عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اپنا کتا چھوڑتا، اور شکار کو پا لیتا ہوں، میں پھر کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس سے میں ذبح کروں تو کیا میں دھاردار پتھر اور لکڑی سے ذبح کر سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”جس چیز سے چاہو خون بہاؤ اور اس پر اللہ کا نام لو“۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4406]
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص کی ایک اونٹنی تھی، جو احد پہاڑ کی طرف چرتی تھی، اسے عارضہ لاحق ہو گیا، تو اس نے اسے کھونٹی سے ذبح کر دیا۔ میں نے زید بن اسلم سے کہا: لکڑی کی کھونٹی یا لوہے کی؟ کہا: لوہا نہیں، بلکہ لکڑی کی کھونٹی سے، پھر اس انصاری نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے پوچھا تو آپ نے اسے کھانے کا حکم دیا۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4407]
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس چیز سے (جانور کا) خون بہہ جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ، سوائے اس کے جو دانت اور ناخن سے ذبح کیا گیا ہو“۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4408]
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کل دشمنوں سے ملیں گے اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں، تو آپ نے فرمایا: ”جس چیز سے (جانور کا) خون بہہ جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو) تو اسے کھاؤ، جب تک کہ وہ آلہ دانت یا ناخن نہ ہو، اور جلد ہی تمہیں اس سلسلے میں بتاؤں گا، رہا دانت تو وہ ہڈی ہے اور رہا ناخن تو وہ حبشہ والوں کی چھری ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4409]
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو باتیں یاد کی ہیں، آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تم پر ہر چیز میں احسان (اچھا سلوک کرنا) فرض کیا ہے، تو جب تم قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو، اور جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، اور تم میں سے ہر ایک کو چاہیئے کہ اپنی چھری تیز کر لے اور اپنے جانور کو آرام پہنچائے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4410]
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک گھوڑا ذبح کیا پھر ہم نے اسے کھایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4411]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصید 24(5510)، 27(5519)، صحیح مسلم/الصید6(1942)، سنن ابن ماجہ/الذبائح12(3190)، (تحفة الأشراف: 15746)، مسند احمد (6/345، 346، 353)، سنن الدارمی/الأضاحی22 (2035)، ویأتی عند المؤلف بأرقام: 4425، 4426 (صحیح)»
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بھیڑیئے نے ایک بکری میں دانت گاڑ دئیے، لوگوں نے اسے دھاردار پتھر سے ذبح کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے کی اجازت دی۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4412]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم: 4405 (صحیح) (اس کے راوی ”حاضر بن مہاجر“ لین الحدیث ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»
ابو العشراء کے والد (مالک دارمی رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ذبح «ذکاۃ» صرف حلق اور سینے میں ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تم اس کی ران میں بھی کونچ دو تو کافی ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4413]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأضاحی16(2825)، سنن الترمذی/الصید13(1481)، سنن ابن ماجہ/الذبائح9(3813)، (تحفة الأشراف: 15694)، مسند احمد (4/334)، سنن الدارمی/الأضاحی12 (2015) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ابوالعشراء“ مجہول ہیں، لیکن حدیث نمبر 4302 سے اس کے معنی کی تائید ہو رہی ہے)»
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کل دشمن سے ملیں گے اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں، آپ نے فرمایا: ”دانت اور ناخن کے علاوہ جس کسی آلہ سے (جانور کا) خون بہہ جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ اونٹ اور غنیمت کا مال ملا، ان میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ گیا، ایک شخص نے اسے تیر مارا، جس سے وہ رک گیا، آپ نے فرمایا: ”ان جانوروں میں، یا یوں فرمایا: ان اونٹوں میں، جنگل کے وحشی جانوروں کی طرح بعض بدکنے والے ہوتے ہیں تو جو تم کو ان میں سے کوئی (پکڑنے میں) تھکا دے، تو اس کے ساتھ اسی طرح کرو“۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4414]
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ کل دشمن سے ملیں گے، اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں، آپ نے فرمایا: ”جس آلہ سے خون بہہ جائے اور وہ دانت ناخن نہ ہو اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ، اور جلد ہی میں تمہیں اس کا سبب بتاتا ہوں، رہا دانت تو وہ ہڈی ہے اور رہا ناخن تو وہ حبشہ والوں کی چھری ہے“، پھر مال غنیمت میں ہمیں کچھ بکریاں یا اونٹ ملے، ان میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ گیا، ایک شخص نے ایک تیر اسے مارا جس سے وہ رک گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان اونٹوں میں کچھ جنگلی وحشیوں کی طرح بدکنے والے ہیں، لہٰذا جب تم کو ان میں سے کوئی تھکا دے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کرو“۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4415]