1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب المساقاة
کتاب: مساقات کے مسائل
503. باب المساقاة والمعاملة بجزء من الثمر والزرع
503. باب: کچھ پھل اور فصل پر مساقات کرنا
حدیث نمبر: 999
999 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ، فَكَانَ يُعْطِي أَزْوَاجَهُ مِائَةَ وَسْقٍ: ثَمَانُونَ وَسْقَ تَمْرٍ، وَعِشْرُونَ وَسْقَ شَعِيرٍ؛ فَقَسَمَ عُمَرُ خَيْبَرَ فَخَيَّرَ أَزْوَاجَ النَبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْطِعَ لَهُنَّ مِنَ الْمَاءِ وَالأَرْضِ أَوْ يُمْضِيَ لَهُنَّ، فَمِنْهُنَّ مَنِ اخْتَارَ الأَرْضَ وَمِنْهُنَّ مَنِ اخْتَارَ الْوَسْقَ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ اخْتَارَتِ الأَرْضَ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (خیبر کے یہودیوں سے) وہاں(کی زمین میں) پھل کھیتی اور جو بھی پیداوار ہو، اس کے آدھے حصے پر معاملہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنی بیویوں کو سو وسق دیتے تھے۔ جس میں اسی وسق کھجور ہوتی اور بیس وسق جو، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (اپنے عہدِ خلافت میں) جب خیبر کی زمین تقسیم کی تو ازواجِ مطہرات کو آپ نے اس کا اختیار دیا کہ (اگر وہ چاہیں تو) انھیں بھی وہاں کا پانی اور قطعہ زمین دے دیا جائے یا وہی پہلی صورت باقی رکھی جائے۔ چنانچہ بعض نے زمین لینا پسند کی اور بعض نے (پیداوار سے) وسق لینا پسند کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے زمین ہی لینا پسند کی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 999]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 41 كتاب المزارعة: 8 باب المزارعة بالشطر ونحوه»

حدیث نمبر: 1000
1000 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه، أَجْلَى الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا ظَهَرَ عَلَى خَيْبَرَ أَرَادَ إِخْرَاجَ الْيَهُودِ مِنْهَا، وَكَانَتِ الأَرْضُ حِينَ ظَهَرَ عَلَيْهَا للهِ وَلِرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِلْمُسْلِمِينَ، وَأَرَادَ إِخْرَاجَ الْيَهُودِ مِنْهَا، فَسَأَلَتِ الْيَهُودُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُقِرَّهُمْ بِهَا أَنْ يَكْفُوا عَمَلَهَا وَلَهمْ نِصْفُ الثَّمَرِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نُقِرُّكُمْ بِهَا عَلَى ذَلِكَ مَا شِئْنَا فَقَرُّوا بِهَا حَتَّى أَجْلاَهُمْ عُمَرُ إِلَى تَيْمَاءَ وَأَرِيحَاءَ
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہودیوں اور عیسائیوں کو سرزمینِ حجازسے نکال دیا تھا اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر فتح پائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہودیوں کو وہاں سے نکالنا چاہا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں فتح حاصل ہوئی تو اس کی زمین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی ہو گئی تھی۔ آپ کا ارادہ یہودیوں کو وہاں سے باہر کرنے کا تھا، لیکن یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہیں رہنے دیں۔ ہم (خیبر کی اراضی کا) سارا کام خود کریں گے اور اس کی پیداوار کا نصف حصہ لے لیں گے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا جب تک ہم چاہیں تمھیں اس شرط پر یہاں رہنے دیں گے۔ چنانچہ وہ لوگ وہیں رہے اور پھرعمر رضی اللہ عنہ نے انھیں تیما اور اریحا کی طرف جلا وطن کر دیا۔ (کیونکہ وہ ہر وقت مسلمانوں کے خلاف خفیہ سازشیں کیا کرتے تھے) [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1000]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 41 كتاب المزارعة: 17 باب إذا قال ربّ الأرض أقرك ما أقرك الله»

