1426 صحيح حديث رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: الْحُمَّى مِنْ فَوْحِ جَهَنَّمَ، فَابْرُدُوهَا بِالْمَاءِ
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا کہ بخار جہنم کی بھاپ میں سے ہے۔ پس اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1426]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 76 كتاب الطب: 28 باب الحمى من فيح جهنم»
748. باب كراهة التداوي باللدود
748. باب: مریض کے منہ میں زبردستی دوا ڈالنا مکروہ ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں ہم آپ کے منہ میں دوا دینے لگے تو آپ نے اشارہ سے دوا دینے سے منع کیا۔ ہم نے سمجھا کہ مریض کو دوا پینے سے (بعض اوقات) جو ناگواری ہوتی ہے یہ بھی اسی کا نتیجہ ہے (اس لیے ہم نے اصرار کیا) تو آپ نے فرمایا کہ گھر میں جتنے آدمی ہیں سب کے منہ میں میرے سامنے دوا ڈالی جائے۔ صرف عباس رضی اللہ عنہ س سے الگ ہیں کہ وہ تمہارے ساتھ اس کام میں شریک نہیں تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1427]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 83 باب مرض النبي صلی اللہ علیہ وسلم ووفاته»
749. باب التداوي بالعود الهندي وهو الكست
749. باب: عود ہندی (کست) کے ساتھ علاج کرنے کا بیان
حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اپنا چھوٹا بچہ لے کر آئیں۔ جو کھانا نہیں کھاتا تھا (یعنی شیر خوار تھا) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اس بچے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر کپڑے پر چھڑک دیا اور اسے نہیں دھویا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1428]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 4 كتاب الوضوء: 59 باب بول الصبيان»
حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اس عود ہندی (کست) کا استعمال کیا کرو کیونکہ اس میں سات بیماریوں کا علاج ہے۔ حلق کے درد میں اسے ناک میں ڈالا جاتا ہے، پسلی کے درد میں چبائی جاتی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1429]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 76 كتاب الطب: 10 باب السعوط بالقسط الهندي البحري وهو الكست»
750. باب التداوي بالحبة السوداء
750. باب: کالے دانے کے ساتھ علاج کا بیان
حدیث نمبر: 1430
1430 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، أَنَّه سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: فِي الْحَبَّةِ السَّوْدَاءِ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ، إِلاَّ السَّامَ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سیاہ دانوں (کلونجی) میں ہر بیماری سے شفا ہے سوائے موت کے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1430]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 76 كتاب الطب: 7 باب الحبة السوداء»
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا(کا یہ معمول تھا کہ) جب کسی گھر میں کسی کی وفات ہو جاتی اور اس کی وجہ سے عورتیں جمع ہوتیں اور پھر وہ چلی جاتیں۔ صرف گھر والے اور خاص خاص عورتیں رہ جاتیں تو آپ ہانڈی میں تلبینہ پکانے کا حکم دیتیں۔ وہ پکایا جاتا پھر ثرید بنایا جاتا اور تلبینہ اس پر ڈالا جاتا۔ پھر ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتیں کہ اسے کھاؤ کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ تلبینہ مریض کے دل کو تسکین دیتا ہے اور اس کا غم دور کرتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1431]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 70 كتاب الأطعمة: 24 باب التلبينة»
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرا بھائی پیٹ کی تکلیف میں مبتلا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے شہد پلا پھر دوسری مرتبہ وہی صحابی حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی شہد پلانے کے لئے کہا وہ پھر تیسری مرتبہ آیا اور عرض کیا کہ (حکم کے مطابق) میں نے عمل کیا (لیکن شفا نہیں ہوئی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سچا ہے اور تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے، انہیں پھر شہد پلا۔ چنانچہ انہوں نے شہد پھر پلایا اور اسی سے وہ تندرست ہو گیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1432]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 76 كتاب الطب: 4 باب الدواء بالعسل»
