عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع میں سنا: آپ فرما رہے تھے: ”سنو! زمانہ جاہلیت کے سارے سود کالعدم قرار دے دیئے گئے ہیں تمہارے لیے بس تمہارا اصل مال ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ کوئی تم پر ظلم کرے (نہ تم کسی سے سود لو نہ تم سے کوئی سود لے) سن لو! زمانہ جاہلیت کے خون کالعدم کر دئیے گئے ہیں، اور زمانہ جاہلیت کے سارے خونوں میں سے میں سب سے پہلے جسے معاف کرتا ہوں وہ حارث بن عبدالمطلب ۱؎ کا خون ہے“ وہ ایک شیر خوار بچہ تھے جو بنی لیث میں پرورش پا رہے تھے کہ ان کو ہذیل کے لوگوں نے مار ڈالا تھا۔ راوی کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا؟ ”لوگوں نے تین بار کہا: ہاں (آپ نے پہنچا دیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: ”اے اللہ! تو گواہ رہ“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3334]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الفتن 1 (1259)، تفسیرالقرآن 10 (3087)، سنن ابن ماجہ/المناسک 76 (3055)، (تحفة الأشراف: 1191)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/426، 498) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن أخرجه ابن ماجه (3055 وسنده حسن) ورواه الترمذي (3087 وسنده حسن)
كل ربا من ربا الجاهلية موضوع لكم رءوس أموالكم لا تظلمون ولا تظلمون كل دم من دم الجاهلية موضوع وأول دم أضع منها دم الحارث بن عبد المطلب كان مسترضعا في بني ليث فقتلته هذيل قال اللهم هل بلغت قالوا نعم ثلاث مرات قال اللهم اشهد ثلاث مرات
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3334
فوائد ومسائل: 1۔ سود لینا بلاشبہ حرام ہے۔ البتہ یہ سود کا سرمایہ جو بنکوں کے پاس ہوتا ہے۔ سودی نظام کے ذریعے سے مجموعی قومی دولت سے ہتھیا یا ہوا ہوتا ہے۔ اس لئے اگر بنک میں کوئی سود بنتا ہو تو اسے لے کرعام شہری ضروریات میں خرچ کردیا جائے۔ مثلا ہسپتال۔ سکول۔ سڑک۔ اور پل وغیرہ کی تعمیر یا کسی ایسے شخص کو دے دیا جائے جو کسی دوسرے ایسے مرض کے پھندے میں پھنس گیا ہو۔ چونکہ یہ مملکت کی رقم ہوتی ہے۔ اس لئے اسے مملکت کے عام شہریوں کے لئے بلا تخصیص مسلم وکافر خرچ کیا جانا چاہیے۔ (افادات حضرت الشیخ مولانا سلطان محمود) اس رقم کو ان ظالموں کے لئے چھوڑ دینا خلاف مصلحت ہے۔ واللہ اعلم۔
2۔ اہل قیادت کےلئے اس میں عظیم درس ہے۔ کہ قیادت اور دعوت کے معاملے میں اپنا اور اپنے اقارب کا دامن بالخصوص صاف رکھا جائے۔ ورنہ عام لوگوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنتا پڑتا ہے۔ اوردعوت بھی مقبول نہیں ہوتی۔ امام ابودائود نے یہاں ربا کے حوالے سے دو احادیث ذکر کی ہیں۔ پہلی میں سود کے لین دین میں حصہ لینے والے تمام فریقوں پر لعنت کی گئی ہے۔ اور دوسری میں یہ ہے کہ اگر کوئی سودی لین دین موجود ہے تو صرف اصل زرکی وصولی ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ کے الفاظ سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے۔ کہ جوکچھ اصل زر سے زائد ہے وہ سود ہے اور اس کا لینا اور دینا دونوں حرام ہیں۔ قرآن مجید میں بھی اسی طرح کے الفاظ ہیں۔ (فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ)(البقرة۔ 