شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ اور اس میں بھول چوک اور کمی و بیشی کا شائبہ تک نہ ہو۔ تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا، دشمن کے قریب پہنچا، قطع نظر اس کے کہ تیر دشمن کو لگایا نشانہ خطا کر گیا، تو اسے ایک غلام آزاد کرنے کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا، اور جس نے ایک مسلمان غلام آزاد کیا تو غلام کا ہر عضو (آزاد کرنے والے کے) ہر عضو کے لیے جہنم کی آگ سے نجات کا فدیہ بن جائے گا، اور جو شخص اللہ کی راہ میں (لڑتے لڑتے) بوڑھا ہو گیا، تو یہ بڑھاپا قیامت کے دن اس کے لیے نور بن جائے گا“۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3147]
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ایک تیر کے ذریعہ تین طرح کے لوگوں کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ (پہلا) تیر کا بنانے والا جس نے اچھی نیت سے تیر تیار کیا ہو، (دوسرا) تیر کا چلانے والا (تیسرا) تیر اٹھا اٹھا کر پکڑانے اور چلانے کے لیے دینے والا (تینوں ہی جنت میں جائیں گے)“۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3148]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الجہاد 24 (2513) مطولا، (تحفة الأشراف: 9922) (ضعیف) (اس کے راوی ”خالد بن زید یا یزید‘‘ لین الحدیث ہیں) ویأتي عند المؤلف في الخیل 8 برقم 3608حدیث کے بعض دوسرے الفاظ وطرق کے لیے دیکھئے: سنن ابی داود 2513)»
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اللہ کے راستے میں گھائل ہو گا، اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ اس کے راستے میں کون زخمی ہوا ۱؎ تو قیامت کے دن (اس طرح) آئے گا کہ اس کے زخم سے خون ٹپک رہا ہو گا۔ رنگ خون کا ہو گا اور خوشبو مشک کی ہو گی“۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3149]
عبداللہ بن ثعلبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں (یعنی شہداء کو) ان کے خون میں لت پت ڈھانپ دو، کیونکہ کوئی بھی زخم جو اللہ کے راستے میں کسی کو پہنچا ہو وہ قیامت کے دن (اس طرح) آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہو گا، رنگ خون کا ہو گا، اور خوشبو اس کی مشک کی ہو گی ۱؎“۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3150]
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جنگ احد کے دن جب لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے، (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ انصاری صحابہ کے ساتھ ایک طرف موجود تھے انہیں میں ایک طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ۱؎۔ مشرکین نے انہیں (تھوڑا دیکھ کر) گھیر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”ہماری طرف سے کون لڑے گا“؟ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں (آپ کا دفاع کروں گا)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جیسے ہو ویسے ہی رہو“ تو ایک دوسرے انصاری صحابی نے کہا: اللہ کے رسول! میں (دفاع کیلئے تیار ہوں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم (لڑو ان سے) تو وہ لڑے یہاں تک کہ شہید کر دیئے گئے“۔ پھر آپ نے مڑ کر (سب پر) ایک نظر ڈالی تو مشرکین موجود تھے آپ نے پھر آواز لگائی: ”قوم کی کون حفاظت کرے گا“؟ طلحہ رضی اللہ عنہ (پھر) بولے: میں حفاظت کروں گا، آپ نے فرمایا: ”(تم ٹھہرو) تم جیسے ہو ویسے ہی رہو“، تو دوسرے انصاری صحابی نے کہا: اللہ کے رسول! میں قوم کی حفاظت کروں گا، آپ نے فرمایا: ”تم (لڑو ان سے)“ پھر وہ صحابی (مشرکین سے) لڑے اور شہید ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر ایسے ہی پکارتے رہے اور کوئی نہ کوئی انصاری صحابی ان مشرکین کے مقابلے کے لیے میدان میں اترتا اور نکلتا رہا اور اپنے پہلوں کی طرح لڑ لڑ کر شہید ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ بن عبیداللہ ہی باقی رہ گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز لگائی۔ ”قوم کی کون حفاظت کرے گا“؟ طلحہ رضی اللہ عنہ نے (پھر) کہا: میں کروں گا (یہ کہہ کر) پہلے گیارہ (شہید ساتھیوں) کی طرح مشرکین سے جنگ کرنے لگ گئے۔ (اور لڑتے رہے) یہاں تک کہ ہاتھ پر ایک کاری ضرب لگی اور انگلیاں کٹ کر گر گئیں۔ انہوں نے کہا: «حس» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ( «حس» کے بجائے) «بسم اللہ» کہتے تو فرشتے تمہیں اٹھا لیتے اور لوگ دیکھ رہے ہوتے“، پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو واپس کر دیا (یعنی وہ مکہ لوٹ گئے)۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3151]
سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ خیبر کی جنگ میں میرا بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں بہت بہادری سے لڑا، اتفاق ایسا ہوا کہ اس کی تلوار پلٹ کر خود اسی کو لگ گئی، اور اسے ہلاک کر دیا۔ تو اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب چہ میگوئیاں کرنے لگے اور شک میں پڑ گئے کہ وہ اپنے ہتھیار سے مرا ہے ۱؎ سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے لوٹ کر آئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے اپنے سامنے رجز یہ کلام (یعنی جوش و خروش والا کلام) پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خوب سمجھ بوجھ کر کہنا ۲؎ میں نے کہا: قسم اللہ کی اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے ـ نہ ہم صدقہ و خیرات کرتے، نہ نمازیں پڑھتے (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے سچی بات کہی ہے“۔ (دوسرے رجزیہ شعر کا ترجمہ): اے اللہ ہم سب پر سکینت (اطمینان قلب) نازل فرما - اور جب میدان جنگ میں دشمن سے ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ مشرکین نے ہم پر ظلم و زیادتی کی ہے (تو ہماری ان کے مقابلے میں مدد فرما)۔ جب میں اپنا رجزیہ کلام پڑھ چکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ رجزیہ (اشعار) کس نے کہے ہیں؟“ میں نے کہا: میرے بھائی نے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان پر رحم فرمائے“(بہت اچھے رجزیہ اشعار کہے ہیں) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! لوگ تو ان کی نماز جنازہ پڑھنے سے بچ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ شخص خود اپنے ہتھیار سے مرا ہے۔ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لڑتا ہوا مجاہد بن کر مرا ہے“۱؎۔ ابن شہاب زہری (جو اس حدیث کے راوی ہیں) کہتے ہیں: میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے پوچھا تو انہوں نے اپنے باپ سے یہ حدیث اسی طرح بیان کیا سوائے اس ذرا سے فرق کے کہ جب میں نے عرض کیا کہ کچھ لوگ ان کی نماز پڑھنے سے خوف کھا رہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ غلط کہتے ہیں (بدگمانی نہیں کرنی چاہیئے) وہ جہاد کرتا ہوا بحیثیت ایک مجاہد کے مرا ہے“، آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”اسے دو اجر ملیں گے“۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3152]
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میری امت کے لیے یہ بات باعث تکلیف و مشقت نہ ہوتی تو میں کسی بھی فوجی ٹولی و جماعت کے ساتھ نکلنے میں پیچھے نہ رہتا، لیکن لوگوں کے پاس سواریوں کا انتظام نہیں، اور نہ ہی ہمارے پاس وافر سواریاں ہیں کہ میں انہیں ان پر بٹھا کر لے جا سکوں؟ اور وہ لوگ میرا ساتھ چھوڑ کر رہنا نہیں چاہتے۔ (اس لیے میں ہر سریہ (فوجی دستہ) کے ساتھ نہیں جاتا) مجھے تو پسند ہے کہ میں اللہ کے راستے میں مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں“، آپ نے ایسا تین بار فرمایا۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3153]
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر بہت سے مسلمانوں کے لیے یہ بات ناگواری اور تکلیف کی نہ ہوتی کہ وہ ہم سے پیچھے رہیں۔ (ہمارا ان کا ساتھ چھوٹ جائے) اور ہمارے ساتھ یہ دقت بھی نہ ہوتی کہ ہمارے پاس سواریاں نہیں ہیں جن پر ہم انہیں سوار کرا کے لے جائیں تو میں اللہ کے راستے میں جنگ کرنے کے لیے نکلنے والے کسی بھی فوجی دستہ سے پیچھے نہ رہتا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے پسند ہے کہ میں اللہ کے راستے میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں“۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3154]
ابن ابی عمیرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بھی مسلمان شخص جو اپنی زندگی کے دن پورے کر کے اس دنیا سے جا چکا ہو یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ پھر لوٹ کر تمہارے پاس اس دنیا میں آئے اگرچہ اسے دنیا اور دنیا کی ساری چیزیں دے دی جائیں سوائے شہید کے ۱؎، مجھے اپنا اللہ کے راستے میں قتل کر دیا جانا اس سے زیادہ پسند ہے کہ میری ملکیت میں دیہات، شہر و قصبات کے لوگ ہوں“۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3155]
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جنگ احد کے دن ایک شخص نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کہا: آپ بتائیں اگر میں اللہ کے راستے میں شہید ہو گیا تو میں کہاں ہوں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ہو گے“، (یہ سنتے ہی) اس نے اپنے ہاتھ میں لی ہوئی کھجوریں پھینک دیں، (میدان جنگ میں اتر گیا) جنگ کی اور شہید ہو گیا۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3156]