عبد الرحمٰن بن زید کے آزاد کردہ غلام ثابت نے بتا یا کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " سوار پید ل کو سلام کرے، چلنے والا بیٹھے ہو ئے کو سلام کرے اور کم لو گ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوار، پیدل کو اور چلنے والا بیٹھے کو اور کم زیادہ کو سلام کریں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
2. باب مِنْ حَقِّ الْجُلُوسِ عَلَى الطَّرِيقِ رَدُّ السَّلاَمِ:
2. باب: راہ میں بیٹھنے کا حق یہ ہے کہ سلام کا جواب دے۔
اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ نے اپنے والد سے روایت کی، انھوں نے کہا کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم مکانوں کے سامنے کی کھلی جگہوں میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور ہمارے پاس کھڑے ہو گئے۔آپ نے فرمایا: " تمھا را راستوں کی خالی جگہوں پر مجلسوں سے کیا سروکار؟ راستوں کی مجا لس سے اجتناب کرو۔ "ہم ایسی باتوں کے لیے بیٹھے ہیں جن میں کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں، ہم ایک دوسرے سے گفتگو اور بات چیت کے لیے بیٹھے ہیں، آپ نے فرمایا: "اگر نہیں (رہ سکتے) تو ان (جگہوں) کے حق ادا کرو (جو یہ ہیں): آنکھ نیچی رکھنا، سلام کا جواب دینا اور اچھی گفتگو کرنا۔"
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ہم گھروں کے سامنے کے صحن میں بیٹھے گفتگو کر رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہمارے پاس آ کر ٹھہر گئے اور فرمایا: ”تم، راستوں پر مجالس کیوں قائم کرتے ہو؟ راستوں کی مجالس سے پرہیز کرو۔“ سو ہم نے عرض کیا، ہم کسی برے ارادے سے نہیں بیٹھتے، ہم باہمی مذاکرہ اور گفتگو کے لیے بیٹھے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم راستوں پر بیٹھنے سے بچ نہیں سکتے تو ان کا حق ادا کرو، نظر نیچی رکھو، سلام کا جواب دو اور اچھی گفتگو کرو۔“
حفص بن میسرہ نے زید بن اسلم سے، انھوں نے عطاء بن یسار سے، انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "راستوں میں بیٹھنے سے اجتنا ب کرو۔"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: اے اللہ کے رسول!!ہمارے لیے (را ستے کی) مجلسوں کے بغیر جن میں (بیٹھ کر) ہم باتیں کرتے ہیں، کوئی چارہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم مجا لس کے بغیر نہیں رہ ہو سکتے تو را ستے کا حق ادا کرو۔"لوگوں نے کہا: اس کا حق کیا ہے؟آپ نے فرمایا: "نگاہ نیچی رکھنا تکلیف دہ چیزوں کو (را ستے سے) ہٹانا، سلام کا جواب دینا، اچھا ئی کی تلقین کرنا اور بر ائی سے روکنا۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”راستوں پر بیٹھنے سے بچو۔“ صحابہ کرام نے گزارش کی، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے لیے ایسی مجالس کا ہونا ضروری ہے، جن میں ہم باہمی بات چیت کر سکیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہیں بیٹھنے پر اصرار ہے تو پھر راستہ کا حق ادا کرو“ انہوں نے پوچھا، اس کا حق کیا ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نظر نیچی رکھنا، تکلیف دینے سے باز رہنا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔“
یو نس نے ابن شہاب (زہری) سے انھوں نے ابن مسیب سے روایت کی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر پا نچ حق ہیں۔"نیز عبد الرزاق نے کہا: ہمیں معمر نے (ابن شہاب) زہری سے خبر دی، انھوں نے ابن مسیب سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: "ایک مسلمان کے لیے اس کے بھا ئی پر پانچ چیزیں واجب ہیں: سلام کا جواب دینا چھینک مارنے والے کے لیے رحمت کی دعا کرنا دعوت قبول کرنا، مریض کی عیادت کرنا اور جنازوں کے ساتھ جا نا۔"عبدالرزاق نے کہا: معمر اس حدیث (کی سند) میں ارسال کرتے تھے (تابعی اور صحابی کا نام ذکر نہیں کرتے تھے) اور کبھی اسے (سعید) بن مسیب اور آگے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی سند سے (متصل مرفوع) روایت کرتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔“
اسماعیل بن جعفر نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، روایت کی، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں۔"پوچھا گیا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کو ن سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اس سے ملو تو اس کو سلام کرو اور جب وہ تم کو دعوت دے تو قبول کرو اور جب وہ تم سے نصیحت طلب کرے تو اس کو نصیحت کرو، اور جب اسے چھینک آئے اور الحمدللہ کہے تو اس کے لیے رحمت کی دعاکرو۔جب وہ بیمار ہو جا ئے تو اس کی عیادت کرو اور جب وہ فوت ہو جا ئے تو اس کے پیچھے (جنازے میں) جاؤ۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں“ پوچھا گیا، وہ کون سے ہیں اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اسے ملو تو سلام کہو اور جب وہ تمہیں دعوت دے تو اسے قبول کرو اور جب وہ تم سے نصیحت کا طالب ہو تو اسے نصیحت کرو اور جب وہ چھینک کر الحمدللہ کہے تو اس کو یرحمک اللہ کہو اور جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرو اور جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازہ میں شریک ہو۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کو اہل کتاب سلام کریں تو تم اس کے جواب میں «وَعَلَیٌکُمْ» کہو۔“[صحيح مسلم/كِتَاب السَّلَامِ/حدیث: 5652]
شعبہ نے کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا، وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتےہو ئے حدیث بیان کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اہل کتاب ہمیں سلام کرتے ہیں۔ہم ان کو کیسے جواب دیں، آپ نے فرمایا: "تم لوگ "وعلیکم " (اور تم پر) کہو۔"
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اہل کتاب ہمیں سلام کہتے ہیں تو ہم انہیں کیسے جواب دیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کہو، وعلیکم
اسماعیل بن جعفر نے عبد اللہ بن دینار سے روایت کی، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب یہود تم کو سلام کرتے ہیں تو ان میں سے کوئی شخص (اَلسَامُ عَلَیکُم)(تم پر موت نازل ہو) کہتا ہے۔" (اس پر) تم (عَلَیکُم)(تجھ پر ہو) کہو۔"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود جب تمہیں سلام کہتے ہیں تو ان میں سے ایک کہتا ہے، تم پر موت آئے تو تم کہو، علیک۔
سفیان نے عبد اللہ بن دینار سے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے مانند روایت کی مگر اس میں ہے۔"تو تم پر کہو: "وعلیکم " (تم پرہو۔)
امام صاحب یہی روایت ایک اور استاد سے، اس فرق سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ”فقل عليك