ابو العشراء کے والد (مالک دارمی رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ذبح «ذکاۃ» صرف حلق اور سینے میں ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تم اس کی ران میں بھی کونچ دو تو کافی ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4413]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأضاحی16(2825)، سنن الترمذی/الصید13(1481)، سنن ابن ماجہ/الذبائح9(3813)، (تحفة الأشراف: 15694)، مسند احمد (4/334)، سنن الدارمی/الأضاحی12 (2015) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ابوالعشراء“ مجہول ہیں، لیکن حدیث نمبر 4302 سے اس کے معنی کی تائید ہو رہی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (2825) ترمذي (1481) ابن ماجه (3184) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 354
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4413
اردو حاشہ: اصل تو یہی ہے کہ حلق میں ذبح کیا جائے اور سینے کے گڑھے میں نحر کیا جائے کیونکہ اس طریقے سے خون تیزی سے نکل جائے گا۔ یہاں بڑی رگیں ہوتی ہیں۔ مگر کبھی مجبوری بن جاتی ہے جیسا کہ باب میں بیان کی گئی ہے تو جہاں بھی زخم لگایا جا سکے، لگا دیا جائے تا کہ خون نکل جائے۔ یہ جائز ہے مگر یہ مجبوری کے وقت ہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4413
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2825
´اوپر سے نیچے گر جانے والے جانور کے ذبح کرنے کا طریقہ۔` ابوالعشراء اسامہ کے والد مالک بن قہطم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ذبح سینے اور حلق ہی میں ہوتا ہے اور کہیں نہیں ہوتا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس کے ران میں نیزہ مار دو تو وہ بھی کافی ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ «متردی»۱؎ اور «متوحش»۲؎ کے ذبح کا طریقہ ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2825]
فوائد ومسائل: روایت سندا اگرچہ ضعیف ہے۔ تاہم اضطراری کیفیت میں جب ذبح کی مہلت نہ ملے۔ اور کہیں سے بھی خون بہہ جائے۔ تو وہ ذبح کے معنی میں ہوگا۔ جیسے کہ شکار میں ہوتا ہے
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2825
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1481
´حلق اور لبہ (سینے کے اوپری حصہ) میں ذبح کرنے کا بیان۔` ابوالعشراء کے والد اسامہ بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ذبح (شرعی) صرف حلق اور لبہ ہی میں ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”اگر اس کی ران میں بھی تیر مار دو تو کافی ہو گا“، یزید بن ہارون کہتے ہیں: یہ حکم ضرورت کے ساتھ خاص ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1481]
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں ”ابوالعشراء“ مجہول ہیں، ان کے والد بھی مجہو ل ہیں مگر صحابی ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1481