1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب القدر
کتاب: تقدیر کے مسائل
879. باب كيفية خلق الآدمي في بطن أمه وكتابة رزقه وأجله وعمله وشقاوته وسعادته
879. باب: شکم مادر میں تخلیق انسانی کی کیفیت اور اس کے رزق، عمر، اعمال، بد بختی اور نیک بختی کا لکھا جانا
حدیث نمبر: 1695
1695 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ الصَّادِق الْمَصْدُوقُ، قَالَ: إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَبْعَثُ اللهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ،وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ وَرِزْقَهُ وَأَجَلَهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجَنَّةَ إِلاَّ ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ كَتَابُهُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ وَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ إِلاَّ ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ
[اللؤلؤ والمرجان/كتاب القدر/حدیث: 1695]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 59 كتاب بدء الخلق: 6 باب ذكر الملائكة»

حدیث نمبر: 1696
1696 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ وَكَّلَ بِالرَّحِمِ مَلَكًا، يَقُولُ: يَا رَبِّ نُطْفَةٌ يا رَبِّ عَلَقَةٌ يَا رَبِّ مُضْغَةٌ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقْضِيَ خَلْقَهُ، قَالَ: أَذَكَرٌ أَمْ أُنْثى شَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ فَمَا الرِّزْقُ وَالأَجَلُ فَيُكْتَبُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رحم مادر میں اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر کیا ہے۔ وہ کہتا ہے اے رب! اب یہ نطفہ ہے، اے رب! اب یہ علقہ ہو گیا ہے، اے رب! اب یہ مضغہ ہو گیا ہے۔ پھر جب خدا چاہتا ہے کہ اس کی تخلیق مکمل کرے تو (وہ فرشتہ)کہتا ہے کہ مذکر ہے، یا مونث، بدبخت ہے یا نیک بخت، روزی کتنی مقدر ہے اور عمر کتنی؟ پس ماں کے پیٹ ہی میں یہ تمام باتیں فرشتہ لکھ دیتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القدر/حدیث: 1696]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 6 كتاب الحيض: 17 باب مخلقة وغير مخلقة»

حدیث نمبر: 1697
1697 صحيح حديث عَلِيٍّ رضي الله عنه، قَالَ: كُنَّا فِي جَنَازَةٍ، فِي بَقِيعِ الْغَرْقَدِ فَأَتَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَعَدَ وَقَعَدْنَا حَوْلَهُ، وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ، فَنَكَّسَ، فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِمِخْصَرَتِهِ ثُمَّ قَالَ: مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ، مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلاَّ كُتِبَ مَكَانُهَا مِنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، وَإِلاَّ قَدْ كُتِبَ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ أَفَلا نَتَّكِلُ عَلَى كِتَابِنَا، وَنَدَعُ الْعَمَلَ فَمَنْ كَانَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَّا مَنْ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ قَالَ: أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسِّرُونَ لَعَمَلِ السَّعَادَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاوَةِ فَبُيَسِّرُونَ لِعَمَلِ الشَّقَاوَةِ ثُمَّ قَرَأَ (فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى) الآية
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم بقیع غرقد میں ایک جنازے کے ساتھ تھے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھ گئے ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چھڑی تھی جس سے آپ زمین کریدنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسا نہیں یا کوئی جان ایسی نہیں جس کا ٹھکانا جنت اور دوزخ دونوں جگہ نہ لکھا گیا ہو اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہوگی یا بدبخت، اس پر ایک صحابی نے عرض کی: یا رسول اللہ! پھر کیوں نہ ہم اپنی تقدیر پر بھروسا کر لیں اور عمل چھوڑ دیں کیونکہ جس کا نام نیک دفتر میں لکھا ہے وہ ضرور نیک کام کی طرف رجوع ہوگا اور جس کا نام بدبختوں میں لکھا ہے وہ ضرور بدی کی طرف جائے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بات یہ ہے کہ جن کا نام نیک بختوں میںہے ان کو اچھے کام کرنے میں ہی آسانی معلوم ہوتی ہے اور بد بختوں کو برے کاموں میں آسانی نظر آتی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی فرمائی: جس نے اللہ کی راہ میں دیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور اچھے دین کو سچا مانا، اس کو ہم آسانی کے گھر یعنی بہشت میں پہنچنے کی توفیق دیں گے۔ (اللیل: ۵۔ ۷) [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القدر/حدیث: 1697]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 83 باب موعظة المحدث عند القبر وقعود أصحابه حوله»