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طاعون ایک عذاب ہے جو پہلے بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بھیجا گیا تھا یا آپ نے یہ فرمایا کہ ایک گزشتہ امت پر بھیجا گیا تھا۔ اس لئے جب کسی جگہ کے متعلق تم سنو (کہ وہاں طاعون پھیلا ہوا ہے) تو وہاں نہ جاؤ لیکن اگر کسی ایسی جگہ یہ وبا پھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ اور ایک روایت میں ہے یعنی بھاگنے کے سوا اور کوئی غرض نہ ہو تو مت نکلو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1433]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 54 باب حدثنا أبو اليمان»
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام تشریف لے جا رہے تھے جب آپ مقام سرغ پر پہنچے تو آپ کی ملاقات فوجوں کے امراء حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ور آپ کے ساتھیوں سے ہوئی۔ ان لوگوں نے امیر المومنین کو بتایا کہ طاعون کی وبا شام میں پھوٹ پڑی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے پاس مہاجرین اولین کو بلا لاؤ۔ آپ انہیں بلا لائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے مشورہ کیا اور انہیں بتایا کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ مہاجرین اولین کی رائیں مختلف ہو گئیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی باقی ماندہ جماعت آپ کے ساتھ ہے اور یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ انہیں اس وبا میں ڈال دیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا اب آپ لوگ تشریف لے جائیں پھر فرمایا کہ انصار کو بلاؤ۔ میں انصار کو بلا کر لایا آپ نے ان سے بھی مشورہ کیا اور انہوں نے بھی مہاجرین کی طرح اختلاف کیا، کوئی کہنے لگا چلو، کوئی کہنے لگا لوٹ جاؤ۔ امیر المومنین نے فرمایا کہ اب آپ لوگ بھی تشریف لے جائیں پھر فرمایا کہ یہاں پر جو قریش کے بڑے بوڑھے ہیں جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کر کے مدینہ آئے تھے انہیں بلا لاؤ، میں انہیں بلا کر لایا۔ ان لوگوں میں کوئی اختلاف رائے پیدا نہیں ہوا سب نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ چلیں اور وبائی ملک میں لوگوں کو لے جا کر نہ ڈالیں۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کرا دیا کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہو کر واپس مدینہ منورہ لوٹ جاؤں گا تم لوگ بھی واپس چلو۔ صبح کو ایسا ہی ہوا توحضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے کہا کیا اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کیا جائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کاش! یہ بات کسی اور نے کہی ہوتی ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں، لیکن اللہ ہی کی تقدیر کی طرف۔ کیا تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم انہیں لے کر کسی ایسی وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں ایک سر سبز وشاداب اور دوسرا خشک۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اگر تم سر سبز کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہی ہو گا اور خشک کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہی ہو گا۔ بیان کیا کہ پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ گئے وہ اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس وقت موجود نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے پاس مسئلہ سے متعلق ایک ”علم “ ہے۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کسی سرزمین میں (وبا کے متعلق) سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب ایسی جگہ وبا آ جائے جہاں تم خود موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ راوی نے بیان کیا کہ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور پھر واپس ہو گئے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1434]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 76 كتاب الطب: 30 باب ما يذكر في الطاعون»
754. باب لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر ولا نوء ولا غول ولا يورد ممرض على مصح
754. باب: بیماری لگ جانا، اور بد شگونی، ہامہ اور صفراء و نواء اور غولی یہ سب لغو ہیں اور بیمار کو تندرست کے پاس نہ رکھیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امراض میں چھوت چھات، صفر اور الو کی نحوست کی کوئی اصل نہیں اس پر ایک اعرابی بولا: یا رسول اللہ!پھر میرے اونٹوں کو کیا ہو گیا کہ وہ جب تک ریگستان میں رہتے ہیں تو ہرنوں کی طرح (صاف اور خوب چکنے) رہتے ہیں، پھر ان میں ایک خارش والا اونٹ آ جاتا ہے اور ان میں گھس کر انہیں بھی خارش لگا جاتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا لیکن یہ بتاؤ کہ پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی تھی؟ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1435]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 76 كتاب الطب: 25 باب لا صفر وهو داء يأخذ البطن»