ازہر بن عبداللہ حرازی کا بیان ہے کہ کلاع کے کچھ لوگوں کا مال چرایا گیا تو انہوں نے کچھ کپڑا بننے والوں پر الزام لگایا اور انہیں صحابی رسول نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کے پاس لے کر آئے، تو آپ نے انہیں چند دنوں تک قید میں رکھا پھر چھوڑ دیا، پھر وہ سب نعمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور کہا کہ آپ نے انہیں بغیر مارے اور بغیر پوچھ تاچھ کئے چھوڑ دیا، نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: تم کیا چاہتے ہو اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو میں ان کی پٹائی کرتا ہوں، اگر تمہارا سامان ان کے پاس نکلا تو ٹھیک ہے ورنہ اتنا ہی تمہاری پٹائی ہو گی جتنا ان کو مارا تھا، تو انہوں نے پوچھا: یہ آپ کا فیصلہ ہے؟ نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس قول سے نعمان رضی اللہ عنہ نے ڈرا دیا، مطلب یہ ہے کہ مارنا پیٹنا اعتراف کے بعد ہی واجب ہوتا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْحُدُودِ/حدیث: 4382]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجرم پر جب شبہ ہو تو اس کو پکڑنا صحیح ہے، مگر ناحق مار پیٹ سے اس سے اقبال جرم کرانا صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ سراسر ظلم ہے، جیسا کہ آج کل میں لوگ کرتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (4878) في سماع أزهر الحرازي من النعمان بن بشير نظر وھو من الطبقة الخا مسة عند ابن حجر (تقريب التهذيب:308) وقال النسائي : ’’ ھذا حديث منكر،لا يحتج به،أخرجته ليعرف القصاص‘‘(السنن الكبري للنسائي : 7361) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 155
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4382
فوائد ومسائل: کسی ملزم یا متہم کو تحقیق کی غرض سے مارنا پیٹنا فقہاء کے نزدیک اختلافی مسئلہ ہے۔ احناف اور شوافع اس کا انکار کرتے ہیں، ممکن ہےکہ یہ شخص حقیقتًا بری الذمہ ہوتوسزا دینا ظلم ہوگا، البتہ مالکیہ اسے جائزکہتے ہیں۔ بہرحال قاضی یا حاکم کو چاہئےکہ احوال وظروف کی روشنی میں تحقیق کرے، جیسے کہ غزوہ بدر میں صحابہ رضی اللہ عنہ نے قریش کے غلام کو مارا اور اس سے خبر اگلوانے کی کوشش کی تھی۔ (صحيح مسلم، الجهاد، باب غزوة بدر، حديث:١٧٧٩)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4382
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4878
´اعتراف جرم کی خاطر چور کو مارنے یا قید میں ڈالنے کا بیان۔` نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے پاس قبیلہ کلاع کے کچھ لوگ مقدمہ لائے کہ کچھ بنکروں نے سامان چرا لیا ہے، انہوں نے کچھ دنوں تک ان کو قید میں رکھا پھر چھوڑ دیا، تو وہ لوگ ان کے پاس آئے اور کہا: آپ نے انہیں کوئی تکلیف پہنچائے اور مارے بغیر چھوڑ دیا؟ نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟ کہو تو ان کو ماروں؟ اگر ان کے پاس تمہارا مال نکل آیا تو بہتر ہے ورنہ اسی قدر میں تمہاری پیٹھ پر ماروں گا؟ وہ بولے: کیا ی [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4878]
اردو حاشہ: (1) محقق کتاب کا اس روایت کی سند کو ضعیف کہنا درست نہیں۔ ان کے نزدیک وجہ ضعف یہ ہے کہ ازہر بن عبداللہ کے حضرت نعمان بن بشیر سے سماع میں نظر ہے لیکن انہوں نے اس نظر کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی اور اصولی بات یہ ہے کہ جب ثقہ یا صدوق راوی ”عن“ سے بیان کرے اور وہ متہم بالتدلیس بھی نہ ہو تو اس کی روایت سماع پر محمول ہو گی۔ اور ازہر کو کسی نے مدلس نہیں کہا۔ شاید اسی لیے شیخ البانی اور دیگر محققین نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔ (2) اس باب میں چور سے مراد وہ شخص ہے جس پر چوری کا الزام ہو مگر کوئی گواہ نہ ہو اور نہ مال مسروقہ اس سے برآمد ہوا ہو۔ ایسے شخص کو جس پر چور ہونے کے قرائن ہوں تحقیق کی غرض سے قید کیا جاسکتا ہے۔ اگر وہ تسلیم کر لے یا اس سے مال مسروقہ برآمد ہو جائے تو اس کو چوری کی سزا لازم ہے۔ اگر کچھ بھی ثابت نہ ہو تو اسے چھوڑ دیا جائے گا جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے ثابت ہوتا ہے نیز اسے مارنے کی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ مارپیٹ سے تو کسی بھی بے گناہ سے اعتراف کروایا جاسکتا ہے۔ کسی بے گناہ یا مشکوک شخص کو مارنا ظلم ہے۔ ہاں البتہ یہ درست ہے کہ دانائی اور حکمت سے سچ اگلوایا جائے یا دھمکیوں وغیرہ سے مرعوب کر کے حقیقت معلوم کی جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4878