623. باب: لوگ قریش کے تابع ہیں اور خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہیے
حدیث نمبر: 1193
1193 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: النَّاسُ تَبعٌ لِقُرَيْشٍ فِي هذَا الشَّأْنِ، مُسْلِمُهُمْ تَبَعٌ لِمُسْلِمِهِم، وَكَافِرُهُمْ تَبَعٌ لِكَافِرِهِمْ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس (خلافت کے) معاملے میں لوگ قریش کے تابع ہیں، عام مسلمان قریشی مسلمانوں کے تابع ہیں جس طرح ان کے عام کفار قریشی کفار کے تابع رہتے چلے آئے ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1193]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 61 كتاب المناقب: 1 باب قول الله تعالى (يا أيها الناس إنا خلقناكم من ذكر وأنثى»
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ خلافت اس وقت تک قریش کے ہاتھوں میں باقی رہے گی جب تک کہ ان میں دو آدمی بھی باقی رہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1194]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 61 كتاب المناقب: 2 باب مناقب قريش»
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا کہ (میری امت میں) بارہ امیر ہوں گے، پھر آپ نے کوئی ایسی ایک بات فرمائی جو میں نے نہیں سنی، بعد میں میرے والد نے بتایا کہ آپ نے یہ فرمایا کہ وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1195]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 93 كتاب الأحكام: 51 باب الاستخلاف»
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب زخمی ہوئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ اپنا خلیفہ کسی کو کیوں نہیں منتخب کر دیتے؟ آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کو خلیفہ منتخب کرتا ہوں (تو اس کی بھی مثال ہے کہ) اس شخص نے اپنا خلیفہ منتخب کیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے، یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ ور اگر میں اسے مسلمانوں کی رائے پر چھوڑتا ہوں تو (اس کی بھی مثال موجود ہے کہ) اس بزرگ نے (خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کے لئے) چھوڑ دیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پھر لوگوں نے آپ کی تعریف کی، پھر انہوں نے کہا کہ کوئی تو دل سے میری تعریف کرتا ہے کوئی ڈر کر۔ اب میں تو یہی غنیمت سمجھتا ہوں کہ خلافت کی ذمہ داریوں میں اللہ کے ہاں برابر برابر ہی چھوٹ جاؤں۔ نہ مجھے کچھ ثواب ملے اور نہ کوئی عذاب۔ میں نے خلافت کا بوجھ اپنی زندگی بھر اٹھایا۔ اب مرنے پر میں اس بار کو نہیں اٹھاؤں گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1196]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 93 كتاب الأحكام: 51 باب الاستخلاف»
حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبدالرحمان بن سمرہ!کبھی کسی حکومت کے عہدہ کی درخواست نہ کرنا کیونکہ اگر تمہیں یہ مانگنے کے بعد ملے گا تو اللہ پاک اپنی مدد تجھ سے اٹھا لے گا۔ تو جان، تیرا کام جانے اور اگر وہ عہدہ تمہیں بغیر مانگے مل گیا تو اس میں اللہ کی طرف سے تمہاری اعانت کی جائے گی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1197]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 83 كتاب الأيمان والنذور: 1 باب قول الله تعالى (لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم»
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا میرے ساتھ اشعر قبیلے کے دو شخص تھے۔ ایک میرے داہنے طرف تھا، دوسرا بائیں طرف۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے۔ دونوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خدمت کی درخواست کی، یعنی حکومت اور عہدے کی۔ آپ نے فرمایا: ابو موسیٰ یا عبداللہ بن قیس!(راوی کو شک ہے) میں نے اسی وقت عرض کیا: یا رسول اللہ!اس پروردگار کی قسم جس نے آپ کو سچا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ انہوں نے اپنے دل کی بات مجھ سے نہیں کہی تھی اور مجھ کو معلوم نہیں تھا کہ یہ دونوں شخص خدمت چاہتے ہیں۔ حضرت ابوموسیٰ کہتے ہیں جیسے میں اس وقت آپ کی مسواک کو دیکھ رہا ہوں وہ آپ کے ہونٹ کے نیچے اٹھی ہوئی تھی۔ آپ نے فرمایا جو کوئی ہم سے خدمت کی درخواست کرتا ہے ہم اس کو خدمت نہیں دیتے، لیکن ابو موسیٰ یا عبداللہ بن قیس!تو یمن کی حکومت پر جا (خیر ابوموسیٰ روانہ ہوئے) اس کے بعد آپ نے معاذ بن جبل کو بھی ان کے پیچھے روانہ کیا۔ جب معاذ رضی اللہ عنہ یمن میں ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان کے بیٹھنے کے لئے گدا بچھوایا اور کہنے لگے سواری سے اترئیے گدے پر بیٹھیے۔ اس وقت ان کے پاس ایک شخص تھا جس کی مشکیں کسی ہوئی تھیں۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ کون شخص ہے؟ انہوں نے کہا یہ یہودی تھا، پھر مسلمان ہوا اب پھر یہودی ہو گیا ہے اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ سواری سے اُتر کر بیٹھے تو۔ انہوں نے کہا میں نہیں بیٹھتا جب تک اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے موافق یہ قتل نہ کیا جائے گا تین بار یہی کہا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا وہ قتل کیا گیا۔ پھر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیٹھے۔ اب دونوں نے رات کی عبادت (تہجد گزاری) کا تذکرہ کیا۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا میں تو رات کو عبادت بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور مجھے امید ہے کہ سونے میں بھی مجھ کو وہی ثواب ملے گا جو نماز پڑھنے اور عبادت کرنے میں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1198]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 88 كتاب استتابة المرتدين: 2 باب حكم المرتد والمرتدة»
