حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کئے اور جب بہت زیادہ سوالات کئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگواری ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: آج تم مجھ سے جو بات بھی پوچھو گے میں بتاؤں گا۔ اس وقت میں نے دائیں بائیں دیکھا تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے کپڑوں میں سر لپیٹے ہوئے رو رہے تھے، ایک صاحب جن کا اگر کسی سے جھگڑا ہوتا تو انہیں ان کے باپ کے سوا کسی اور کی طرف (طعنہ کے طور پر) منسوب کیا جاتا تھا۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! میرے باپ کون ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حذافہ۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا: ہم اللہ سے راضی ہیں کہ وہ ہمارا رب ہے، اسلام سے کہ وہ دین ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ وہ سچے رسول ہیں، ہم فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کی طرح خیروشر کے معاملہ میں میں نے کوئی دن نہیں دیکھا، میرے سامنے جنت اور دوزخ کی تصویر لائی گئی اور میں نے انہیں دیوار کے اوپر دیکھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1523]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 80 كتاب الدعوات: 35 باب التعوذ من الفتن»