حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں باپ دادوں کی قسم کھانے سے منع کیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا واللہ!پھر میں نے ان کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ممانعت سننے کے بعد کبھی قسم نہیں کھائی نہ اپنی طرف سے غیر اللہ کی قسم کھائی نہ کسی دوسرے کی زبان سے نقل کی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأيمان/حدیث: 1066]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 83 كتاب الأيمان: 4 باب لا تحلفوا بآبائكم»
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے جو چند سواروں کے ساتھ تھے، اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ پنے والد کی قسم کھا رہے تھے۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکار کر کہا، آگاہ رہو، یقینا اللہ پاک تمہیں منع کرتا ہے کہ تم اپنے باپ داداؤں کی قسم کھاؤ، پس اگر کسی کو قسم ہی کھانی ہے تو وہ اللہ کی قسم کھائے، ورنہ چپ رہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأيمان/حدیث: 1067]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 74 باب من لم ير إكفار من قال ذلك متأولاً أو جاهلا»
546. باب من حلف باللات والعزى فليقل لا إله إلا الله
546. باب: جو لات و عزیٰ کی قسم کھائے اسے لا الہ الا اللہ پڑھنا چاہیے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص قسم کھائے اور کہے کہ قسم ہے لات اور عزیٰ کی تو اسے تجدید ایمان کے لیے کہنا چاہئے (لا الٰہ اللہ) اور جو شخص اپنے ساتھی سے یہ کہے کہ آؤ جوا کھیلیں تو اسے صدقہ دینا چاہئے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأيمان/حدیث: 1068]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 53 سورة والنجم: 2 باب أفرأيتم اللات العزى»
547. باب ندب من حلف يمينًا فرأى غيرها خيرًا منها أن يأتي الذي هو خير ويكفّر عن يمينه
547. باب: جو شخص کسی کام پر قسم کھائے پھر اس کے خلاف کو بہتر سمجھے تو اسی بہتر کو کرے اور قسم کا کفارہ ادا کرے
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے ساتھیوں نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے لیے سواری کے جانوروں کی درخواست کروں۔ وہ لوگ آپ کے ساتھ جیش عسرت (یعنی غزوۂ تبوک) میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میرے ساتھیوں نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ آپ ان کے لیے سواری کے جانوروں کا انتظام کرا دیں۔ آپ نے فرمایا، خدا کی قسم! میں تم کو سواری کے جانور نہیں دے سکتا۔ میں جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آپ غصہ میں تھے اور میں اسے معلوم نہ کر سکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار سے میں بہت غمگین واپس ہوا۔ یہ خوف بھی تھا کہ کہیں آپ سواری مانگنے کی وجہ سے خفا نہ ہو گئے ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی خبر دی، لیکن ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کی آواز سنی، وہ پکار رہے تھے، اے عبداللہ بن قیس! میں نے جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں بلا رہے ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایاکہ یہ دو جوڑے اور یہ دو جوڑے اونٹ کے لے جاؤ۔ آپ نے چھ اونٹ عنایت فرمائے۔ ان اونٹوں کو آپ نے اسی وقت سعد رضی اللہ عنہ سے خریدا تھا اور فرمایا کہ انہیں اپنے ساتھیوں کو دے دو اور انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے یا آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری سواری کے لیے انہیں دیا ہے، ان پر سوار ہو جاؤ۔ میں ان اونٹوں کو لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور ان سے میں نے کہا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری سواری کے لیے یہ عنایت فرمائے ہیں لیکن خدا کی قسم! کہ اب تمہیں ان صحابہ رضی اللہ عنہ م کے پاس چلنا پڑے گا، جنہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار فرمانا سنا تھا، کہیں تم یہ خیال نہ کر بیٹھو کہ میں نے تم سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے متعلق غلط بات کہہ دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری سچائی میں ہمیں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن اگر آپ کا اصرار ہے تو ہم ایسا بھی کر لیں گے۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ ن میں سے چند لوگوں کو لے کر ان صحابہ رضی اللہ عنہ م کے پاس آئے جنہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد سنا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو دینے سے انکار کیا تھا لیکن پھر عنایت فرمایا۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہ م نے بھی اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأيمان/حدیث: 1069]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 78 باب غزوة تبوك وهي غزوة العسرة»
حضرت زہدم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی مجلس میں حاضر تھے (کھانا لایا گیا اور) وہاں مرغی کا ذکر ہونے لگا۔ ”بنی تیم اللہ“ کے ایک سرخ رنگ والے آدمی وہاں موجود تھے۔ غالباً موالی میں سے تھے۔ انہیں بھی ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کھانے پر بلایا، وہ کہنے لگے کہ میں نے مرغی کو گندی چیزیں کھاتے ایک مرتبہ دیکھا تھا تو مجھے بڑی نفرت ہوئی اور میں نے قسم کھا لی کہ اب کبھی مرغی کا گوشت نہ کھاؤں گا۔ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قریب آ جاؤ، (تمہاری قسم پر) میں تم سے ایک حدیث اسی سلسلے کی بیان کرتا ہوں، قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کو ساتھ لے کر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (غزوۂ تبوک کے لئے) حاضر ہوا اور سواری کی درخواست کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہارے لئے سواری کا انتظام نہیں کر سکتا، کیونکہ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تمہاری سواری کے کام آ سکے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غنیمت کے کچھ اونٹ آئے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے متعلق دریافت فرمایا، اور فرمایا کہ قبیلہ اشعر کے لوگ کہاں ہیں؟ چنانچہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ اونٹ ہمیں دیئے جانے کاحکم صادر فرمایا، خوب موٹے تازے اور فربہ۔ جب ہم چلنے لگے تو ہم نے آپس میں کہا کہ جو نامناسب طریقہ ہم نے اختیار کیا اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عطیہ میں ہمارے لئے کوئی برکت نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ہم پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم نے پہلے جب آپ سے درخواست کی تھی تو آپ نے قسم کھا کر فرمایا تھا کہ میں تمہاری سواری کا انتظام نہیں کر سکوں گا۔ شاید آپ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو وہ قسم یاد نہ رہی ہو، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ میں نے تمہاری سواری کا انتظام واقعی نہیں کیا، وہ اللہ تعالیٰ ہے جس نے تمہیں یہ سواریاں دے دی ہیں۔ اللہ کی قسم! تم اس پر یقین رکھو کہ ان شاء اللہ جب بھی میں کوئی قسم کھاؤں، پھر مجھ پر یہ بات ظاہر ہو جائے کہ بہتر اور مناسب طرز عمل اس کے سوا میں ہے تو میں وہی کروں گا جس میں اچھائی ہو گی اور قسم کا کفارہ دے دوں گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأيمان/حدیث: 1070]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 57 كتاب فرض الخمس: 15 باب ومن الدليل على أن الخمس لنوائب المسلمين»
حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبدالرحمان بن سمرہ!کبھی کسی حکومت کے عہدہ کی درخواست نہ کرنا کیونکہ اگر تمہیں یہ مانگنے کے بعد ملے گا تو اللہ پاک اپنی مدد تجھ سے اٹھا لے گا۔ تو جان، تیرا کام جانے اور اگر وہ عہدہ تمہیں بغیر مانگے مل گیا تو اس میں اللہ کی طرف سے تمہاری اعانت کی جائے گی اور جب تم کوئی قسم کھا لو اور اس کے سوا کسی اور چیز میں بھلائی دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور وہ کام کرو جو بھلائی کا ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأيمان/حدیث: 1071]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 83 كتاب الأيمان والنذور: 1 باب قول الله تعالى (لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم»
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سلیمان بن داؤد علیہما السلام نے فرمایا کہ آج رات میں اپنی سو بیویوں کے پاس ہو آؤں گا (اور اس قربت کے نتیجہ میں) ہر عورت ایک لڑکا جنے گی تو سو لڑکے ایسے پیدا ہوں گے جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔ فرشتہ نے ان سے کہا کہ ان شاء اللہ کہہ لیجئے لیکن انہوں نے نہیں کہا اور بھول گئے۔ چنانچہ آپ تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک کے سوا کسی کے یہاں بھی بچہ پیدا نہ ہوا اور اس ایک کے یہاں بھی آدھا بچہ پیدا ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ ان شاء اللہ کہہ لیتے تو ان کی مراد بر آتی اور ان کی خواہش پوری ہونے کی امید زیادہ ہوتی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأيمان/حدیث: 1072]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 119 باب قول الرجل لأطوفن الليلة على نسائه»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلیمان بن داؤدu نے کہا کہ آج رات میں اپنی ستر بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی ایک شہسوار جنے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے گا۔ ان کے ساتھی نے کہا ان شاء اللہ ٗ لیکن انہوں نے نہیں کہا۔ چنانچہ کسی بیوی کے یہاں بھی بچہ پیدا نہیں ہوا ٗ صرف ایک کے یہاں ہوا اور اس کی بھی ایک جانب بیکار تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر حضرت سلیمانu ان شاء اللہ کہہ لیتے (تو سب کے یہاں بچے پیدا ہوتے) اور اللہ کے راستے میں جہاد کرتے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأيمان/حدیث: 1073]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الطلاق: 40 باب قول الله تعالى (ووهبنا لداود سليمان نعم العبد إنه أواب»
549. باب النهي عن الإصرار على اليمين فيما يتأذى به أهل الحالف مما ليس بحرام
549. باب: ایسی قسم پر اصرار کی ممانعت جس سے گھر والوں کا نقصان ہو بشرطیکہ وہ کام حرام نہ ہو
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ہم آخری امت ہیں اور قیامت کے دن جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واللہ (بعض اوقات) اپنے گھر والوں کے معاملہ میں تمہارا اپنی قسموں پر اصرار کرتے رہنا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ گناہ کی بات ہوتی ہے کہ (قسم توڑ کر) اس کا وہ کفارہ ادا کر دیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر فرض کیا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأيمان/حدیث: 1074]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 83 كتاب الأيمان والنذور: 1 باب قول الله تعالى (لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم»
550. باب نذر الكافر وما يفعل فيه إِذا أسلم
550. باب: کافر کفر کی حالت میں کوئی نذر مانے پھر مسلمان ہو جائے تو کیا کرے؟
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! زمانہ جاہلیت (کفر) میں میں نے ایک دن کے اعتکاف کی منت مانی تھی، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پورا کرنے کا حکم فرمایا۔ ابن عمر نے بیان کیا کہ حنین کے قیدیوں میں سے عمر رضی اللہ عنہ کو دو باندیاں ملی تھیں۔ تو آپ نے انہیں مکہ کے کسی گھر میں رکھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے قیدیوں پر احسان کیا (اور سب کو مفت آزاد کر دیا) تو گلیوں میں وہ دوڑنے لگے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: عبداللہ! دیکھو تو یہ کیا معاملہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر احسان کیا ہے (اور حنین کے تمام قیدی مفت آزاد کر دیئے گئے ہیں) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر جا ان دونوں لڑکیوں کو بھی آزاد کر دو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأيمان/حدیث: 1075]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 57 كتاب فرض الخمس: 19 باب ما كان النبي صلی اللہ علیہ وسلم يعطي المؤلفة قلوبهم»