626. باب فضيلة الإمام العادل وعقوبة الجائر والحث على الرفق بالرعية والنهي عن إِدخال المشقة عليهم
626. باب: حاکم عادل کی فضیلت اور حاکم ظالم کی برائی اور رعیت کے ساتھ نرمی سے پیش آنا اور ان کو مشقت میں مبتلا کرنے کی ممانعت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اس کی رعایا کے بارے میں اس سے سوال ہو گا۔ پس لوگوں کا واقعی امیر ایک حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ دوسرے ہر آدمی اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ تیسری عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے۔ اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ چوتھا غلام اپنے آقا (سید) کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا، پس جان لو کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں (قیامت کے دن) پوچھ ہو گی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1199]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 49 كتاب العتق: 17 باب كراهية التطاول على الرقيق»
حسن بیان کرتے ہیں کہ عبید اللہ بن زیاد حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے اس مرض میں آئے جس میں ان کا انتقال ہوا، تو معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔ آپ نے فرمایا تھا، جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو کسی رعیت کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیر خواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1200]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 93 كتاب الأحكام: 8 باب من استُرعِى رعية فلم ينصح»
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور غلول (خیانت) کا ذکر فرمایا، اس جرم کی ہولناکی کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تم سے کسی کو بھی قیامت کے دن اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری لدی ہوئی ہو اور وہ چلا رہی ہو یا اس کی گردن پر گھوڑا لدا ہوا ہو اور وہ چلا رہا ہو اور وہ شخص مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمایئے۔ لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا، میں تو (خدا کا پیغام) تمہیں پہنچا چکا تھا۔ اور اس کی گردن پر اونٹ لدا ہوا ہو اور چلا رہا ہو، اور وہ شخص کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمائیں۔ لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا، میں تو خدا کا پیغام تمہیں پہنچا چکا ہوں، یا (وہ اس حال میں آئے کہ) وہ اپنی گردن پر سونا، چاندی، اسباب لادے ہوئے ہو اور مجھ سے کہے: یا رسول اللہ! میری مدد فرمایئے، لیکن میں اس سے یہ کہہ دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا، میں اللہ تعالیٰ کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1201]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 189 باب الغلول»
حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عامل مقرر کیا۔ عامل اپنے کام پورے کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ!یہ مال آپ کا ہے اور یہ مال مجھے تحفہ دیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم اپنے ماں باپ کے گھر ہی میں کیوں نہیں بیٹھے رہے اور پھر دیکھتے کہ تمہیں کوئی تحفہ دیتا ہے یا نہیں۔ اس کے بعد آپ خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے، رات کی نماز کے بعد اور کلمہ شہادت اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق ثنا کے بعد فرمایا: اما بعد!ایسے عامل کو کیا ہو گیا ہے کہ ہم اسے عامل بناتے ہیں۔ (جزیہ اور دوسرے ٹیکس وصول کرنے کے لئے) اور وہ پھر ہمارے پاس آ کر کہتا ہے کہ یہ تو آپ کا ٹیکس ہے اور یہ مجھے تحفہ دیا گیا ہے۔ پھر وہ اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہیں بیٹھا اور دیکھتا کہ اسے تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی بھی اس مال میں سے کچھ بھی خیانت کرے گا تو قیامت کے دن اسے اپنی گردن پر اٹھائے گا۔ اگر اونٹ کی اس نے خیانت کی ہو گی تو اس حال میں لے کر آئے گا کہ آواز نکل رہی ہو گی۔ اگر گائے کی خیانت کی ہو گی تو اس حال میں اسے لے کر آئے گا کہ گائے کی آواز آ رہی ہو گی۔ اگر بکری کی خیانت کی ہو گی تو اس حال میں آئے گا کہ بکری کی آواز آ رہی ہو گی۔ بس میں نے تم تک پہنچا دیا۔ حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اتنی اوپر اٹھایا کہ ہم آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھنے لگے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1202]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 83 كتاب الأيمان والنذور: 3 باب كيف كانت يمين النبي صلي الله عليه وسلم»