ابوامامہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں حد کا مرتکب ہو گیا ہوں تو آپ مجھ پر حد جاری کر دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا جس وقت تم آئے تو وضو کیا؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس وقت ہم نے نماز پڑھی تم کیا تو نے بھی نماز پڑھی؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اللہ نے تمہیں معاف کر دیا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4381]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/التوبة 7 (2765)، (تحفة الأشراف: 4878)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/251، 262، 265) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
10. باب فِي الاِمْتِحَانِ بِالضَّرْبِ
10. باب: جرم کی تفتیش میں مجرم کو مارنا پیٹنا کیسا ہے؟
ازہر بن عبداللہ حرازی کا بیان ہے کہ کلاع کے کچھ لوگوں کا مال چرایا گیا تو انہوں نے کچھ کپڑا بننے والوں پر الزام لگایا اور انہیں صحابی رسول نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کے پاس لے کر آئے، تو آپ نے انہیں چند دنوں تک قید میں رکھا پھر چھوڑ دیا، پھر وہ سب نعمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور کہا کہ آپ نے انہیں بغیر مارے اور بغیر پوچھ تاچھ کئے چھوڑ دیا، نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: تم کیا چاہتے ہو اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو میں ان کی پٹائی کرتا ہوں، اگر تمہارا سامان ان کے پاس نکلا تو ٹھیک ہے ورنہ اتنا ہی تمہاری پٹائی ہو گی جتنا ان کو مارا تھا، تو انہوں نے پوچھا: یہ آپ کا فیصلہ ہے؟ نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس قول سے نعمان رضی اللہ عنہ نے ڈرا دیا، مطلب یہ ہے کہ مارنا پیٹنا اعتراف کے بعد ہی واجب ہوتا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4382]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چوتھائی دینار یا اس سے زائد میں (چور کا ہاتھ) کاٹتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4383]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چور کا ہاتھ چوتھائی دینار، یا اس سے زائد میں کاٹا جائے“۔ احمد بن صالح کہتے ہیں: چور کا ہاتھ چوتھائی دینار یا اس سے زائد میں کٹے گا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4384]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/ الحدود 13 (6790)، صحیح مسلم/ الحدود 1 (1684)، سنن النسائی/ قطع السارق 7 (4621)، (تحفة الأشراف: 16695)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ الحدود 7 (24)، دی/ الحدود 4 (2346) (صحیح)»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال میں جس کی قیمت تین درہم تھی (چور کا ہاتھ) کاٹا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4385]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے لوگوں سے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ہاتھ کاٹا جس نے عورتوں کے چبوترہ سے ایک ڈھال چرائی تھی جس کی قیمت تین درہم تھی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4386]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/ الحدود 1 (1686)، سنن النسائی/ قطع السارق 7 (4913)، (تحفة الأشراف: 7496)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/145)، دی/ الحدود 4 (2347) (صحیح)» (اس میں عورتوں کے چبوترہ کا ذکر صحیح نہیں ہے)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ہاتھ ایک ڈھال کے (چرانے پر) کاٹا جس کی قیمت ایک دینار یا دس درہم تھی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4387]
محمد بن یحییٰ بن حبان سے روایت ہے کہ ایک غلام نے ایک کھجور کے باغ سے ایک شخص کے کھجور کا پودا چرا لیا اور اسے لے جا کر اپنے مالک کے باغ میں لگا دیا، پھر پودے کا مالک اپنا پودا ڈھونڈنے نکلا تو اسے (ایک باغ میں لگا) پایا تو اس نے مروان بن حکم سے جو اس وقت مدینہ کے حاکم تھے غلام کے خلاف شکایت کی مروان نے اس غلام کو قید کر لیا اور اس کا ہاتھ کاٹنا چاہا تو غلام کا مالک رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، اور ان سے اس سلسلہ میں مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے اسے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”پھل اور جمار (کھجور کے درخت کے پیڑی کا گابھا) کی چوری میں ہاتھ نہیں کٹے گا“ تو اس شخص نے کہا: مروان نے میرے غلام کو پکڑ رکھا ہے وہ اس کا ہاتھ کاٹنا چاہتے ہیں میری خواہش ہے کہ آپ میرے ساتھ ان کے پاس چلیں اور اسے وہ بتائیں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، تو رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ چلے، اور مروان کے پاس آئے، اور ان سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”پھل اور گابھا کے (چرانے میں) ہاتھ نہیں کٹے گا“ مروان نے یہ سنا تو اس غلام کو چھوڑ دینے کا حکم دے دیا، چنانچہ اسے چھوڑ دیا گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «کثر» کے معنیٰ «جمار» کے ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4388]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الحدود 19 (1449)، سنن النسائی/قطع السارق 10 (4964)، سنن ابن ماجہ/الحدود 27 (2593)، (تحفة الأشراف: 3581، 3588)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحدود 11 (32)، مسند احمد (3/463، 464، 5/140، 142)، سنن الدارمی/الحدود 7 (2350) (صحیح)»
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لٹکے ہوئے پھلوں کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”جس ضرورت مند نے اسے کھا لیا، اور جمع کر کے نہیں رکھا تو اس پر کوئی گناہ نہیں، اور جو اس میں سے کچھ لے جائے تو اس پر اس کا دوگنا تاوان اور سزا ہو گی اور جو اسے کھلیان میں جمع کئے جانے کے بعد چرائے اور وہ ڈھال کی قیمت کو پہنچ رہا ہو تو پھر اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4390]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/البیوع 54 (1289)، سنن النسائی/قطع السارق 9 (4961)، سنن ابن ماجہ/الحدود 28 (2596)، (تحفة الأشراف: 8798)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/186) (حسن)»