504. باب فضل الغرس والزرع
504. باب: درخت لگانے اور کھیتی کرنے کی فضیلت
حدیث نمبر: 1001
1001 صحيح حديث أَنَسٍ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلاَّ كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیت میں بیج بوئے،پھر اس میں سے پرندیا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں، وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1001]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 41 كتاب المزارعة: 1 باب فضل الزرع والغرس إذا أُكِل منه»

505. باب وضع الجوائح
505. باب: آفت سے جو نقصان ہو، اس کو مجرا دینا
حدیث نمبر: 1002
1002 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَهى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تُزْهِيَ، فَقِيلَ لَهُ: وَمَا تُزْهِيَ قَالَ: حَتَّى تَحْمَرَّ؛ فَقَالَ: أَرأَيْتَ إِذَا مَنَعَ اللهُ الثَّمَرَةَ بِمَ يَأْخُذُ أَحَدُكُمْ مَالَ أَخِيهِ
سیّدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کو زہو سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ زہو کسے کہتے ہیں؟ تو جواب دیا کہ سرخ ہونے کو۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ہی بتاؤ، اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھلوں پر کوئی آفت آجائے تو تم اپنے بھائی کا مال آخر کس چیز کے بدلے لو گے؟ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1002]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 87 باب إذا باع الثمار قبل أن يبدو صلاحها»

506. استحباب الوضع من الدين
506. باب: قرض سے کچھ معاف کر دینا مستحب ہے، اگر قرض دار کو تکلیف ہو
حدیث نمبر: 1003
1003 صحيح حديث عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَ خُصُومٍ بِالْبَابِ عَالِيَةٍ أَصْوَاتُهُمَا، وَإِذَا أَحَدُهُمَا يَسْتَوْضِعُ الآخَرَ وَيَسْتَرْفِقُهُ فِي شيْءٍ، وَهُوَ يَقُولُ: وَاللهِ لاَ أَفْعَلُ فَخَرَجَ عَلَيْهِمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيْنَ الْمُتَأَلِّي عَلَى اللهِ لاَ يَفْعَلُ الْمَعْرُوفَ فَقَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللهِ وَلَهُ أَيُّ ذَلِكَ أَحَبَّ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے پر دو جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی جو بلند ہو گئی تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے سے قرض میں کچھ کمی کرنے اور تقاضے میں کچھ نرمی برتنے کے لیے کہہ رہا تھا اور دوسرا کہتا تھا کہ اللہ کی قسم! میں یہ نہیں کروںگا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور فرمایا کہ اس بات پر اللہ کی قسم کھانے والے صاحب کہاں ہیں؟ کہ وہ ایک اچھا کام نہیں کریں گے۔ ان صحابی نے عرض کی: میں ہی ہوں یارسول اللہ! اب میرا بھائی جو چاہتا ہے وہی مجھ کو بھی پسند ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1003]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 53 كتاب الصلح: 10 باب هل يشير الإمام بالصلح»

حدیث نمبر: 1004
1004 صحيح حديث كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ تَقَاضَى ابْنَ أَبِي حَدْرَدٍ دَيْنًا كَانَ لَهُ عَلَيْهِ فِي الْمَسْجِدِ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا حَتَّى سَمِعَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمَا حَتَّى كَشَفَ سِجْفَ حُجْرَتِهِ، فَنَادَى يَا كَعْبُ قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: ضَعْ مِنْ دَيْنِكَ هذَا وَأَوْمَأَ إِلَيْهِ، أَيِ الشَّطْرَ، قَالَ: لَقَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: قُمْ فَاقْضِهِ
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں عبداللہ بن ابی حدرد سے اپنے قرض کا تقاضا کیا اور دونوں کی گفتگو بلند آواز سے ہونے لگی۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے حجرے سے سن لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ ہٹا کر باہر تشریف لائے اور پکارا: اے کعب! کعب (رضی اللہ عنہ) بولے، جی اے اللہ کے رسول! فرمایئے کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے قرض میں سے اتنا کم کردو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ تھا کہ آدھا کم کر دیں۔ انھوں نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے (بخوشی) ایسا کر دیا۔ پھر آپ نے ابن ابی حدرد سے فرمایا: اچھا اب اٹھو اور اس کا قرض ادا کرو۔ (جو آدھا معاف کر دیا گیا ہے۔) [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1004]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 71 باب التقاضي والملازمة في المسجد»

