قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سماسرہ ۱؎ کہا جاتا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے تو ہمیں ایک اچھے نام سے نوازا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سوداگروں کی جماعت! بیع میں لایعنی باتیں اور (جھوٹی) قسمیں ہو جاتی ہیں تو تم اسے صدقہ سے ملا دیا کرو ۲؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3326]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/البیوع 4 (1208)، سنن النسائی/الأیمان 21 (3828)، البیوع 7 (4468)، سنن ابن ماجہ/التجارات 3 (2145)، (تحفة الأشراف: 11103)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/6،280) (حسن صحیح)»
اس سند سے بھی قیس بن ابی غرزہ سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں «يحضره اللغو والحلف» کے بجائے: «يحضره الكذب والحلف» ہے عبداللہ الزہری کی روایت میں: «اللغو والكذب» ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3327]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص اپنے قرض دار کے ساتھ لگا رہا جس کے ذمہ اس کے دس دینار تھے اس نے کہا: میں تجھ سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ تو قرض نہ ادا کر دے، یا ضامن نہ لے آ، یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض دار کی ضمانت لے لی، پھر وہ اپنے وعدے کے مطابق لے کر آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”یہ سونا تجھے کہاں سے ملا؟“ اس نے کہا: میں نے کان سے نکالا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے (لے جاؤ) اس میں بھلائی نہیں ہے“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے (قرض کو) خود ادا کر دیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3328]
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”حلال واضح ہے، اور حرام واضح ہے، اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں (جن کی حلت و حرمت میں شک ہے) اور کبھی یہ کہا کہ ان کے درمیان مشتبہ چیز ہے اور میں تمہیں یہ بات ایک مثال سے سمجھاتا ہوں، اللہ نے (اپنے لیے) محفوظ جگہ (چراگاہ) بنائی ہے، اور اللہ کی محفوظ جگہ اس کے محارم ہیں (یعنی ایسے امور جنہیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے) اور جو شخص محفوظ چراگاہ کے گرد اپنے جانور چرائے گا، تو عین ممکن ہے کہ اس کے اندر داخل ہو جائے اور جو شخص مشتبہ چیزوں کے قریب جائے گا تو عین ممکن ہے کہ اسے حلال کر بیٹھنے کی جسارت کر ڈالے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3329]
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ یہی حدیث بیان فرما رہے تھے اور فرما رہے تھے: ”ان دونوں کے درمیان کچھ شبہے کی چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے، جو شبہوں سے بچا وہ اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لے گیا، اور جو شبہوں میں پڑا وہ حرام میں پھنس گیا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3330]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں سود کھانے سے کوئی بچ نہ سکے گا اور اگر نہ کھائے گا تو اس کی بھاپ کچھ نہ کچھ اس پر پڑ کر ہی رہے گی ۱؎“۔ ابن عیسیٰ کی روایت میں «أصابه من بخاره» کی جگہ «أصابه من غباره» ہے، یعنی اس کی گرد کچھ نہ کچھ اس پر پڑ کر ہی رہے گی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3331]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/البیوع 2 (4460)، سنن ابن ماجہ/التجارات 58 (2278)، مسند احمد (2/494)، (تحفة الأشراف: 9203، 12241) (ضعیف)» (اس کے راوی سعید لین الحدیث ہیں، نیز حسن بصری کا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں)
ایک انصاری کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازہ میں گئے تو میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر تھے قبر کھودنے والے کو بتا رہے تھے: ”پیروں کی جانب سے (قبر) کشادہ کرو اور سر کی جانب سے چوڑی کرو“ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (وہاں سے فراغت پا کر) لوٹے تو ایک عورت کی جانب سے کھانے کی دعوت دینے والا آپ کے سامنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس کے یہاں) آئے اور کھانا لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ رکھا (کھانا شروع کیا) پھر دوسرے لوگوں نے رکھا اور سب نے کھانا شروع کر دیا تو ہمارے بزرگوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ ایک ہی لقمہ منہ میں لیے گھما پھرا رہے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے لگتا ہے یہ ایسی بکری کا گوشت ہے جسے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر ذبح کر کے پکا لیا گیا ہے“ پھر عورت نے کہلا بھیجا: اللہ کے رسول! میں نے اپنا ایک آدمی بقیع کی طرف بکری خرید کر لانے کے لیے بھیجا تو اسے بکری نہیں ملی پھر میں نے اپنے ہمسایہ کو، جس نے ایک بکری خرید رکھی تھی کہلا بھیجا کہ تم نے جس قیمت میں بکری خرید رکھی ہے اسی قیمت میں مجھے دے دو (اتفاق سے) وہ ہمسایہ (گھر پر) نہ ملا تو میں نے اس کی بیوی سے کہلا بھیجا تو اس نے بکری میرے پاس بھیج دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ گوشت قیدیوں کو کھلا دو ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3332]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15663)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/293، 408) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
4. باب فِي آكِلِ الرِّبَا وَمُوكِلِهِ
4. باب: سود کھانے اور کھلانے والے پر وارد وعید کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سود کے لیے گواہ بننے والے اور اس کے کاتب (لکھنے والے) پر لعنت فرمائی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3333]
عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع میں سنا: آپ فرما رہے تھے: ”سنو! زمانہ جاہلیت کے سارے سود کالعدم قرار دے دیئے گئے ہیں تمہارے لیے بس تمہارا اصل مال ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ کوئی تم پر ظلم کرے (نہ تم کسی سے سود لو نہ تم سے کوئی سود لے) سن لو! زمانہ جاہلیت کے خون کالعدم کر دئیے گئے ہیں، اور زمانہ جاہلیت کے سارے خونوں میں سے میں سب سے پہلے جسے معاف کرتا ہوں وہ حارث بن عبدالمطلب ۱؎ کا خون ہے“ وہ ایک شیر خوار بچہ تھے جو بنی لیث میں پرورش پا رہے تھے کہ ان کو ہذیل کے لوگوں نے مار ڈالا تھا۔ راوی کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا؟ ”لوگوں نے تین بار کہا: ہاں (آپ نے پہنچا دیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: ”اے اللہ! تو گواہ رہ“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3334]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الفتن 1 (1259)، تفسیرالقرآن 10 (3087)، سنن ابن ماجہ/المناسک 76 (3055)، (تحفة الأشراف: 1191)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/426، 498) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
6. باب فِي كَرَاهِيَةِ الْيَمِينِ فِي الْبَيْعِ
6. باب: خرید و فروخت میں (جھوٹی) قسم کھانے کی ممانعت۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”(جھوٹی) قسم (قسم کھانے والے کے خیال میں) سامان کو رائج کر دیتی ہے، لیکن برکت کو ختم کر دیتی ہے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3335]