اس کا خون تین میں سے کسی ایک چیز کی بنا پر ہی حلال ہو سکتا ہے: ناحق کسی کا قاتل ہو، شادی شدہ زانی ہو، یا اپنا دین (اسلام) چھوڑنے والا (مرتد) ہو“۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1444]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الحدود 37 (4482)، سنن ابن ماجہ/الحدود 17 (2573)، (تحفة الأشراف: 11412)، و مسند احمد (4/97) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2572 - 2573)
16. باب مَا جَاءَ فِي كَمْ تُقْطَعُ يَدُ السَّارِقِ
16. باب: کتنے مال کی چوری میں چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چوتھائی دینار ۱؎ اور اس سے زیادہ کی چوری پر ہاتھ کاٹتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث دوسری سندوں سے عمرہ کے واسطہ سے عائشہ رضی الله عنہا سے مرفوعاً آئی ہے، جب کہ بعض لوگوں نے اسے عمرہ کے واسطہ سے عائشہ رضی الله عنہا سے موقوفاً روایت کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1445]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم ۱؎ تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سعد، عبداللہ بن عمرو، ابن عباس، ابوہریرہ اور ایمن رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان میں ابوبکر رضی الله عنہ بھی شامل ہیں، انہوں نے پانچ درہم کی چوری پر ہاتھ کاٹا، ۴- عثمان اور علی رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ ان لوگوں نے چوتھائی دینار کی چوری پر ہاتھ کاٹا، ۵- ابوہریرہ اور ابو سعید خدری رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ پانچ درہم کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا، ۶- بعض فقہائے تابعین کا اسی پر عمل ہے، مالک بن انس، شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں: چوتھائی دینار اور اس سے زیادہ کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا، ۷- اور ابن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دینار یا دس درہم کی چوری پر ہی ہاتھ کاٹا جائے گا، لیکن یہ مرسل (یعنی منقطع) حدیث ہے اسے قاسم بن عبدالرحمٰن نے ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے، حالانکہ قاسم نے ابن مسعود سے نہیں سنا ہے، بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، چنانچہ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں: دس درہم سے کم کی چوری پر ہاتھ نہ کاٹا جائے، ۸- علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ دس درہم سے کم کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، لیکن اس کی سند متصل نہیں ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1446]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الحدود 13 (6795)، صحیح مسلم/الحدود 1 (1686)، سنن ابی داود/ الحدود 11 (4385)، سنن النسائی/قطع السارق 8 (4912)، سنن ابن ماجہ/الحدود 22 (2584)، التحفة: 8278)، موطا امام مالک/الحدود 7 (21)، و مسند احمد (2/6، 54، 64، 80، 143)، سنن الدارمی/الحدود 4 (2347) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2584)
17. باب مَا جَاءَ فِي تَعْلِيقِ يَدِ السَّارِقِ
17. باب: چور کا ہاتھ (کاٹنے کے بعد) گردن میں لٹکانے کا بیان۔
عبدالرحمٰن بن محیریز کہتے ہیں کہ میں نے فضالہ بن عبید سے پوچھا: کیا چور کا ہاتھ کاٹنے کے بعد اس کی گردن میں لٹکانا سنت ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا اس کا ہاتھ کاٹا گیا، پھر آپ نے حکم دیا ہاتھ اس کی گردن میں لٹکا دیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف عمر بن علی مقدمی ہی کی روایت سے جانتے ہیں، انہوں نے اسے حجاج بن ارطاۃ سے روایت کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1447]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الحدود 21 (4411)، سنن النسائی/قطع السارق 19 (4985)، سنن ابن ماجہ/الحدود 23 (2587)، (تحفة الأشراف: 11029)، و مسند احمد (6/19) (ضعیف) (سند میں ”حجاج بن ارطاة“ ضعیف، اور ”عبدالرحمن بن محیریز“ مجہول ہیں) دیکھئے: الإرواء: 2432)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2587) ، المشكاة (3605 / التحقيق الثاني)
18. باب مَا جَاءَ فِي الْخَائِنِ وَالْمُخْتَلِسِ وَالْمُنْتَهِبِ
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیانت کرنے والے، ڈاکو اور اچکے کی سزا ہاتھ کاٹنا نہیں ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- مغیرہ بن مسلم نے ابن جریج کی حدیث کی طرح اسے ابوزبیر سے، ابوزبیر نے جابر رضی الله عنہ سے اور جابر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1448]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الحدود 13 (4391)، سنن النسائی/قطع السارق 14 (4974)، سنن ابن ماجہ/الحدود 26 (2591)، (تحفة الأشراف: 2800)، و مسند احمد (3/380)، سنن الدارمی/الحدود 8 (2356) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2589)