279) اس لئے یہ کہنا کہ بنک کا سود جو یقینا اصل زرسے زائد ہوتا ہے ربا نہیں بالکل غلط ہے۔ قرآن مجید کی آیت اور اس حدیث نے سود کی واضح تعریف کردی ہے۔ یعنی وہ جو اصل زر سے زائد مانگا جائے وہ سود ہے۔ اور اس کا لینا دینا دونوں حرام ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بنک اسی پیسے سے نفع کماتا ہے اس لئے بنک سے زائد لینا کیونکر حرام ہوا؟ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اس منافع کی تقسیم کا قائل ہے۔ جو واقعتاً تجارت سے حاصل ہو۔ اس کی صورت یہ ہے کہ منافع کا آدھا یا تہائی یا چوتھائی طے کرلیا جائے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ مال بطور قرض نہ دیا گیا ہو بلکہ تجارت میں شمولیت میں یا گیا ہو تجارت کے نفع نقصان کی ذمہ داری میں سب شریک ہوں۔ اسی طرح اگر منافع حاصل ہو اور جتنا واقعتاً حاصل ہو اسے طے شدہ نسبت سے تقسیم کرلیا جائے۔ جہاں تجارت میں شراکت داری کا معاہدہ نہ ہو نفع ہونے نہ ہونے زیادہ ہونے یا کم ہونے کی کسی زمہ داری میں دونوں فریق شامل نہ ہوں۔ مال بطورقرض دیا جائے۔ اور اس پر مقرر شرح سے زائد لینے کا معاہدہ کرلیا جائے حتیٰ کہ اگر تجارت میں نقصان ہوجائے تو بھی اصل زر بمع مقرر شدہ اضافہ ہر صورت میں وصول کیا جانا ہوتو یہی اصل زر پر اضافہ ہے جو سود اور قطعی حرام ہے۔ حدیث اور قرآن کی آیت میں ہے۔ (لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ) تم اصل زر لے لو نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اصل زر سے زیادہ مانگ کر تم دوسرے فریق پر ظلم نہ کرو اور نہ اصل زر کی ادایئگی روک کر دوسرا فریق تم پر ظلم کرے۔ اب تو فریقین کے ایک دوسرے پر ظلم کی کئی نئی صورتیں پیدا ہوگئی ہیں۔ بنک غریب لوگوں بیوائوں یتیموں کا مال لے کر اس سے بے پناہ منافع حاصل کرتا ہے۔ چونکہ اصل لین دین کرنسی کی بجائے محض چیک سے ہوتا ہے۔ اس لئے کرنسی کا بہت بڑا حصہ بنک کے پاس جوں کا توں محفوظ رہتا ہے۔ اس محفوظ سرمایہ کی بنیاد پر بنک میں موجود کرنسی سے زیادہ کے قرضے اور کارڈ ایشو کردیئے جاتے ہیں۔ اورکئی گنا منافع حاصل ہوتا ہے۔ اتنا زیادہ منافع کمانے کے باوجود وہ اپنی بچتیں جمع کرانے والے غریب لوگوں یتیموں اور بیوائوں کو اس میں سے برائے نام بہت تھوڑا سا منافع دے کر ان کا باقی ماندہ بڑا حصہ خود ہڑپ کرجاتا ہے۔ جو کچھ لوگوں کو دیا جاتا ہے۔ وہ منافع تو کجا کرنسی کی قیمت میں وقتا فوقتا جو کمی جان بوجھ کرکی جاتی ہے۔ اس کے برابر بھی نہیں ہوتا۔ اس طرح بنک جو سود دیتا ہے۔ اس میں بھی ظلم کرتا ہے۔ یہ بڑی دھوکا دیہی ہے لوگوں کو جھانسا دیا جاتا ہے۔ کہ ہم آپ کو کما کر منافع میں سے حصہ دے رہے ہیں۔ یعنی تجارت کے منافع میں شریک کررہے ہیں لیکن ان سے معاہدہ تجارتی شراکت کا نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ اس طرح بہت زیادہ حصہ دینا پڑتا ہے۔ ان سے معاہدہ قرض اور سود کا کیا جاتا ہے۔ اس لوٹ ماراور فریب دہی کی واردات کو قانون اور حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ حدیث نمبر 3333 کی رو سے سودی بنکوں کی ملازمت بھی حرام ہے۔ کیونکہ سودی کاروبار میں ہر طرح کی شرکت لکھنا گواہ بننا سب موجب لعنت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3334