جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”خشکی کا شکار تمہارے لیے اس وقت حلال ہے جب تم خود اس کا شکار نہ کرو اور نہ تمہارے لیے اس کا شکار کیا جائے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جب دو روایتیں متعارض ہوں تو دیکھا جائے گا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل کس کے موافق ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1851]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الحج 25 (846)، سنن النسائی/الحج 81 (2830)، (تحفة الأشراف: 3098)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/362، 387، 389) (ضعیف)» (عمرو بن أبی عمرو اور مطلب میں کلام ہے لیکن اگلی حدیث سے اس کے معنی کی تائید ہو رہی ہے)
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، مکہ کا راستہ طے کرنے کے بعد اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے وہ پیچھے رہ گئے، انہوں نے احرام نہیں باندھا تھا، پھر اچانک انہوں نے ایک نیل گائے دیکھا تو اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور ساتھیوں سے کوڑا مانگا، انہوں نے انکار کیا، پھر ان سے برچھا مانگا تو انہوں نے پھر انکار کیا، پھر انہوں نے نیزہ خود لیا اور نیل گائے پر حملہ کر کے اسے مار ڈالا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ساتھیوں نے اس میں سے کھایا اور بعض نے انکار کیا، جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر ملے تو آپ سے اس بارے میں پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایک کھانا تھا جو اللہ نے تمہیں کھلایا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1852]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹڈیاں سمندر کے شکار میں سے ہیں ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1853]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14675، 19238) (ضعیف)» (اس کے راوی میمون لین الحدیث ہیں)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں ٹڈیوں کا ایک جھنڈ ملا، ہم میں سے ایک شخص انہیں اپنے کوڑے سے مار رہا تھا، اور وہ احرام باندھے ہوئے تھا تو اس سے کہا گیا کہ یہ درست نہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”وہ تو سمندر کے شکار میں سے ہے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابومہزم ضعیف ہیں اور دونوں روایتیں راوی کا وہم ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1854]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الحج 27 (850)، سنن ابن ماجہ/الصید 9 (3222)، (تحفة الأشراف: 14832)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/306، 364، 374، 407) (ضعیف جدا)» (اس کے راوی ابو المہزم ضعیف ہیں)
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے زمانے میں ان کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں تمہارے سر کی جوؤں نے ایذا دی ہے؟“ کہا: ہاں، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سر منڈوا دو، پھر ایک بکری ذبح کرو، یا تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو تین صاع کھجور کھلاؤ ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1856]
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”اگر تم چاہو تو ایک بکری ذبح کر دو اور اگر چاہو تو تین دن کے روزے رکھو، اور اگر چاہو تو تین صاع کھجور چھ مسکینوں کو کھلا دو“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1857]
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے زمانے میں ان کے پاس سے گزرے، پھر انہوں نے یہی قصہ بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تمہارے ساتھ دم دینے کا جانور ہے؟“، انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تو تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو تین صاع کھجور کھلاؤ، اس طرح کہ ہر دو مسکین کو ایک صاع مل جائے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1858]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11111)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/241، 243) (صحیح)»
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے(اور انہیں سر میں (جوؤوں کی وجہ سے) تکلیف پہنچی تھی تو انہوں نے سر منڈوا دیا تھا)، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک گائے قربان کرنے کا حکم دیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1859]
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال میرے سر میں جوئیں پڑ گئیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا یہاں تک کہ مجھے اپنی بینائی جانے کا خوف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے میرے سلسلے میں «فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه» کی آیت نازل فرمائی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور مجھ سے فرمایا: ”تم اپنا سر منڈوا لو اور تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو ایک فرق ۱؎ منقٰی کھلاؤ، یا پھر ایک بکری ذبح کرو“ چنانچہ میں نے اپنا سر منڈوایا پھر ایک بکری کی قربانی دے دی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1860]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم: 1856، (تحفة الأشراف: 11114) (حسن)» (لیکن منقی کا ذکر منکر ہے صحیح روایت کھجور کی ہے)
قال الشيخ الألباني: حسن لكن ذكر الزبيب منكر والمحفوظ التمر كما في أحاديث العباس