سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے (اللہ کی طرف سے) حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں اس وقت تک کہ وہ اس بات کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکوۃ دیں۔ جس وقت وہ یہ کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیں گے سوائے اسلام کے حق کے (رہا ان کے دل کا حال تو) ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 15]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 2 كتاب الإيمان: 17 باب فإن تابوا وأقاموا الصلاة وآتوا الزكاة فخلوا سبيلهم»
8. باب أول الإيمان قول لا إله إلا الله
8. باب: ایمان کا بنیادی اور پہلا جزو لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے
سیّدنا مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے دیکھا تو ان کے پاس اس وقت ابو جہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب سے فرمایا کہ چچا آپ ایک کلمہ لا الہ الا اللہ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) کہہ دیجئے تا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں اس پر ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا ابو طالب کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے ابو جہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے آخر ابو طالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں انہوں نے لا الہ الا اللہ کہنے سے انکار کر دیا پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آپ کے لئے استغفار کرتا رہوں گا تا آنکہ مجھے منع نہ کر دیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی نبی کو اور ایمان داروں کو یہ لائق ہی نہیں کہ مشرکوں کے لئے استغفار کریں گو وہ قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں اس کے بعد کہ ان پر یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ وہ دوزخی ہیں۔ (التوبہ۱۱۳)[اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 16]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 81 باب إذا قال المشرك عند الموت لا إله إلاّ الله»
9. باب من لقي الله بالإيمان وهو غير شاك فيه دخل الجنة وحرم على النار
9. باب: جو شخص اللہ تعالیٰ سے ایمان کی حالت میں ملاقات کرے گا جس میں اسے کوئی شک وشبہ نہ ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور آگ اس پر حرام ہے
حدیث نمبر: 17
17 صحيح حديث عُبادَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ شَهِدَ أَنْ لا إِلهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لا شَريكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ وَكَلِمَتُهُ أَلْقاها إِلى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، أَدْخَلَهُ اللهُ الْجَنَّةَ عَلى مَا كَانَ مِنَ الْعَمَل وزاد أحد رجال السند مِنْ أَبوَابِ الْجَنَّةِ الثمانِيَةِ أَيُها شَاءَ
سیّدنا عبادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ وحدہ لاشریک ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ عیسی اس کے بندے اور رسول ہیں اور اس کا کلمہ ہیں جسے پہنچا دیا تھا اللہ نے مریم تک اور ایک روح ہیں اس کی طرف سے اور یہ کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے تو اس نے جو بھی عمل کیا ہو گا (آخر) اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ سند کے ایک راوی نے مزید یہ لفظ بیان کیے ہیں کہ جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس سے چاہے گا داخل کیا جائے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 17]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 47 باب قوله: (يا أهل الكتاب لا تغلوا في دينكم ولا تقولوا على الله إلا الحق»
سیّدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور میرے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کجا وہ کی پچھلی لکڑی کے سوا اور کوئی چیز حائل نہیں تھی اسی حالت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے معاذ (میں بولا) یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے تیار ہوں پھر آپ تھوڑی دیر تک چلتے رہے اس کے بعد فرمایا اے معاذ میں بولا یا رسول اللہ حاضر ہوں آپ کی اطاعت کے لیے تیار ہوں پھر آپ تھوڑی دیر چلتے رہے اس کے بعد فرمایا اے معاذ میں نے عرض کیا حاضر ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی اطاعت کے لیے تیار ہوں اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں معلوم ہے اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر حق یہ ہے کہ بندے خاص اس کی ہی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں پھر آپ تھوڑی دیر چلتے رہے اس کے بعد فرمایا معاذ میں نے عرض کیا حاضر ہوں یا رسول اللہ آپ کی اطاعت کے لیے تیار ہوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں معلوم ہے بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے جب کہ وہ یہ کام کر لیں؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے فرمایا کہ پھر بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ کرے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 18]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 77 كتاب اللباس: 101 باب إرداف الرجُل خلف الرجُل»
حدیث نمبر: 19
