1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
کِتَابُ الْاِیْمَانِ
کتاب: ایمان کا بیان
حدیث نمبر: 105
105 صحيح حديثُ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ كُنَّا عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَذَكَرُوا الدَّجَّالَ أَنَّهُ قَالَ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَمْ أَسْمَعْهُ وَلكِنَّهُ قَالَ أَمَّا مُوسَى كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ إِذِ انْحَدَرَ فِي الْوَادِي يُلَبِّي
مجاہد رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ ہم سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے لوگوں نے دجال کا ذکر کیا اور کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہو گا تو سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا کہ میں نے یہ تو نہیں سنا ہاں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں کہ جب آپ نالے میں اترے تو لبیک کہہ رہے ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 105]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 30 باب التلبية إذا انحدر في الوادي»

حدیث نمبر: 106
106 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ رَأَيْتُ مُوسَى وَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ رَجِلٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَرَأَيْتُ عِيسَى فَإِذَا هُوَ رَجُلٌ رَبْعَةٌ أَحْمَرُ، كَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيمَاسٍ، وَأَنَا أَشْبَهُ وَلَدِ إِبْرَاهيمَ بِهِ، ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءَيْنِ فِي أَحَدِهِمَا لَبَنٌ، وَفِي الآخَرِ خَمْرٌ، فَقَالَ اشْرَبْ أَيَّهُمَا شِئْتَ، فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَشَرِبْتُهُ، فَقِيلَ أَخَذْتَ الْفِطْرَةَ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا جس میں آپ کو معراج ہوا کہ میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ ایک دبلے پتلے سیدھے بالوں والے آدمی ہیں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قبیلہ شنو میں سے ہوں اور میں نے عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا وہ میانہ قد اور نہایت سرخ و سفید رنگ والے تھے ایسے ترو تازہ اور پاک صاف کہ معلوم ہوتا تھا کہ ابھی غسل خانہ سے نکلے ہیں اور میں ابراہیم سے ان کی اولاد میں سب سے زیادہ مشابہ ہوں پھر دو برتن میرے سامنے لائے گئے ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شراب تھی جبریل نے کہا کہ دونوں چیزوں میں سے آپ کا جو جی چاہے پیجئے میں نے دودھ کا پیالہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے پی گیا مجھ سے کہا گیا کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا (دودھ آدمی کی پیدائشی غذا ہے) اگر اس کی بجائے آپ نے شراب پی ہوتی تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 106]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 24 باب قول الله تعالى: (وهل أتاك حديث موسى) (وكلم الله موسى تكليما»

58. باب في ذكر المسيح بن مريم والمسيح الدجال
58. باب: مسیح بن مریم علیہ السلام اور مسیح دجال کا ذکر
حدیث نمبر: 107
107 صحيح حديثُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَيْنَ ظَهْرَي النَّاسِ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: إِنَّ اللهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، أَلاَ إِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُمْنَى كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن لوگوں کے سامنے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے لیکن دجال داہنی آنکھ سے کانا ہو گا اس کی آنکھ اٹھے ہوئے انگور کی طرح ہوگی۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 107]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 48 باب (واذكر في الكتاب مريم»

حدیث نمبر: 108
108 صحيح حديثُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَانِي اللَّيْلَةَ عِنْدَ الْكَعْبَةِ فِي المَنَامِ، فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ كَأَحْسَنِ مَا يُرَى مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ، تَضْرِبُ لِمَّتُهُ بَيْنَ مَنْكِبَيْهِ، رَجِلُ الشَّعَر، يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً، وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلَيْنِ وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَقُلْتُ: مَنْ هذَا فَقَالَوا: هذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ، ثُمَّ رَأَيْتُ رَجُلاً وَرَاءَهُ جَعْدًا قَطِطًا، أَعْوَرَ الْعَيْنِ الْيُمْنَى، كَأَشْبَهِ مَنْ رَأَيْتُ بِابْنِ قَطَنٍ، وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلٍ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَقُلْتُ: مَنْ هذَا فَقَالُوا الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے رات کعبہ کے پاس خواب میں ایک گندمی رنگ کے آدمی کو دیکھا جو گندمی رنگ کے آدمیوں میں شکل کے اعتبار سے سب سے زیادہ حسین و جمیل تھا اس کے سر کے بال شانوں تک لٹک رہے تھے سر سے پانی ٹپک رہا تھا اور دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے شانوں پر رکھے ہوئے وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے میں نے پوچھا کہ یہ کون بزرگ ہیں؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ مسیح بن مریم ہیں اس کے بعد میں نے ایک شخص کو دیکھا سخت اور مڑے ہوئے بالوں والا جو داہنی آنکھ سے کانا تھا۔ اسے میں نے ابن قطن سے سب سے زیادہ شکل میں ملتا ہوا پایا، وہ بھی ایک شخص کے شانوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ فرشتوں نے بتایا کہ یہ دجال ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 108]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 48 باب (واذكر في الكتاب مريم»

