حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام کیا اور لوگوں کو بھی اس کی اجازت دے دی لیکن کچھ لوگوں نے اس کا نہ کرنا اچھا جانا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے خطبہ دیا اور اللہ کی حمد کے بعد فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو اس کام سے پرہیز کرتے ہیں جو میں کرتا ہوں، اللہ کی قسم! میں اللہ کو ان سب سے زیادہ جانتا ہوں اور ان سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1518]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 72 باب من لم يواجه الناس بالعتاب»
797. باب وجوب اتباعه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
797. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا واجب ہے
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک انصاری مرد نے زبیر رضی اللہ عنہ سے حرہ کے نالے میں جس کا پانی مدینے کے لوگ کھجور کے درختوں کو دیا کرتے تھے، اپنے جھگڑے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ انصاری زبیر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا پانی کو آگے جانے دو، لیکن زبیر رضی اللہ عنہ کو اس سے انکار تھا اور یہی جھگڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ (پہلے اپنا باغ) سینچ لے، پھر اپنے پڑوسی بھائی کے لیے جلدی جانے دے۔ اس پر انصاری رضی اللہ عنہ کو غصہ آگیا اور انھوں نے کہا: ہاں زبیر آپ کی پھوپھی کے لڑکے ہیں نا۔ بس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے زبیر! تم سیراب کر لو۔ پھر پانی کو اتنی دیر تک روکے رکھو کہ وہ منڈیروں تک چڑھ جائے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1519]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجهما البخاري في: 42 كتاب المساقاة: 6 باب سَكْر الأنهار»
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! میرا تو خیال ہے کہ یہ آیت اسی بات میں نازل ہوئی ہے ”ہرگز نہیں، تیرے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے، جب تک اپنے جھگڑوں میں تجھ کو حاکم نہ تسلیم کر لیں“۔ پھر تو جو فیصلے ان میں کر دے ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرماں برداری کے ساتھ قبول کر لیں۔ (النساء: ۶۵)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1520]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجهما البخاري في: 42 كتاب المساقاة: 6 باب سَكْر الأنهار»
798. باب توقيره صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وترك إِكثار سؤاله عما لا ضرورة إِليه أو لا يتعلق به تكليف، وما لا يقع، ونحو ذلك
798. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر اور آپ سے بہت زیادہ اور غیر ضروری اور نا ممکن قسم کے سوالات پوچھنے کی ممانعت
حضرت سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق پوچھا جو حرام نہیں تھی اور اس کے سوال کی وجہ سے حرام کر دی گئی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1521]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 96 كتاب الاعتصام: 3 باب ما يكره من كثرة السؤال وتكلف ما لا يعنيه»
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا خطبہ دیا کہ میں نے ویسا خطبہ کبھی نہیں سنا تھا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہوتا تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ بیان کیا کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ م نے اپنے چہرے چھپا لئے، باوجود ضبط کے ان کے رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ایک صحابی نے اس موقع پر پوچھا، میرے والد کون ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ”ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔“[اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1522]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 5 سورة المائدة: 12 باب لا تسألوا عن أشياء إن تبدلكم تسؤكم»
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کئے اور جب بہت زیادہ سوالات کئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگواری ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: آج تم مجھ سے جو بات بھی پوچھو گے میں بتاؤں گا۔ اس وقت میں نے دائیں بائیں دیکھا تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے کپڑوں میں سر لپیٹے ہوئے رو رہے تھے، ایک صاحب جن کا اگر کسی سے جھگڑا ہوتا تو انہیں ان کے باپ کے سوا کسی اور کی طرف (طعنہ کے طور پر) منسوب کیا جاتا تھا۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! میرے باپ کون ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حذافہ۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا: ہم اللہ سے راضی ہیں کہ وہ ہمارا رب ہے، اسلام سے کہ وہ دین ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ وہ سچے رسول ہیں، ہم فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کی طرح خیروشر کے معاملہ میں میں نے کوئی دن نہیں دیکھا، میرے سامنے جنت اور دوزخ کی تصویر لائی گئی اور میں نے انہیں دیوار کے اوپر دیکھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1523]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 80 كتاب الدعوات: 35 باب التعوذ من الفتن»
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا اور جب (اس قسم کے سوالات کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: (اچھا اب) مجھ سے جو چاہو پوچھو۔ تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا باپ سالم شیبہ کا آزاد کردہ غلام ہے۔ آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا حال دیکھا تو عرض کی: یا رسول اللہ! ہم (ان باتوں کے دریافت کرنے سے جو آپ کو ناگوار ہوں) اللہ عزوجل سے توبہ کرتے ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1524]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 3 كتاب العلم: 28 باب الغضب في الموعظة والتعليم إذا رأى ما يكره»
799. باب فضل النظر إليه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وتمنيه
799. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی فضیلت اور اس کی خواہش
حدیث نمبر: 1525
1525 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَلَيَأْتِيَنَّ عَلَى أَحَدِكُمْ زَمَانٌ لأَنْ يَرَانِي أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَهُ مِثْلُ أَهْلِهِ وَمَالِهِ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر ایک ایسا دور بھی آنے والا ہے کہ تم میں سے کوئی اپنے سارے گھر بار اور مال و دولت سے بڑھ کر مجھ کو دیکھ لینا زیادہ پسند کرے گا۔“[اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1525]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 61 كتاب المناقب: 25 باب علامات النبوة في الإسلام»
800. باب فضائل عيسىؑ
800. باب: حضرت عیسیٰؑ کے فضائل
حدیث نمبر: 1526
1526 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِابْنِ مَرْيَمَ، وَالأَنْبِيَاءُ أَوْلاَدُ عَلاَّتٍ، لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میں ابن مریمؑ سے دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ قریب ہوں، انبیاء علاتی بھائیوں کی طرح ہیں اور میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1526]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 48 باب واذكر في الكتاب مريم»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا کہ ہر ایک بنی آدم جب پیدا ہوتا ہے تو پیدائش کے وقت شیطان اسے چھوتا ہے اور بچہ شیطان کے چھونے سے زور سے چیختا ہے۔ سوائے مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کے۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (اس کی وجہ مریم [علیہا السلام کی والدہ کی یہ دعا ہے کہ اے اللہ!) میں اسے (مریم کو) اور اس کی اولاد کو شیطان رجیم سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔“[اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1527]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 44 باب قول الله تعالى واذكر في الكتاب مريم»