1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب المساقاة
کتاب: مساقات کے مسائل
507. باب من أدرك ما باعه عند المشتري وقد أفلس فله الرجوع فيه
507. باب: اگر خریدار مفلس ہو جائے اور بائع مشتری کے پاس اپنی چیز بعینہ پائے تو واپس لے سکتا ہے
حدیث نمبر: 1005
1005 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (أَوْ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ): مَنْ أَدْرَكَ مَالَهُ بِعَيْنِهِ عِنْدَ رَجُلٍ أَوْ إِنْسَانٍ قَدْ أَفْلَسَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ غَيْرِهِ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا) جو شخص ہو بہو اپنا مال کسی شخص کے پاس پا لے جب کہ وہ شخص دیوالیہ قرار دیا جا چکا ہے تو صاحبِ مال ہی اس کا دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مستحق ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1005]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 43 كتاب الاستقراض: 14 باب إذا وجد ماله عند مفلس»

وضاحت: حدیث اپنے مضمون میں واضح ہے کہ جب کسی شخص نے کسی شخص سے کوئی چیز خریدی اور اس پر قبضہ بھی کر لیا لیکن قیمت ادا نہیں کی تھی کہ وہ دیوالیہ ہو گیا۔ پس اگر وہ اصل سامان اس کے پاس موجود ہے تو اس کا مستحق بیچنے والا ہی ہو گا اور دوسرے قرض خواہوں کا اس میں کوئی حق نہ ہو گا۔ (راز)