ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر تاکیدی حکم دئیے رمضان کے قیام کی ترغیب دلاتے، پھر فرماتے: ”جس نے رمضان میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی طرح رہا، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع تک یہی معاملہ رہا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسی طرح عقیل، یونس اور ابواویس نے «من قام رمضان» کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے اور عقیل کی روایت میں «من صام رمضان وقامه» ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1371]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المسافرین 25 (759)، سنن الترمذی/الصوم 1 (683)، 83 (808)، سنن النسائی/قیام اللیل 3 (1604)، والصوم 39 (2002)، والإیمان 22 (2196)، 22 (5027)، (تحفة الأشراف:12277، 15270، 15248)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الإیمان 27 (37)، والصوم 6 (1901)، والتراویح 1 (2009)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 173 (1326)، موطا امام مالک/ الصلاة فی رمضان 1 (2)، مسند احمد (2/232، 241، 385، 473، 503)، سنن الدارمی/الصوم 54 (1817) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح ق لكن خ جعل قوله فتوفي رسول الله ... من كلام الزهري
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے روزے رمضان ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے، اور جس نے شب قدر میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے بھی پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوسلمہ سے اور محمد بن عمرو نے ابوسلمہ سے روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1372]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی تو آپ کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلی رات کو بھی پڑھی تو لوگوں کی تعداد بڑھ گئی پھر تیسری رات کو بھی لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے ہی نہیں، جب صبح ہوئی تو فرمایا: ”میں نے تمہارے عمل کو دیکھا، لیکن مجھے سوائے اس اندیشے کے کسی اور چیز نے نکلنے سے نہیں روکا کہ کہیں وہ تم پر فرض نہ کر دی جائے ۱؎“ اور یہ بات رمضان کی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1373]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأذان 80 (729)، والجمعة 29(924)، والتہجد 5 (1129)، والتراویح 1 (2011)، صحیح مسلم/المسافرین 25 (761)، سنن النسائی/ قیام اللیل 4 (1605)، (تحفة الأشراف:16594)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة في رمضان 1(1)، مسند احمد (6/169، 177) (صحیح)»
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ رمضان میں مسجد کے اندر الگ الگ نماز پڑھا کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا، میں نے آپ کے لیے چٹائی بچھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی، پھر آگے انہوں نے یہی واقعہ ذکر کیا، اس میں ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! اللہ کی قسم! میں نے بحمد اللہ یہ رات غفلت میں نہیں گذاری اور نہ ہی مجھ پر تمہارا یہاں ہونا مخفی رہا“۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1374]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:17747)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/267) (حسن صحیح)»
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپ نے مہینے کی کسی رات میں بھی ہمارے ساتھ قیام نہیں فرمایا یہاں تک کہ (مہینے کی) سات راتیں رہ گئیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام کیا یعنی تیئیسویں (۲۳) یا چوبیسویں (۲۴) رات کو یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی اور جب چھ راتیں رہ گئیں یعنی (۲۴) ویں یا (۲۵) ویں رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا، اس کے بعد (۲۵) ویں یا (۲۶) ویں رات کو جب کہ پانچ راتیں باقی رہ گئیں آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس رات کاش آپ اور زیادہ قیام فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی امام کے ساتھ نماز پڑھے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اس کو ساری رات کے قیام کا ثواب ملتا ہے“، پھر چھبیسویں (۲۶) یا ستائیسویں (۲۷) رات کو جب کہ چار راتیں باقی رہ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر قیام نہیں کیا، پھر ستائیسویں (۲۷) یا اٹھائیسویں (۲۸) رات کو جب کہ تین راتیں باقی رہ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں، اپنی عورتوں اور لوگوں کو اکٹھا کیا اور ہمارے ساتھ قیام کیا، یہاں تک کہ ہمیں خوف ہونے لگا کہ کہیں ہم سے فلاح چھوٹ نہ جائے، میں نے پوچھا: فلاح کیا ہے؟ ابوذر نے کہا: سحر کا کھانا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینے کی بقیہ راتوں میں قیام نہیں کیا ۱؎۔۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1375]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الصوم 81 (806)، سنن النسائی/السہو103 (1365)، قیام اللیل 4 (1606)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 173 (1327)، (تحفة الأشراف:11903)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/159، 163)، سنن الدارمی/ الصوم 54 (1818) (صحیح)»
