جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص نے غلام کو مدبر بنا دیا، اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی مال نہ تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچ دیا، اور قبیلہ بنی عدی کے شخص ابن نحام نے اسے خریدا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2513]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدبر غلام میت کے تہائی مال میں سے شمار ہو گا“۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: میں نے عثمان یعنی ابن ابی شیبہ کو کہتے سنا کہ یہ روایت یعنی «المدبر من الثلث» کی حدیث صحیح نہیں ہے۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں: اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2514]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8065، ومصباح الزجاجة: 890) (موضوع)» (علی بن ظبیان کی ابن معین وغیرہ نے تکذیب کی ہے)
قال الشيخ الألباني: موضوع
2. بَابُ: أُمَّهَاتِ الأَوْلاَدِ
2. باب: ام ولد (یعنی وہ لونڈی جس کی مالک سے اولاد ہو) کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لونڈی اپنے مالک کا بچہ جنے، تو وہ مالک کے مر جانے کے بعد آزاد ہو جائے گی“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2515]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6023، ومصباح الزجاجة: 891)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/303، 317، 320)، سنن الدارمی/البیوع 38 (2616) (ضعیف)» (سند میں حسین بن عبد اللہ متروک راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 1771)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کی ماں کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے بچے (ابراہیم) نے اسے آزاد کر دیا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2516]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6024، ومصباح الزجاجة: 894) (ضعیف)» (سند میں حسین بن عبداللہ متروک راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 1772)
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ اپنی لونڈیاں اور «امہات الاولاد» بیچا کرتے تھے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان زندہ تھے، اور ہم اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2517]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2835، ومصباح الزجاجة: 893)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/العتق 8 (3954)، مسند احمد (3/321) (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک کی مدد کرنا اللہ پر حق ہے، ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ کا غازی ہو، دوسرے وہ مکاتب جو بدل کتابت ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، تیسرا وہ شخص جو پاک دامن رہنے کے ارادے سے نکاح کرے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2518]
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس غلام سے سو اوقیہ پر مکاتبت کی گئی ہو، اور وہ سوائے دس اوقیہ کے باقی تمام ادا کر دے، تو وہ غلام ہی رہے گا“(جب تک پورا ادا نہ کر دے)۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2519]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8673، ومصباح الزجاجة: 894)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/العتق 1 (3927)، سنن الترمذی/البیوع 35 (1260) (حسن)» (سند میں حجاج بن ارطاہ مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن متابعت کی وجہ سے یہحسن ہے، نیزملاحظہ ہو: الإرواء: 1674)۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم میں سے کسی کے پاس مکاتب غلام ہو، اور اس کے پاس اس قدر مال ہو گیا ہو کہ وہ اپنا بدل کتابت ادا کر سکے، تو تم لوگوں کو اس سے پردہ کرنا چاہیئے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2520]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/العتق 1 (3928)، سنن الترمذی/البیوع 35 (1261)، (تحفة الأشراف: 18221)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/289) (ضعیف)» (سند میں نبہان مجہول راوی ہیں، نیز یہ حدیث اگلی حدیث کے مخالف بھی ہے)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے پاس بریرہ رضی اللہ عنہا آئیں جو مکاتب (لونڈی) تھیں، ان کے مالکوں نے نو اوقیہ پر ان سے مکاتبت کی تھی، عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: اگر تمہارے مالک چاہیں تو تمہارا بدل مکاتبت میں ایک ہی بار ادا کروں، مگر تمہاری ولاء (میراث) میری ہو گی، چنانچہ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مالکوں کے پاس آئیں، اور ان سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے یہ (پیش کش) اس شرط پر منظور کر لی کہ ولاء (میراث) کا حق خود ان کو ملے گا، اس کا تذکرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنا کام کر ڈالو“، اور پھر آپ نے کھڑے ہو کر لوگوں میں خطبہ دیا، اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر کے فرمایا: ”آخر لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں نہیں ہیں، اور ہر وہ شرط جو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں نہ ہو باطل ہے، اگرچہ ایسی سو شرطیں ہوں، اللہ کی کتاب سب سے زیادہ حقدار اور اللہ تعالیٰ کی شرط سب سے زیادہ قوی ہے، ولاء اسی کا حق ہے جو (مکاتب کی طرف سے مال ادا کر کے) اسے آزاد کرے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2521]