عطاء نے بیان کیا کہ سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ۴ذی الحجہ کی صبح کو آئے اور جب ہم بھی حاضر ہوئے تو آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حلال ہو جائیں۔ اور آپ نے فرمایا کہ حلال ہو جاؤ اور اپنی بیویوں کے پاس جاؤ، عطاء نے بیان کیا کہ سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر یہ ضروری نہیں قرار دیا بلکہ صرف حلال کیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ ”ہم میں یہ بات ہو رہی ہے کہ عرفہ پہنچنے میں صرف پانچ دن رہ گئے ہیں۔ اور پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی عورتوں کے پاس جانے کا حکم دیا ہے۔ کیا ہم عرفات اس حالت میں جائیں کہ مذی یا منی ہمارے ذکر سے ٹپک رہی ہو۔“ عطاء نے کہا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ کو ہلاتے ہوئے اشارہ کیا کہ اس طرح مذی ٹپک رہی ہو۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”تمہیں معلوم ہے کہ میں تم میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں، تم میں سب سے زیادہ سچا ہوں اور سب سے زیادہ نیک ہوں۔ اگر میرے پاس ہدی (قربانی کا جانور) نہ ہوتا تو میں بھی حلال ہو جاتا۔ پس تم بھی حلال ہو جاؤ۔ اگر مجھے وہ بات پہلے سے معلوم ہو جاتی جو بعد میں معلوم ہوئی تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا۔“ چنانچہ ہم حلال ہوگئے اور ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی اور آپ کی اطاعت کی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 761]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 96 كتاب الاعتصام: 17 باب نهى النبي صلی اللہ علیہ وسلم على التحريم، إلا ما تعرف إباحته»
سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے (جب وہ یمن سے مکہ آئے) فرمایا تھا کہ وہ اپنے احرام پر باقی رہیں سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا سیّدنا علی رضی اللہ عنہ پنی ولایت (یمن) سے آئے تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا علی تم نے احرام کس طرح باندھا ہے؟ عرض کیا جس طرح احرام آپ نے باندھا ہو فرمایا پھر قربانی کا جانور بھیج دو اور جس طرح احرام باندھا ہے اسی کے مطابق عمل کرو (سیّدنا جابر نے) کہا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قربانی کے جانور لائے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 762]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازى: 61 باب بعث علي ابن أبي طالب عليه السلام وخالد بن الوليد رضى الله عنه إلى اليمن قبل حجة الوداع»
سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے حج کا احرام باندھا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے سوا اور کسی کے ساتھ قربانی نہیں تھی ان ہی دنوں میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ یمن سے آئے تو ان کے ساتھ بھی قربانی تھی انہوں نے کہا کہ جس چیز کا احرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے میرا بھی احرام وہی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو (مکہ میں پہنچ کر) اس کی اجازت دی تھی کہ اپنے حج کو عمرہ میں تبدیل کریں اور بیت اللہ کا طواف (اور صفا مروہ کی سعی) کر کے بال ترشوا لیں اور احرام کھول دیں لیکن وہ لوگ ایسا نہ کریں جن کے ساتھ قربانی ہو اس پر لوگوں نے کہا کہ ہم منی سے حج کے لئے اس طرح سے جائیں گے کہ ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا جو بات اب ہوئی اگر پہلے سے معلوم ہوتی تو میں اپنے ساتھ ہدی نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو (افعال عمرہ ادا کرنے کے بعد) میں بھی احرام کھول دیتا سیدہ عائشہ (اس حج میں) حائضہ ہو گئی تھیں اس لئے انہوں نے اگرچہ تمام مناسک ادا کئے لیکن بیت اللہ کا طواف نہیں کیا پھر جب وہ پاک ہو گئیں اور طواف کر لیا تو عرض کی یا رسول اللہ سب لوگ حج اور عمرہ دونوں کر کے واپس ہو رہے ہیں لیکن میں صرف حج کر سکی ہوں آپ نے اس پر عبدالرحمن بن ابی بکر سے کہا کہ انہیں ہمراہ لے کر تنعیم جائیں اور عمرہ کرا لائیں یہ عمرہ حج کے بعد ذی الحجہ کے ہی مہینہ میں ہوا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جمرہ عقبہ کی رمی کر رہے تھے تو مالک بن جعشم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا یا رسول اللہ کیا یہ (عمرہ اور حج کے درمیان احرام کھول دینا) صرف آپ ہی کے لئے ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 763]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 26 كتاب العمرة: 6 باب عمرة التنعيم»
377. باب في الوقوف وقوله تعالى (ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس)
حضرت عروہ رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ حمس کے سوا بقیہ سب لوگ جاہلیت میں ننگے ہو کر طواف کرتے تھے حمس قریش اور اس کی آل اولاد کو کہتے تھے اور لوگوں کو (خدا واسطے) کپڑے دیا کرتے تھے (قریش) کے مرد دوسرے مردوں کو تاکہ وہ انہیں پہن کر طواف کر سکیں اور (قریش) کی عورتیں دوسری عورتوں کو تا کہ وہ انہیں پہن کر طواف کر سکیں اور جن کو قریش کپڑا نہ دیتے وہ بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر کرتے دوسرے سب لوگ تو عرفات سے واپس ہوتے لیکن قریش مزدلفہ ہی سے (جو حرم میں تھا) واپس ہو جاتے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ یہ آیت قریش کے بارے میں نازل ہوئی کہ پھر تم بھی (قریش) وہیں سے واپس آؤ جہاں سے اور لوگ واپس آتے ہیں یعنی عرفات سے (سورہ بقرہ 199) انہوں نے بیان کیا کہ قریش مزدلفہ ہی سے لوٹ آتے تھے اس لئے انہیں بھی عرفات سے لوٹنے کا حکم ہوا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 764]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 91 باب الوقوف بعرفة»
سیّدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرا ایک اونٹ کھو گیا تو میں عرفات میں اس کو تلاش کرنے گیا یہ دن عرفات کا تھا میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کے میدان میں کھڑے ہیں میری زبان سے نکلا، قسم اللہ کی! یہ تو قریش ہیں پھر یہ یہاں کیوں ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 765]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في:25 كتاب الحج: 91 باب الوقوف بعرفة»
378. باب في نسخ التحلل من الإحرام والأمر بالتمام
378. باب: احرام باندھتے وقت جو تلبیہ کیا جائے اس کے پورا کرنے کا بیان
سیّدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب حاضر ہوا تو آپ بطحاء میں تھے (جو مکہ کے قریب ایک جگہ ہے) آپ نے پوچھا: کیا تو نے حج کی نیت کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں آپ نے دریافت فرمایا کہ تو نے احرام کس چیز کا باندھا ہے؟ میں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کی طرح احرام باندھا ہے آپ نے فرمایا کہ تو نے اچھا کیا اب جا چنانچہ (مکہ پہنچ کر) میں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کی سعی کی پھر میں بنو قیس کی ایک خاتون کے پاس آیا اور انہوں نے میرے سر کی جوئیں نکالیں اس کے بعد میں نے حج کی لبیک پکاری اس کے بعد میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت تک اسی کا فتوی دیتا رہا پھر جب میں نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہمیں کتاب اللہ پر بھی عمل کرنا چاہئے اور اس میں پورا کرنے کا حکم ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر بھی عمل کرنا چاہئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی سے پہلے حلال نہیں ہوئے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 766]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 125 باب الذبح قبل الحلق»
سیّدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (حج میں) تمتع کا حکم قرآن میں نازل ہوا اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمتع کے ساتھ (حج) کیا پھر اس کے بعد قرآن نے اس سے نہیں روکا اور نہ اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی (لہٰذا تمتع اب بھی جائز ہے) یہ تو ایک صاحب نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 767]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 2 سورة البقرة 33 باب (فمن تمتع بالعمرة إلى الحج»
380. باب وجوب الدم على المتمتع وأنه إِذا عدمه لزمه صوم ثلاثة أيام في الحج وسبعة إِذا رجع إِلى أهله
380. باب: متمتع پر قربانی واجب ہے نہ ملنے پر روزے رکھے
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ نے حجتہ الوداع میں تمتع کیا یعنی عمرہ کر کے پھر حج کیا اور قربانی کی اور آپ ذی الحلیفہ سے اپنے ساتھ قربانی لے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عمرہ کے لئے احرام باندھا پھر حج کے لئے لبیک پکارا لوگوں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمتع کیا یعنی عمرہ کر کے حج کیا لیکن بہت سے لوگ اپنے ساتھ قربانی کا جانور لے گئے تھے اور بہت سے نہیں لے گئے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے تو لوگوں سے کہا کہ جو شخص قربانی ساتھ لایا ہو اس کے لئے حج پورا ہونے تک کوئی بھی ایسی چیز حلال نہیں ہو سکتی جسے اس نے اپنے اوپر (احرام کی وجہ سے پر) حرام کر لیا ہے لیکن جن کے ساتھ قربانی نہیں ہے تو وہ بیت اللہ کا طواف کر لیں اور صفا اور مروہ کی سعی کر کے بال ترشوا لیں اور حلال ہو جائیں پھر حج کے لئے (از سر نو آٹھویں ذی الحجہ کو احرام باندھیں) ایسا شخص اگر قربانی نہ پائے تو تین دن کے روزے حج ہی کے دنوں میں اور سات دن کے روزے گھر واپس آ کر رکھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنے تو سب سے پہلے آپ نے طواف کیا پھر حجر اسود کو بوسہ دیا تین چکروں میں آپ نے رمل کیا اور باقی چار میں معمولی رفتار سے چلے پھر بیت اللہ کا طواف پورا کر کے مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی سلام پھیر کر آپ صفا پہاڑی کی طرف آئے اور صفا اور مروہ کی سعی بھی سات چکروں میں پوری کی جن چیزوں کو (احرام کی وجہ سے اپنے) حرام کر لیا تھا ان سے اس وقت تک آپ حلال نہیں ہوئے جب تک حج بھی پورا نہ کر لیا اور یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) میں قربانی کا جانور بھی ذبح نہ کر لیا پھر آپ (مکہ واپس آئے) اور بیت اللہ کا جب طواف افاضہ کر لیا تو ہر وہ چیز آپ کے لئے حلال ہو گئی جو احرام کی وجہ سے حرام تھی جو لوگ اپنے ساتھ ہدی لے کر گئے تھے انہوں نے بھی اسی طرح کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 768]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 104 باب من ساق البدن معه»
عروہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ کیا اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ حج تمتع کیا یہ حدیث سیّدنا ابن عمر والی گذشتہ حدیث (نمبر 768) کی طرح ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 769]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 104 باب من ساق البدن معه»
381. باب بيان أن القارن لا يتحلل إِلاَّ في وقت تحلل الحاج المفرد
381. باب: قارن مفرد کے احرام کے وقت اپنا احرام کھولے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہانے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا یا رسول اللہ کیا بات ہے اور لوگ تو عمرہ کر کے حلال ہو گئے لیکن آپ حلال نہیں ہوئے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے سر کی تلبید۔ (بالوں کو جمانے کے لئے ایک لیس دار چیز کا استعمال کرنا) کی ہے اور اپنے ساتھ ہدی (قربانی کا جانور) لایا ہوں اس لئے میں قربانی کرنے سے پہلے احرام نہیں کھول سکتا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الحج/حدیث: 770]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 34 باب التمتع والإقران والإفراد بالحج»