ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ بتائیے اگر میں اللہ کے راستے میں ثواب کی نیت رکھتے ہوئے جنگ کروں، اور جم کر لڑوں، آگے بڑھتا رہوں پیٹھ دکھا کر نہ بھاگوں، تو کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہ مٹا دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، پھر ایک لمحہ خاموشی کے بعد آپ نے پوچھا: ”سائل اب کہاں ہے“؟ وہ آدمی بولا: ہاں (جی) میں حاضر ہوں، (یا رسول اللہ!) آپ نے فرمایا: ”تم نے کیا کہا تھا؟“ اس نے کہا: آپ بتائیں اگر میں اللہ کے راستے میں جم کر اجر و ثواب کی نیت سے آگے بڑھتے ہوئے، پیٹھ نہ دکھاتے ہوئے لڑتا ہوا مارا جاؤں تو کیا اللہ میرے گناہ بخش دے گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں (بخش دے گا) سوائے قرض کے، جبرائیل علیہ السلام نے آ کر ابھی ابھی مجھے چپکے سے یہی بتایا ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3157]
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! آپ بتائیے اس بارے میں کہ میں اللہ کے راستے میں قتل کر دیا جاؤں، اور حال یہ ہو کہ میں نے ثواب کی نیت سے جم کر جنگ لڑی ہو، آگے بڑھتے ہوئے نہ کہ پیٹھ دکھاتے ہوئے، تو کیا اللہ میرے گناہوں کو معاف کر دے گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ پھر جب وہ پیٹھ موڑ کر چلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دے کر اسے بلایا۔ (راوی کو شبہ ہو گیا بلایا) یا آپ نے اسے بلانے کے لیے کسی کو حکم دیا۔ تو اسے بلایا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس سے) کہا: ”تم نے کیسے کہا تھا“؟ تو اس نے آپ کے سامنے اپنی بات دہرا دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، سوائے قرض کے سب معاف کر دے گا، جبرائیل علیہ السلام نے مجھے ایسا ہی بتایا ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3158]
ابوقتادہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے لوگوں کو (ایک دن) خطاب فرمایا: ”اور انہیں بتایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد اور اللہ پر ایمان سب سے بہتر اعمال میں سے ہیں“، (یہ سن کر) ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے، اگر میں اللہ کے راستے میں قتل کر دیا جاؤں تو کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو بخش دے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اگر تم اللہ کے راستے میں قتل کر دیئے گئے، اور تم نے لڑائی ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے ثواب کی نیت سے لڑی ہے پیٹھ دکھا کر بھاگے نہیں ہو تو قرض (حقوق العباد) کے سوا سب کچھ معاف ہو جائے گا۔ کیونکہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھے ایسا ہی بتایا ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3159]
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس وقت آپ منبر پر (کھڑے خطاب فرما رہے) تھے، اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ بتائیے اگر میں اپنی تلوار اللہ کے راستے میں چلاؤں، ثابت قدمی کے ساتھ، بہ نیت ثواب، سینہ سپر رہوں پیچھے نہ ہٹوں یہاں تک کہ قتل کر دیا جاؤں تو کیا اللہ تعالیٰ میرے سبھی گناہوں کو مٹا دے گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“، پھر جب وہ جانے کے لیے مڑا، آپ نے اسے بلایا اور کہا: ”یہ جبرائیل ہیں، کہتے ہیں: مگر یہ کہ تم پر قرض ہو“(تو قرض معاف نہیں ہو گا)۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3160]
عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”شہید کے سوا دنیا میں کوئی بھی فرد ایسا نہیں ہے جسے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے یہاں خیر ملا ہوا ہو (اچھا مقام و مرتبہ حاصل ہو) پھر وہ لوٹ کر تم میں آنے کے لیے تیار ہو اگرچہ اسے پوری دنیا مل رہی ہو۔ (صرف شہید ہے) جو لوٹ کر دنیا میں آنا اور دوبارہ قتل ہو کر اللہ تعالیٰ کے پاس جانا پسند کرتا ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3161]
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت والوں میں سے ایک شخص اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا، اللہ اس سے کہے گا: آدم کے بیٹے! تم نے اپنا ٹھکانہ کیسا پایا؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے تو بہترین ٹھکانہ ملا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا تمہاری کوئی طلب اور کوئی تمنا ہو تو مانگو اور ظاہر کرو۔ وہ کہے گا: میری تجھ سے یہی تمنا و طلب ہے کہ تو مجھے دنیا میں دسیوں بار بھیج تاکہ (میں جاؤں) پھر تیری راہ میں مارا جاؤں۔ اس کی یہ تمنا شہادت کی فضیلت دیکھنے کی وجہ سے ہو گی“۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3162]
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شہید کو قتل کے وار سے بس اتنی ہی تکلیف محسوس ہوتی ہے جتنی تم میں سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے محسوس ہوتی ہے (پھر اس کے بعد تو آرام ہی آرام ہے)“۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3163]
سہل بن حنیف رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص سچے دل سے شہادت کی طلب کرے تو وہ چاہے اپنے بستر پر ہی کیوں نہ مرے اللہ تعالیٰ اسے شہیدوں کے مقام پر پہنچا دے گا“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3164]
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ حالتیں ہیں ان میں سے کسی بھی ایک حالت پر مرنے والا شہید ہو گا، اللہ کے راستے (جہاد) میں نکلا اور قتل ہو گیا تو وہ شہید ہے، جہاد میں نکلا اور ڈوب کر مر گیا تو وہ شہید ہے، جہاد میں نکلا اور دست میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو گیا تو وہ بھی شہید ہے، جہاد میں نکلا اور طاعون میں مبتلا ہو کر مر گیا وہ بھی شہید ہے، عورت (شوہر کے ساتھ جہاد میں نکلی ہے) حالت نفاس میں مر گئی تو وہ بھی شہید ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3165]
عرباض بن ساریہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طاعون میں مرنے والوں کے بارے میں شہدا اور اپنے بستروں پر مرنے والے اللہ کے حضور اپنا جھگڑا (مقدمہ) پیش کریں گے، شہید لوگ کہیں گے: یہ ہمارے بھائی ہیں، جیسے ہم مارے گئے ہیں یہ لوگ بھی مارے گئے ہیں، اور جو لوگ اپنے بستروں پر وفات پائے ہیں وہ کہیں گے یہ ہمارے بھائی ہیں یہ لوگ اپنے بستروں پر مرے ہیں جیسے ہم لوگ اپنے بستروں پر پڑے پڑے مرے ہیں۔ تو میرا رب کہے گا: ان کے زخموں کو دیکھو اگر ان کے زخم شہیدوں کے زخم سے ملتے ہیں تو یہ لوگ شہیدوں میں سے ہیں اور شہیدوں کے ساتھ رہیں گے، تو جب دیکھا گیا تو ان کے زخم شہیدوں کی طرح نکلے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3166]