حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کے بیٹھنے کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ خود وہاں بیٹھ جائے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1406]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 79 كتاب الاستئذان: 31 باب لا يقيم الرجل الرجل من مجلسه»
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے تو میرے پاس ایک مخنث بیٹھا ہو اتھا، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ وہ عبداللہ بن امیہ سے کہہ رہا تھا کہ اے عبداللہ! دیکھو اگر کل اللہ تعالیٰ نے طائف کی فتح تمہیں عنایت فرمائی تو غیلان بن سلمہ کی بیٹی (بادیہ نامی) کو لے لینا وہ جب سامنے آتی ہے تو پیٹ پر چار بل اور پیٹھ موڑ کر جاتی ہے تو آٹھ بل دکھائی دیتے ہیں (یعنی بہت موٹی تازی عورت ہے)، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شخص اب تمہارے گھر میں نہ آیا کرے۔“[اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1407]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 56 باب غزوة الطائف في شوال سنة ثمان»
738. باب جواز إِرداف المرأة الأجنبية إِذا أعيت في الطريق
738. باب: اگر اجنبی عورت راہ میں تھک گئی ہو تو اس کو اپنے ساتھ سوار کر لینا درست ہے
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اونٹ اور ان کے گھوڑے کے سوا روئے زمین پر کوئی مال، کوئی غلام، کوئی چیز نہیں تھی۔ میں ہی ان کا گھوڑا چراتی، پانی پلاتی ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی۔ میں اچھی طرح روٹی نہیں پکا سکتی تھی۔ انصار کی کچھ لڑکیاں میری روٹی پکا جاتی تھیں۔ یہ بڑی سچی اور باوفا عورتیں تھیں۔ زبیر رضی اللہ عنہ کی وہ زمین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دی تھی، اس سے میں اپنے سر پر کھجور کی گٹھلیاں گھر لایا کرتی تھی۔ یہ زمین میرے گھر سے دو میل دور تھی۔ ایک روز میں آ رہی تھی اور گٹھلیاں میرے سر پر تھیں کہ راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قبیلہ انصار کے کئی آدمی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا۔ پھر (اپنے اونٹ کو بٹھانے کے لئے) کہا۔ اخ اخ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ مجھے اپنی سواری پر اپنے پیچھے سوار کر لیں لیکن مجھے مردوں کے ساتھ چلنے میں شرم آئی اور زبیر رضی اللہ عنہ کی غیرت کا بھی خیال آیا۔ زبیر رضی اللہ عنہ بڑے ہی با غیرت تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سمجھ گئے کہ میں شرم محسوس کر رہی ہوں۔ اس لئے آپ آگے بڑھ گئے۔ پھر میں زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور ان سے واقعہ کا ذکر کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہو گئی تھی، میرے سر پر گٹھلیاں تھیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چند صحابہ بھی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا اونٹ مجھے بٹھانے کے لئے بٹھایا لیکن مجھے اس سے شرم آئی اور تمہاری غیرت کا بھی خیال آیا۔ اس پر زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! مجھ کو تو اس سے بڑا رنج ہوا کہ تو گٹھلیاں لانے کے لئے نکلے اگر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہو جاتی تو اتنی غیرت کی بات نہ تھی (کیونکہ اسماء رضی اللہ عنہا آپ کی سالی اور بھاوج دونوں ہوتی تھیں) اس کے بعد میرے والد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک غلام میرے پاس بھیج دیا وہ گھوڑے کا سب کام کرنے لگا اور میں بےفکر ہو گئی گویا والد ماجد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (غلام بھیج کر) مجھ کو آزاد کر دیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1408]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 107 باب الغيرة»
739. باب مناجاة الاثنين دون الثالث بغير رضاه
739. باب: تین آدمی ہوں تو ان میں سے دو تیسرے کی رضا مندی کے بغیر سرگوشی نہ کریں
حدیث نمبر: 1409
1409 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ، قَالَ: إِذَا كَانُوا ثَلاَثَةً فَلاَ يَتَنَاجى اثْنَانِ دُونَ الثَّالِثِ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تین آدمی ساتھ ہوں تو تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر، دو آپس میں کانا پھوسی نہ کریں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1409]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 79 كتاب الاستئذان: 45 باب لا يتناجى اثنان دون الثالث»