507. باب من أدرك ما باعه عند المشتري وقد أفلس فله الرجوع فيه
507. باب: اگر خریدار مفلس ہو جائے اور بائع مشتری کے پاس اپنی چیز بعینہ پائے تو واپس لے سکتا ہے
حدیث نمبر: 1005
1005 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (أَوْ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ): مَنْ أَدْرَكَ مَالَهُ بِعَيْنِهِ عِنْدَ رَجُلٍ أَوْ إِنْسَانٍ قَدْ أَفْلَسَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ غَيْرِهِ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا) جو شخص ہو بہو اپنا مال کسی شخص کے پاس پا لے جب کہ وہ شخص دیوالیہ قرار دیا جا چکا ہے تو صاحبِ مال ہی اس کا دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مستحق ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1005]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 43 كتاب الاستقراض: 14 باب إذا وجد ماله عند مفلس»

508. باب فضل إنظار المعسر
508. باب: مفلس کو مہلت دینے کی فضیلت
حدیث نمبر: 1006
1006 صحيح حديث حُذَيْفَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَلَقَّتِ الْمَلاَئِكَةُ رُوحَ رَجُلٍ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، قَالُوا أَعَمِلْتَ مِنَ الْخَيْرِ شَيْئًا، قَالَ: كُنْتُ آمُرُ فِتْيَانِي أَنْ يُنْظِرُوا وَيَتَجَاوَزُوا عَنِ الْمُوسِرِ، قَالَ: قَالَ فَتَجَاوَزُوا عَنْهُ
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے گزشتہ امتوں کے کسی شخص کی روح کے پاس (موت کے وقت) فرشتے آئے اور پوچھا کہ تو نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں؟ روح نے جواب دیا کہ میں اپنے نوکروں سے کہا کرتا تھا کہ وہ مالدار لوگوں کو (جو ان کے مقروض ہوں) مہلت دے دیا کریں اور ان پر سختی نہ کریں اور محتاجوں کو معاف کر دیا کریں۔ راوی نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر فرشتوں نے بھی اس سے درگزر کیا اور سختی نہیں کی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1006]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 17 باب من أنظر موسرًا»

حدیث نمبر: 1007
1007 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كَانَ تَاجِرٌ يُدَايِنُ النَّاسَ، فَإِذَا رَأَى مُعْسِرًا قَالَ لِفِتْيانِهِ تَجَاوَزُوا عَنْهُ، لَعَلَّ اللهَ أَنْ يَتَجَاوَزَ عَنَّا، فَتَجَاوَزَ اللهُ عَنْهُ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا۔ جب کسی تنگ دست کو دیکھتا تو اپنے نوکروں سے کہہ دیتا کہ اس سے درگزر کر جاؤ۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ بھی ہم سے (آخرت میں) درگزر فرمائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے (اس کے مرنے کے بعد) اس کو بخش دیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1007]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 18 باب من أنظر معسرًا»

509. باب تحريم مطل الغنيّ وصحة الحوالة واستحباب قبولها إِذا أحيل على ملىّ
509. باب: جو شخص مالدار ہو، اس کو قرض ادا کرنے میں دیر کرنا حرام ہے اور جب قرض مالدار کو منتقل کیا جائے تو قرض خواہ کے لیے اس کا قبول کرنا مستحب ہے
حدیث نمبر: 1008
1008 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، فَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتَّبِعْ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(قرض ادا کرنے میں) مال دار کی طرف سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور اگر تم میں سے کسی کا قرض کسی مالدار پر حوالہ دیا جائے تو اسے قبول کرے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1008]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 38 كتاب الحوالة: 1 باب في الحوالة وهل يرجع في الحوالة»


1    2    3    4    5    Next