حدیث نمبر: 109
109 صحيح حديث جَابِرِ بْنِ عَبْدِ الله أنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَمَّا كَذَّبَتْنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلاَ الله لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ
سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا تھا کہ جب قریش نے (معراج کے واقعہ کے سلسلے میں) مجھ کو جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے میرے لئے بیت المقدس کو روشن کر دیا اور میں نے اسے دیکھ دیکھ کر قریش سے اس کے پتے اور نشان بیان کرنا شروع کر دئیے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 109]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 63 كتاب مناقب الأنصار: 41 باب حديث الإسراء وقول الله تعالى (سبحان الذي أسرى بعبده ليلا»

59. باب في ذكر سدرة المنتهى
59. باب: سدرۃ المنتہیٰ کا بیان
حدیث نمبر: 110
110 صحيح حديث ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ أَبِي إِسْحقَ الشَّيْبَانِيّ، قَالَ: سَأَلْتُ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ عَنْ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى (فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ ما أَوْحَى) قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ مَسْعُودٍ أَنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ لَهُ سِتُّمِائَةِ جَنَاحٍ
ابو اسحاق شیبانی نے بیان کیا کہ میں نے زر بن حبیش سے اللہ تعالیٰ کے (سورہ نجم میں) ارشاد: فکان قاب قوسین او ادنی فاوحی الی عبدہ ما اوحی کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو (اپنی اصلی صورت میں) دیکھا تو ان کے چھ سو بازو تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 110]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 59 كتاب بدء الخلق: 7 باب إذا قال أحدكم آمين والملائكة في السماء»

60. باب معنى قول الله عز وجل: (ولقد رآه نزلة أخرى)، وهل رأى النبي صلی اللہ علیہ وسلم ربه ليلة الإسراء
60. باب: ولقد راہ نزلۃ اخری سے کیا مراد ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ جل جلالہ کو معراج کی رات دیکھا تھا یا نہیں
حدیث نمبر: 111
111 صحيح حديث عَائِشَةَ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ يَا أُمَّتَاهْ هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ فَقَالَتْ لَقَدْ قَفَّ شَعَرِي مِمَّا قُلْتَ، أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلاَثٍ مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ فَقَدْ كَذَبَ: مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرأَتْ (لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ)، (وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللهُ إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ) ؛ وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ (وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا) ؛ وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ (يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ) الآية؛ وَلكِنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فِي صُورَتِهِ مَرَّتَيْنِ
مسروق رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے پوچھا اے ایمان والوں کی ماں کیا سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں اپنے رب کو دیکھا تھا؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم نے ایسی بات کہی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیا تم ان تین باتوں سے بھی ناواقف ہو؟ جو شخص بھی تم میں سے یہ تین باتیں بیان کرے وہ جھوٹا ہے جو شخص یہ کہتا ہو کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے پھر انہوں نے ان آیات مبارکہ تلاوت کی اسے نگاہیں نہیں پا سکتیں اور وہ تمام نگاہوں کو پا لیتا ہے وہ تو بہت ہی باریک بین اور بڑی واقف ہے (الانعام۱۰۳) کسی انسان کے لئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے سوائے اس کے کہ وحی کے ذریعہ ہو یا پھر پردے کے پیچھے سے ہو (الشوریٰ۵۱) اور جو شخص تم سے کہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ بھی جھوٹا ہے اس کے لئے انہوں نے آیت کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا (لقمان ۳۴) کی تلاوت فرمائی اور جو شخص تم میں سے کہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین میں کوئی بات چھپائی تھی وہ بھی جھوٹا ہے پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی اے رسول پہنچا دیجئے وہ سب کچھ جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کی رسالت کا حق ادا نہ کیا (المائدہ۶۷) ہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا تھا (اس تفصیل سے اسی کو ترجیح حاصل ہوئی کہ آپ نے شب معراج میں ان آنکھوں سے اللہ کو نہیں دیکھا واللہ اعلم) [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 111]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 53 سورة النجم: 1 باب حدثنا يحيى حدثنا وكيع»

