ابوداؤد کہتے ہیں حارث بن مسکین پر پڑھا گیا، اور میں موجود تھا کہ اشہب نے آپ کو خبر دی ہے کہ امام مالک سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: «لا صفر» کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: جاہلیت میں لوگ «صفر» کو کسی سال حلال قرار دے لیتے تھے اور کسی سال اسے (محرم کا مہینہ قرار دے کر) حرام رکھتے تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «صفر»(اب ایسا) نہیں ہے“۔ [سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3914]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود (صحیح)»
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ کسی کو کسی کی بیماری لگتی ہے، اور نہ بد شگونی کوئی چیز ہے، اور فال نیک سے مجھے خوشی ہوتی ہے اور فال نیک بھلی بات ہے“۔ [سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3915]
بقیہ کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن راشد سے پوچھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «هام» کے کیا معنی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: جاہلیت کے لوگ کہا کرتے تھے: جو آدمی مرتا ہے اور دفن کر دیا جاتا ہے تو اس کی روح قبر سے ایک جانور کی شکل میں نکلتی ہے، پھر میں نے پوچھا آپ کے قول «لا صفر» کے کیا معنی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں نے سنا ہے کہ جاہلیت کے لوگ «صفر» کو منحوس جانتے تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «صفر» میں نحوست نہیں ہے۔ محمد بن راشد کہتے ہیں: میں نے کچھ لوگوں کو کہتے سنا ہے: «صفر» پیٹ میں ایک قسم کا درد ہے، لوگ کہتے تھے: وہ متعدی ہوتا ہے (یعنی ایک کو دوسرے سے لگ جاتا ہے) تو آپ نے فرمایا: ” «صفر» کوئی چیز نہیں ہے“۔ [سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3916]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات سنی جو آپ کو بھلی لگی تو آپ نے فرمایا: ”ہم نے تیری فال تیرے منہ سے سن لی (یعنی انجام بخیر ہے ان شاء اللہ)“۔ [سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3917]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15501)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/388) (صحیح)»
عطاء سے روایت ہے کہ لوگ کہتے تھے کہ صفر ایک قسم کا درد ہے جو پیٹ میں ہوتا ہے تو میں نے پوچھا: ہامہ کیا ہے؟ کہا: لوگ کہتے تھے: الو جو بولتا ہے وہ لوگوں کی روح ہے، حالانکہ وہ انسان کی روح نہیں بلکہ وہ ایک جانور ہے (اگلے لوگ جہالت سے اسے انسان کی روح سمجھتے تھے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3918]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود (صحیح)»
عروہ بن عامر قرشی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس طیرہ (بدشگونی) کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اس کی سب سے اچھی قسم نیک فال، اور اچھا (شگون) ہے، اور فال (شگون) کسی مسلمان کو اس کے ارادہ سے باز نہ رکھے پھر جب تم میں سے کوئی ایسی چیز دیکھے جو اسے ناگوار ہو تو وہ یہ دعا پڑھے: «اللهم لا يأتي بالحسنات إلا أنت ولا يدفع السيئات إلا أنت ولا حول ولا قوة إلا بك»”اے اللہ! تیرے سوا کوئی بھلائی نہیں پہنچا سکتا اور سوائے تیرے کوئی برائیوں کو روک بھی نہیں سکتا اور برائی سے باز رہنے اور نیکی کے کام کرنے کی طاقت و قوت صرف تیری توفیق ہی سے ملتی ہے“۔ [سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3919]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 9899) (ضعیف)» (اس کے راوی عروہ قرشی تابعی ہیں اس لئے یہ روایت مرسل ہے)
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے فال بد (بدشگونی) نہیں لیتے تھے اور جب آپ کسی عامل کو بھیجتے تو اس کا نام پوچھتے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا نام پسند آتا تو اس سے خوش ہوتے اور خوشی آپ کے چہرے پر نظر آتی اور اگر وہ پسند نہ آتا تو یہ ناپسندیدگی آپ کے چہرے پر دکھائی پڑتی، اور جب کسی بستی میں داخل ہوتے تو اس کا نام پوچھتے اگر وہ نام اچھا لگتا تو اس سے خوش ہوتے اور یہ خوشی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر دکھائی پڑتی اور اگر وہ ناپسند ہوتا تو یہ ناپسندیدگی آپ کے چہرے پر دکھائی پڑتی۔ [سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3920]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 1993)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/347) (صحیح)»
سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”مردے کی روح جانور کی شکل میں نہیں نکلتی، اور نہ کسی کی بیماری کسی کو لگتی ہے، اور نہ کسی چیز میں نحوست ہے، اور اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہوتی“۔ [سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3921]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نحوست گھر، عورت اور گھوڑے میں ہے ۱؎“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حارث بن مسکین پر پڑھا گیا اور میں موجود تھا کہ ابن قاسم نے آپ کو خبر دی ہے کہ امام مالک سے گھوڑے اور گھر کی نحوست کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: بہت سے گھر ایسے ہیں جس میں لوگ رہے تو وہ مر گئے پھر دوسرے لوگ رہنے لگے تو وہ بھی مر گئے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہی اس کی تفسیر ہے، واللہ اعلم۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گھر کی ایک چٹائی بانجھ عورت سے اچھی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3922]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجھاد 47 (2858)، النکاح 17 (5093)، الطب 43 (5753)، 54 (5772)، صحیح مسلم/السلام 34 (2225)، سنن الترمذی/الأدب 58 (2824)، سنن النسائی/الخیل 4 (3599)، سنن ابن ماجہ/النکاح 55 (1995)، (تحفة الأشراف: 6864، 18276، 6699)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاستئذان 8 (22)، مسند احمد (2/8، 36، 115، 126) (صحیح)» (اس حدیث میں «الشؤم» کا لفظ آیا ہے، اور بعض روایتوں میں «إنما الشؤم» ہے جبکہ صحیحین وغیرہ میں ابن عمر سے «إن کان الشؤم» ثابت ہے، جس کے شواہد سعد بن أبی وقاص (کما تقدم: 3921)، سہل بن سعد (صحیح البخاری/5095)، وجابر (صحیح مسلم/2227) کی احادیث میں ہیں، اس لئے بعض اہل علم نے پہلے لفظ کو شاذ قرار دیا ہے، (ملاحظہ ہو: الصحیحة: 799، 789، 1857)۔
فروہ بن مسیک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس ایک زمین ہے جسے ابین کہا جاتا ہے یہی ہمارا کھیت ہے جہاں سے ہمیں غلہ ملتا ہے لیکن یہ وبا والی زمین ہے یا کہا کہ اس کی وبا سخت ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس زمین کو اپنے سے علیحدہ کر دے کیونکہ اس کے ساتھ وبا لگی رہنے سے ہلاکت ہے“۔ [سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3923]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11024)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/451) (ضعیف الإسناد)» (فروة کے شاگرد مبہم ہیں)