19. باب مَا جَاءَ لاَ قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلاَ كَثَرٍ
19. باب: پھل اور کھجور کے گابھے کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹے جانے کا بیان۔
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”پھل اور کھجور کے گابھے کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اسی طرح بعض اور لوگوں نے بھی لیث بن سعد کی روایت کی طرح بطریق: «يحيى بن سعيد عن محمد بن يحيى بن حبان عن عمه واسع بن حبان عن رافع بن خديج عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، ۲- مالک بن انس اور کئی لوگوں نے اس حدیث کو بطریق: «يحيى بن سعيد عن محمد بن يحيى بن حبان عن رافع بن خديج عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، ان لوگوں نے اس حدیث کی سند میں واسع بن حبان کا ذکر نہیں کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1449]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الحدود 12 (4388)، سنن النسائی/قطع السارق 14 (4992)، سنن ابن ماجہ/الحدود 27 (2593)، (تحفة الأشراف: 3588)، وط/الحدود 11 (32)، و مسند احمد (3/463، 464) و (5/140، 142)، سنن الدارمی/الحدود 7 (2350) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2593)
20. باب مَا جَاءَ أَنْ لاَ تُقْطَعَ الأَيْدِي فِي الْغَزْوِ
20. باب: دوران جنگ چور کے ہاتھ نہ کاٹے جانے کا بیان۔
بسر بن ارطاۃ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جنگ کے دوران (چوری کرنے والے کا) ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ابن لہیعہ کے علاوہ کچھ دوسرے لوگوں نے بھی اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، انہیں میں اوزاعی بھی ہیں، یہ لوگ کہتے ہیں: دشمن کی موجودگی میں جہاد کے دوران (چوری کرنے پر) حد قائم نہیں کی جائے گی، کیونکہ جس پر حد قائم کی جائے گی اندیشہ ہے کہ وہ دشمن سے مل جائے، البتہ امام جب دارالحرب سے نکل کر دارالاسلام واپس آ جائے تو چوری کرنے والے پر حد قائم کرے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1450]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الحدود 18 (4408)، سنن النسائی/قطع السارق 17 (4982)، (تحفة الأشراف: 2015)، و مسند احمد (4/181) (صحیح) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے جس کا ذکر مؤلف نے کیا ہے، ورنہ اس کے راوی ”ابن لھیعہ“ ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3601)
21. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَقَعُ عَلَى جَارِيَةِ امْرَأَتِهِ
21. باب: بیوی کی لونڈی کے ساتھ زنا کرنے والے کے حکم کا بیان۔
حبیب بن سالم کہتے ہیں کہ نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کے پاس ایک ایسے شخص کا مقدمہ پیش ہوا جس نے اپنی بیوی کی لونڈی کے ساتھ زنا کیا تھا، انہوں نے کہا: میں اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کروں گا: اگر اس کی بیوی نے اسے لونڈی کے ساتھ جماع کی اجازت دی ہے تو (بطور تادیب) اسے سو کوڑے ماروں گا اور اگر اس نے اجازت نہیں دی ہے تو (بطور حد) اسے رجم کروں گا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1451]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الحدود 28 (4458)، سنن النسائی/النکاح 70 (3362)، سنن ابن ماجہ/الحدود (2551)، (تحفة الأشراف: 11613)، و مسند احمد (6/272، 276، 276، 277)، سنن الدارمی/الحدود 20 (2374) (ضعیف) (سند میں ”حبیب بن سالم“ میں بہت کلام ہے، نیز بقول خطابی ان کا سماع نعمان رضی الله عنہ سے نہیں ہے)»
اس سند سے بھی نعمان بن بشیر سے اسی جیسی حدیث آئی ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا: حبیب بن سالم کے پاس یہ مسئلہ لکھ کر بھیجا گیا ۱؎۔ ابوبشر نے بھی یہ حدیث حبیب بن سالم سے نہیں سنی، انہوں نے اسے خالد بن عرفطہٰ سے روایت کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- نعمان کی حدیث کی سند میں اضطراب ہے میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ قتادہ نے اس حدیث کو حبیب بن سالم سے نہیں سنا ہے، انہوں نے اسے خالد بن عرفطہٰ سے روایت کیا ہے، ۲- اس باب میں سلمہ بن محبق سے بھی روایت ہے، ۳- بیوی کی لونڈی کے ساتھ زنا کرنے والے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ سے مروی ہے جن میں علی اور ابن عمر بھی شامل ہیں کہ اس پر رجم واجب ہے، ابن مسعود کہتے ہیں: اس پر کوئی حد نہیں ہے، البتہ اس کی تادیبی سزا ہو گی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا مسلک اس (حدیث) کے مطابق ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بواسطہ نعمان بن بشیر آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1452]