19 صحيح حديث مُعاذ رضي الله عنه قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلى حِمارٍ يُقالُ لَهُ عُفَيْرٌ، فَقَالَ: يَا مُعاذُ هَلْ تَدْري حَقَّ اللهِ عَلى عِبادِهِ وَما حَقُّ الْعِبادِ عَلى اللهِ قُلْتُ اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّ حَقَّ اللهِ عَلى الْعِبادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَحَقَّ الْعِبادِ عَلى اللهِ أَنْ لا يُعَذِّبَ مَنْ لا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا فَقُلْتُ يا رَسُولَ اللهِ: أَفَلا أُبَشِّرُ بِهِ النَّاسَ قَالَ: لا تُبَشِّرْهُمْ فَيَتَّكِلُوا
سیّدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس گدھے پر سوار تھے میں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اس گدھے کا نام عفیر تھا آپ نے فرمایا اے معاذ کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق اپنے بندوں پر کیا ہے؟ اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر کیا ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہے کہ جو بندہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو اللہ اسے عذاب نہ دے میں نے کہا یا رسول اللہ کیا میں اس کی لوگوں کو بشارت دے دوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو اس کی بشارت نہ دو ورنہ وہ خالی اعتماد کر بیٹھیں گے (اور نیک اعمال سے غافل ہو جائیں گے)[اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 19]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 46 باب اسم الفرس والحمار»
حدیث نمبر: 20
20 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُعاذٌ رَديفُهُ عَلى الرَّحْلِ، قَالَ: يا مُعاذُ بْنَ جَبَلٍ قَالَ: لَبَّيْكَ يا رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: يا مُعاذُ قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلاثًا، قَالَ: ما مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ إِلاَّ حَرَّمَهُ اللهُ عَلى النَّارِ قَالَ: يا رَسولَ اللهِ أَفَلا أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِروا قَالَ: إِذًا يَتَّكِلُوا وَأَخْبَرَ بِها مُعاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّما
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) سیّدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے معاذ!انہوں نے عرض کیا: حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوبارہ) فرمایا: اے معاذ! انہوں نے عرض کیا: حاضر ہوں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سہ بارہ) فرمایا: اے معاذ! انہوں نے عرض کیا‘ حاضر ہوں‘ اے اللہ کے رسول۔ تین بار ایسا ہوا۔ (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے‘ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کو(دوزخ) کی آگ پر حرام کر دیتا ہے۔ (سیّدنا معاذ نے) کہا یا رسول اللہ! کیا اس بات سے لوگوں کو با خبر کر دوں تا کہ وہ خوش ہو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(اگر تم یہ خبر سناؤ گے) تو لوگ اس بھروسہ کر بیٹھیں گے، (اور عمل چھوڑ دیں گے) سیّدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے انتقال کے وقت یہ حدیث اس خیال سے بیان فرما دی کہ کہیں حدیث رسول چھپانے کے گناہ پر ان سے آخرت میں مواخذہ نہ ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 20]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 3 كتاب العلم: 49 باب من خص بالعلم قومًا دون قوم كراهية أن لا يفهموا»
10. باب شعب الإيمان
10. باب: ایمان کی شاخوں کا بیان
حدیث نمبر: 21
21 صحيح حديث أَبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الإِيمانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً وَالْحَياءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمانِ
سیّدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں اور حیا (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 21]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 2 كتاب الإيمان: 3 باب أمور الإيمان»
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری شخص کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ وہ انصاری اپنے ایک بھائی سے کہہ رہے تھے کہ تم اتنی شرم کیوں کرتے ہو؟ آپ نے اس (انصاری) سے فرمایا کہ اس کو اس کے حال پر رہنے دو کیونکہ حیا بھی ایمان ہی کا ایک حصہ ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 22]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 2 كتاب الإيمان: 16 باب الحياء من الإيمان»
حدیث نمبر: 23
23 صحيح حديث عِمَرانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْحَياءُ لا يَأتي إِلاّ بِخَيْرٍ
سیّدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حیا سے ہمیشہ بھلائی پیدا ہوتی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 23]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 77 باب الحياء»
11. باب بيان تفاضل الإسلام وأي أموره أفضل
11. باب: اسلام کے افضل مفضول ہونے کا بیان اور کون سا اسلام افضل ہے
سیّدناعبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا یہ کہ تم کھانا کھلاؤ اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی الغرض سب سلام کرو۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 24]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 2 كتاب الإيمان: 6 باب إطعام الطعام من الإسلام»