1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الأيمان
کتاب: قسموں کے مسائل
547. باب ندب من حلف يمينًا فرأى غيرها خيرًا منها أن يأتي الذي هو خير ويكفّر عن يمينه
547. باب: جو شخص کسی کام پر قسم کھائے پھر اس کے خلاف کو بہتر سمجھے تو اسی بہتر کو کرے اور قسم کا کفارہ ادا کرے
حدیث نمبر: 1070
1070 صحيح حديث أَبِي مُوسى عَنْ زَهْدَمٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسى فَأُتِيَ ذَكَرَ دَجَاجَةً، وَعِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللهِ أَحْمَرُ، كَأَنَّهُ مِنَ الْمَوَالِي، فَدَعَاهُ لِلطَّعَام، فَقَال: إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأَكُل شَيْئًا فَقَذِرْتُهُ؛ فَحَلَفْتُ لاَ آكلُ فَقَالَ: هَلُمَّ فَلأُحَدِّثْكُمْ عَنْ ذَاك إِنِّي أَتَيْتُ النَبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنَ الأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلهُ، فَقَالَ: وَاللهِ لاَ أَحْمِلُكمْ، وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ وَأُتِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبِ إِبِلٍ، فَسَأَلَ عَنَّا، فَقَالَ: أَيْنَ النَّفَرُ الأَشْعَرِيُّونَ فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ، غُرِّ الذُّرَى، فَلَمَّا انْطَلَقْنَا قلْنَا: مَا صَنَعْنَا لاَ يُبَارَكُ لَنَا فَرَجَعْنَا إِلَيْهِ، فَقُلْنَا: إِنَّا سَأَلْنَاكَ أَنْ تَحْمِلَنَا فَحَلَفْتَ أَنْ لاَ تَحْمِلَنَا، أَفَنَسِيتَ قَالَ: لَسْتُ أَنَا حَمَلْتُكُمْ، وَلكِنَّ اللهَ حَمَلَكُمْ، وَإِنِّي وَاللهِ إِنْ شَاءَ اللهُ، لاَ أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا إِلاَّ أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، وَتَحَلَّلْتُهَا
حضرت زہدم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی مجلس میں حاضر تھے (کھانا لایا گیا اور) وہاں مرغی کا ذکر ہونے لگا۔ بنی تیم اللہ کے ایک سرخ رنگ والے آدمی وہاں موجود تھے۔ غالباً موالی میں سے تھے۔ انہیں بھی ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کھانے پر بلایا، وہ کہنے لگے کہ میں نے مرغی کو گندی چیزیں کھاتے ایک مرتبہ دیکھا تھا تو مجھے بڑی نفرت ہوئی اور میں نے قسم کھا لی کہ اب کبھی مرغی کا گوشت نہ کھاؤں گا۔ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قریب آ جاؤ، (تمہاری قسم پر) میں تم سے ایک حدیث اسی سلسلے کی بیان کرتا ہوں، قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کو ساتھ لے کر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (غزوۂ تبوک کے لئے) حاضر ہوا اور سواری کی درخواست کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہارے لئے سواری کا انتظام نہیں کر سکتا، کیونکہ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تمہاری سواری کے کام آ سکے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غنیمت کے کچھ اونٹ آئے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے متعلق دریافت فرمایا، اور فرمایا کہ قبیلہ اشعر کے لوگ کہاں ہیں؟ چنانچہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ اونٹ ہمیں دیئے جانے کاحکم صادر فرمایا، خوب موٹے تازے اور فربہ۔ جب ہم چلنے لگے تو ہم نے آپس میں کہا کہ جو نامناسب طریقہ ہم نے اختیار کیا اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عطیہ میں ہمارے لئے کوئی برکت نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ہم پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم نے پہلے جب آپ سے درخواست کی تھی تو آپ نے قسم کھا کر فرمایا تھا کہ میں تمہاری سواری کا انتظام نہیں کر سکوں گا۔ شاید آپ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو وہ قسم یاد نہ رہی ہو، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ میں نے تمہاری سواری کا انتظام واقعی نہیں کیا، وہ اللہ تعالیٰ ہے جس نے تمہیں یہ سواریاں دے دی ہیں۔ اللہ کی قسم! تم اس پر یقین رکھو کہ ان شاء اللہ جب بھی میں کوئی قسم کھاؤں، پھر مجھ پر یہ بات ظاہر ہو جائے کہ بہتر اور مناسب طرز عمل اس کے سوا میں ہے تو میں وہی کروں گا جس میں اچھائی ہو گی اور قسم کا کفارہ دے دوں گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأيمان/حدیث: 1070]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 57 كتاب فرض الخمس: 15 باب ومن الدليل على أن الخمس لنوائب المسلمين»