حدیث نمبر: 1698
1698 صحيح حديث عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ أَيُعْرَفُ أَهْلُ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَلِمَ يَعْمَلُ الْعَامِلُونَ قَالَ: كُلٌّ يَعْمَلُ لِمَا خُلِقَ لَهُ، أَوْ لِمَا يُسِّرَ لَهُ
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے، کہ ایک صاحب نے (یعنی خود انہوں نے) عرض کیا یا رسول اللہ!کیا جنت کے لوگ اہل جہنم میں سے پہچانے جا چکے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ انہوں نے کہا کہ پھر عمل کرنے والے کیوں عمل کریں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر شخص وہی عمل کرتا ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے یا جس کے لئے اسے سہولت دی گئی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القدر/حدیث: 1698]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 82 كتاب القدر: 2 باب جف القلم على علم الله»

حدیث نمبر: 1699
1699 صحيح حديث سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رضي الله عنه، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ، فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ
حضرت سہل بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک آدمی زندگی بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے اور ایک آدمی بظاہر اہل دوزخ کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القدر/حدیث: 1699]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 77 باب لا يقول فلان شهيد»

880. باب حجاج آدم وموسى عليهما السلام
880. باب: حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مباحثہ
حدیث نمبر: 1700
1700 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسى فَقَالَ لَهُ مُوسى: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا، خَيَّبْتَنَا، وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ قَالَ لَهُ آدَمُ: يَا مُوسى اصْطَفَاكَ اللهُ بِكَلاَمِهِ، وَخَطَّ لَكَ بِيَدِهِ، أَتَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدَّرَ اللهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً فَحَجَّ آدَمُ مُوسى ثَلاَثًا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آدم اور موسیٰ رحمہ اللہ نے مباحثہ کیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے کہا آدم!آپ ہمارے باپ ہیں مگر آپ ہی نے ہمیں محروم کیا اور جنت سے نکالا۔ آدم علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا موسیٰ!آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہم کلامی کے لئے برگزیدہ کیا اور اپنے ہاتھ سے آپ کے لئے تورات کو لکھا۔ کیا آپ مجھے ایک ایسے کام پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا۔ آخر آدم علیہ السلام بحث میں موسیٰ علیہ السلام پر غالب آئے۔ تین مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ فرمایا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القدر/حدیث: 1700]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 82 كتاب القدر: 11 باب تحاج آدم وموسى عند الله»

881. باب قدِّر على ابن آدم حظه من الزنا وغيره
881. باب: ابن آدم کی تقدیر میں زنا وغیرہ کا کچھ نہ کچھ حصہ لکھ دیا گیا ہے
حدیث نمبر: 1701
1701 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللهَ كَتَبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَكَ ذَلِكَ، لاَ مَحَالَةَ فَزِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ، وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَمَنَّى وَتَشْتَهِي وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ وَيُكَذِّبُهُ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے معاملہ میں زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے جس سے وہ لامحالہ دوچار ہو گا، پس آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے، دل کا زنا یہ ہے کہ وہ خواہش اور آرزو کرتا ہے، پھر شرمگاہ اس خواہش کو سچا کرتی ہے یا جھٹلا دیتی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القدر/حدیث: 1701]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 79 كتاب الاستئذان: 12 باب زنا الجوارح دون الفرج»

882. باب معنى كل مولود يولد على الفطرة، وحكم موت أطفال الكفار وأطفال المسلمين
882. باب: ’’ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے‘‘ اس کا مفہوم اور کافروں اور مسلمانوں کی جو اولاد بچپن میں فوت ہو جاتی ہے ان کا بیان
حدیث نمبر: 1702
1702 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلاَّ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيرَةَ رضي الله عنه: (فِطْرَةَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لاَ تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ، ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک جانور ایک صحیح سالم جانور جنتا ہے کیا تم اس کا کوئی عضو (پیدائشی طور پر) کٹا ہوا دیکھتے ہو؟ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کی فطرت ہے جس پر لوگوں کو اس نے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں‘ یہی دین قیم ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القدر/حدیث: 1702]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 80 باب إذا أسلم الصبي فمات هل يصلى عليه»

حدیث نمبر: 1703
1703 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَرَارِيِّ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ: اللهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کے نا بالغ بچوں کے بارے میں پوچھا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے جو بھی وہ عمل کرنے والے ہوتے ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القدر/حدیث: 1703]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 93 باب ما قيل في أولاد المشركين»

حدیث نمبر: 1704
1704 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَوْلاَدِ الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ: اللهُ، إِذْ خَلَقَهُمْ، أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم سے مشرکوں کے نا بالغ بچوں کے بارے میں پوچھا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب انہیں پیدا کیا تھا اسی وقت وہ خوب جانتا تھا کہ یہ کیا عمل کریں گے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب القدر/حدیث: 1704]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 93 باب ما قيل في أولاد المشركين»