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم تین آدمی ہو تو تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر تم آپس میں کانا پھونسی نہ کیا کرو۔ اس لئے لوگوں کو رنج ہو گا، البتہ اگر دوسرے آدمی بھی ہوں تو مضائقہ نہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1410]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 79 كتاب الاستئذان: 47 باب إذا كانوا أكثر من ثلاثة فلا بأس بالمسارة والمناجاة»
740. باب الطب والمرض والرقي
740. باب: علاج اور بیماری اور منتر کا بیان
حدیث نمبر: 1411
1411 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الْعَيْنُ حَقٌّ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نظر لگنا حق ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1411]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 76 كتاب الطب: 36 باب العين حق»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا گیا تھا اور اس کا آپ پر یہ اثر ہوا تھا کہ آپ کو خیال ہوتا کہ آپ نے ازواج مطہرات علیہ السلام میں سے کسی کے ساتھ ہم بستری کی ہے حالانکہ آپ نے کی نہیں ہوتی تھی۔ سفیان ثوری (سند کے ایک راوی) نے بیان کیا کہ یہ جادو کی سب سے سخت قسم ہے جب اس کا یہ اثر ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! تمہیں معلوم ہے اللہ تعالیٰ سے جو بات میں نے پوچھی تھی اس کا جواب اس نے کب کا دے دیا ہے۔ میرے پاس دو فرشتے آئے ایک میرے سر کے پاس کھڑا ہو گیا اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس۔ جو فرشتہ میرے سر کی طرف کھڑا تھا اس نے دوسرے سے کہا: ان صاحب کا کیا حال ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ ان پر جادو کر دیا گیا ہے۔ پوچھا کہ کس نے ان پر جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے یہ یہودیوں کے حلیف بنی زریق کا ایک شخص تھا اور منافق تھا۔ سوال کیا کہ کس چیز میں ان پر جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ کنگھے اور بال میں۔ پوچھا جادو ہے کہاں؟ جواب دیا کہ نر کھجور کے خوشے میں جو ذروان کے کنوئیں کے اندر رکھے ہوئے پتھر کے نیچے دفن ہے۔ بیان کیا کہ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کنوئیں پر تشریف لے گئے اور جادو اندر سے نکالا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی وہ کنواں ہے جو مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا اس کا پانی مہندی کے عرق جیسا رنگین تھا اور اس کے کھجور کے درختوں کے سر شیطانوں کے سروں جیسے تھے۔ بیان کیا کہ پھر وہ جادو کنویں میں سے نکالا گیا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ آپ نے اس جادو کا توڑ کیوں نہیں کرایا۔ فرمایا: ہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دی اب میں لوگوں میں ایک شور ہونا پسند نہیں کرتا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1412]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 76 كتاب الطب: 49 باب هل يستخرج السحر»
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زہر ملا ہوا بکری کاگوشت لائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کچھ کھایا(لیکن فوراً ہی فرمایا کہ اس میں زہر پڑا ہوا ہے) پھر جب اس عورت کو لایا گیا اور اس نے زہر ڈالنے کا اقرار بھی کر لیا تو کہا گیا: کیوں نہ اسے قتل کر دیا جائے؟ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہاکہ اس زہر کا اثر میں نے ہمیشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تالو میں محسوس کیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1413]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 51 كتاب الهبة: 28 باب قبول الهدية من المشركين»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کے پاس تشریف لے جاتے یا کوئی مریض آپ کے پاس لایا جاتا تو آپ یہ دعا فرماتے۔ اے پروردگار لوگوں کے! بیماری دور کر دے، اے انسانوں کے پالنے والے! شفا عطا فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیری شفا کے سوا اور کوئی شفا نہیں، ایسی شفا دے جس میں مرض بالکل باقی نہ رہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1414]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 75 كتاب المرضى: 20 باب دعاء العائد للمريض»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار پڑتے تو معوذات کی سورتیں پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے (اس طرح کہ ہوا کے ساتھ کچھ تھوک بھی نکلتا) پھر جب (مرض الموت میں) آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو میں ان سورتوں کو پڑھ کر برکت کی امید میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کو آپ کے جسد مبارک پر پھیرتی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1415]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 66 كتاب فضائل القرآن: 14 باب المعوذات»