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو جاگتے اور (عبادت کے لیے) کمربستہ ہو جاتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابویعفور کا نام عبدالرحمٰن بن عبید بن نسطاس ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1376]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک بار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو دیکھا کہ کچھ لوگ رمضان میں مسجد کے ایک گوشے میں نماز پڑھ رہے ہیں، آپ نے پوچھا: ”یہ کون لوگ ہیں؟“، لوگوں نے عرض کیا: یہ وہ لوگ ہیں جن کو قرآن یاد نہیں ہے، لہٰذا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے یہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: ”انہوں نے ٹھیک کیا اور ایک بہتر کام کیا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث قوی نہیں ہے اس لیے کہ مسلم بن خالد ضعیف ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1377]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:14094) (ضعیف)» (اس کے راوی مسلم متکلم فیہ ہیں، مولف نے ان کو ضعیف قرار دیا ہے)
زر کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا: ابومنذر! مجھے شب قدر کے بارے میں بتائیے؟ اس لیے کہ ہمارے شیخ یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: جو پورے سال قیام کرے اسے پا لے گا، ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمٰن پر رحم فرمائے، اللہ کی قسم! انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ رات رمضان میں ہے (مسدد نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے لیکن انہیں یہ ناپسند تھا کہ لوگ بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں یا ان کی خواہش تھی کہ لوگ بھروسہ نہ کر لیں، (آگے سلیمان بن حرب اور مسدد دونوں کی روایتوں میں اتفاق ہے) اللہ کی قسم! یہ رات رمضان میں ہے اور ستائیسویں رات ہے، اس سے باہر نہیں، میں نے پوچھا: اے ابومنذر! آپ کو یہ کیوں کر معلوم ہوا؟ انہوں نے جواب دیا: اس علامت سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بتائی تھی۔ (عاصم کہتے ہیں میں نے زر سے پوچھا: وہ علامت کیا تھی؟ جواب دیا: اس رات (کے بعد جو صبح ہوتی ہے اس میں) سورج طشت کی طرح نکلتا ہے، جب تک بلندی کو نہ پہنچ جائے، اس میں کرنیں نہیں ہوتیں۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1378]
عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بنی سلمہ کی مجلس میں تھا، اور ان میں سب سے چھوٹا تھا، لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے لیے شب قدر کے بارے میں کون پوچھے گا؟ یہ رمضان کی اکیسویں صبح کی بات ہے، تو میں نکلا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب پڑھی، پھر آپ کے گھر کے دروازے پر کھڑا ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اور فرمایا: ”اندر آ جاؤ“، میں اندر داخل ہو گیا، آپ کا شام کا کھانا آیا تو آپ نے مجھے دیکھا کہ میں کھانا تھوڑا ہونے کی وجہ سے کم کم کھا رہا ہوں، جب کھانے سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”مجھے میرا جوتا دو“، پھر آپ کھڑے ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لگتا ہے تمہیں مجھ سے کوئی کام ہے؟“، میں نے کہا: جی ہاں، مجھے قبیلہ بنی سلمہ کے کچھ لوگوں نے آپ کے پاس بھیجا ہے، وہ شب قدر کے سلسلے میں پوچھ رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”آج کون سی رات ہے؟“، میں نے کہا: بائیسویں رات، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی شب قدر ہے“، پھر لوٹے اور فرمایا: ”یا کل کی رات ہو گی“ آپ کی مراد تیئسویں رات تھی۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1379]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:5143)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الکبری/ الاعتکاف (3401، 3402)، مسند احمد (3/495) (حسن صحیح)»
عبداللہ بن انیس جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک غیر آباد جگہ پر میرا گھر ہے میں اسی میں رہتا ہوں اور بحمداللہ وہیں نماز پڑھتا ہوں، آپ مجھے کوئی ایسی رات بتا دیجئیے کہ میں اس میں اس مسجد میں آیا کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیئسویں شب کو آیا کرو“۔ محمد بن ابراہیم کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے پوچھا: تمہارے والد کیسے کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: جب عصر پڑھنی ہوتی تو مسجد میں داخل ہوئے پھر کسی کام سے باہر نہیں نکلتے یہاں تک کہ فجر پڑھ لیتے، پھر جب فجر پڑھ لیتے تو اپنی سواری مسجد کے دروازے پر پاتے اور اس پر بیٹھ کر اپنے بادیہ کو واپس آ جاتے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1380]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5145)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاعتکاف 6 (12)، (کلاھما نحوہ) (حسن صحیح)»