حدیث نمبر: 112
112 صحيح حديث عَائِشَةَ قَالَتْ مَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ أَعْظَمَ، ولكِنْ قد رَأى جِبْرِيلَ فِي صُورَتِهِ، وَخَلْقُهُ سَادٌّ مَا بَيْنَ الأُفُقِ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ جس نے یہ گمان کیا کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا تو اس نے بڑی جھوٹی بات زبان سے نکالی لیکن آپ نے جبریل علیہ السلام کو (معراج کی رات میں) ان کی اصل صورت میں دیکھا تھا ان کے وجود نے آسمان کا کنارہ ڈھانپ لیا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 112]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 59 كتاب بدء الخلق: 7 باب إذا قال أحدكم آمين والملائكة في السماء»

61. باب إِثبات رؤية المؤمنين في الآخرة ربهم سبحانه وتعالى
61. باب: اللہ تعالیٰ کا دیدار مومنوں کو آخرت میں ہوگا
حدیث نمبر: 113
113 صحيح حديث أَبِي مُوسَى، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: جَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَجَنَّتَانِ مِنْ ذَهَبٍ، آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَمَا بَيْنَ الْقَوْمِ وَبَيْنَ أَنْ يَنْظُرُوا إِلَى رَبِّهِمْ إِلاَّ رِدَاءُ الْكِبْر عَلَى وَجْهِهِ فِي جَنَّةِ عَدْنٍ
سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جنت میں) دو باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام ضروری چیزیں چاندی کی ہوں گی۔ اور دو دوسرے باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام دوسری چیزیں سونے کی ہوں گی اور جنت عدن سے جنتیوں کے اپنے رب کے دیدار میں کوئی چیز سوائے کبریائی کی چادر کے جو اس کے (اللہ رب العزت کے) چہرے پر ہو گی حائل نہ ہو گی۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 113]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 55 سورة الرحمن: 1 باب قوله (ومن دونهما جنتان»

62. باب معرفة طريق الرؤية
62. باب: اللہ جل جلالہ کو (قیامت کے دن) دیکھنا کس طرح ممکن ہے اس کی پہچان کا بیان
حدیث نمبر: 114
114 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّاس قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ: هَلْ تُمَارُونَ فِي الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَيْسَ دُونَهُ سَحَابٌ قَالُوا لاَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: فَهَلْ تمَارُونَ فِي الشَّمْسِ لَيْسَ دُونَهَا سَحَابٌ قَالُوا لاَ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: فَإِنَّكمْ تَرَوْنَهُ كَذَلِكَ يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ مَنْ كَانَ يَعْبدُ شَيْئًا فَلْيَتْبَعْهُ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَتَّبِعُ الشَّمْسَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَتَّبِعُ الْقَمَر، وَمِنْهُمْ مَنْ يَتَّبِعُ الطَّوَاغِيتَ وَتَبْقَى هذِهِ الأُمَّةُ فِيهَا مُنَافِقُوهَا، فَيَأْتِيهِمُ اللهُ فَيَقُولُ أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ هذَا مَكَانُنَا حَتَّى يَأْتِيَنَا رَبُّنَا، فَإِذَا جَاءَ رَبُّنَا عَرَفْنَاهُ، فَيَأْتِيهِمُ اللهُ فَيَقُولُ أَنَا رَبُّكُمْ، فَيقُولُونَ أَنْتَ رَبُّنَا، فَيَدْعُوهُمْ، وَيُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ جَهَنَّمَ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يَجُوزُ مِنَ الرَّسُلِ بِأُمَّتِهِ، وَلاَ يَتَكَلَّمُ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ إِلاَّ الرُّسُلُ، وَكَلاَمُ الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ اللهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ، وَفِي جَهَنَّمَ كَلاَلِيبُ مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ، هَلْ رَأَيْتُمْ شَوْكَ السَّعْدَانِ قَالُوا نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّهَا مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدانِ، غَيْرَ أَنَّهُ لاَ يَعْلَمُ قَدْرَ عِظَمِهَا إِلاَّ اللهُ، تَخْطَفُ النَّاسَ بِأَعْمَالِهِمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ يُوبَقُ بِعَمَلِهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُخَرْدَلُ ثُمَّ يَنْجُو، حَتَّى إِذَا أَرَادَ اللهُ رَحْمَةَ مَنْ أَرَادَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ أَمَرَ اللهُ الْمَلاَئِكَةَ أَنْ يُخْرِجُوا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ، فَيُخْرِجُونَهُمْ، وَيَعْرِفُونَهُمْ بِآثَارِ السُّجُودِ، وَحَرَّمَ اللهُ عَلَى النَّارِ أَنْ تَأْكُلَ أَثَرَ السُّجُودِ، فَيَخْرُجُونَ مِنَ النَّار، فَكُلُّ ابْنِ آدَمَ تَأْكُلُهُ النَّارُ إِلاَّ أَثَرَ السُّجُودِ؛ فَيَخْرُجُونَ مِنَ النَّارِ قَدِ امْتَحَشُوا، فَيُصَبُّ عَلَيْهِمْ مَاءُ الْحَيَاةِ، فَيَنْبُتُونَ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ؛ ثُمَّ يَفْرُغُ اللهُ مِنَ الْقَضَاءِ بَيْنَ الْعِبَادِ، وَيَبْقَى رَجُلٌ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، وَهُوَ آخِرُ أَهْلِ النَّارِ دُخُولاً الْجَنَّةَ، مُقْبِلاً بِوَجْهِهِ قِبَلَ النَّارِ، فَيَقُولُ يَا رَبِّ اصْرِفْ وَجْهِي عَنِ النَّارِ، قَدْ قَشَبَنِي رِيحُهَا، وَأَحْرَقَنِي ذَكَاؤُهَا، فَيَقُولُ هَلْ عَسِيْتَ إِنْ فُعِلَ ذَلِكَ بِكَ أَنْ تَسْأَلَ غَيْرَ ذَلِكَ فَيَقُولُ لاَ وَعِزَّتِكَ، فَيُعْطِي اللهَ مَا يَشَاءُ مِنْ عَهْدٍ وَمِيثَاقٍ؛ فَيَصْرِفُ اللهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ فَإِذَا أَقْبَلَ بِهِ عَلَى الْجَنَّةِ رَأَى بَهْجَتَهَا، سَكَتَ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَسْكُتَ، ثُمَّ قَالَ يَا رَبِّ قَدِّمْنِي عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ اللهُ لَهُ، أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ العُهُودَ وَالْمَوَاثِيقَ أَنْ لاَ تَسْأَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنْتَ سَأَلْتَ فَيَقُولُ يَا رَبِّ لاَ أَكُونَنَّ أَشْقَى خَلْقِكَ؛ فَيَقُولُ فَمَا عَسِيْتَ إِنْ أُعْطِيتَ ذَلِكَ أَنْ لاَ تَسْأَلَ غَيْرَهُ فَيَقُولُ لاَ وَعِزَّتِكَ لاَ أَسْأَلُ غَيْرَ ذَلِكَ؛ فَيعْطِي رَبَّهُ مَا شَاءَ مِنْ عَهْدٍ وَمِيثَاق، فَيُقَدِّمُهُ إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ، فَإِذَا بَلَغَ بَابَهَا فَرَأَى زَهْرَتَهَا، وَمَا فِيهَا مَنَ النَّضْرَةِ والسُّرُورِ فَيَسْكُتُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَسْكُتَ، فَيقُولُ يَا رَبِّ أَدْخِلْنِي الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ اللهُ: وَيْحَكَ يَا ابْنَ آدَمَ مَا أَغْدَرَكَ أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ الْعُهُودَ وَالْمَوَاثِيقَ أَنْ لاَ تَسْأَلَ غَيْرَ الَّذِي أُعْطِيتَ فَيَقُولُ يَا رَبِّ لاَ تَجْعَلْنِي أَشْقَى خَلْقِكَ، فَيَضْحَكُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ، ثُمَّ يَأْذَنُ لَهُ فِي دُخُولِ الْجنَّةِ، فَيَقُولُ تَمَنَّ، فَيَتَمَنَّى، حَتَّى إِذَا انْقَطَعَتْ أُمْنِيَّتُهُ، قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: مِنْ كَذَا وَكَذَا أَقْبَلَ يُذَكِّرُهُ رَبُّهُ؛ حَتَّى إِذَا انْتَهَتْ بِهِ الأَمَانِيُّ قَالَ اللهُ تَعَالَى: لَكَ ذَلكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا ہم اپنے رب کو قیامت میں دیکھ سکیں گے؟ آپ نے (جواب کے لئے) پوچھا کیا تمہیں چودھویں رات کے چاند کے دیکھنے میں جب کہ اس کے قریب کہیں بادل بھی نہ ہو شبہ ہوتا ہے؟ لوگ بولے ہرگز نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے پوچھا اور کیا تمہیں سورج کے دیکھنے میں جب کہ اس کے قریب کہیں بادل بھی نہ ہو شبہ ہوتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ پھر آپ نے فرمایا کہ رب العزت کو تم اسی طرح دیکھو گے لوگ قیامت کے دن جمع کئے جائیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جو جسے پوجتا تھا وہ اس کے ساتھ ہو جائے چنانچہ بہت سے لوگ سورج کے پیچھے ہو لیں گے بہت سے چاند کے اور بہت سے بتوں کے ساتھ ہو لیں گے یہ امت باقی رہ جائے گی اس میں منافقین بھی ہوں گے پھر خداوند تعالیٰ ایک نئی صورت میں آئے گا اور ان سے کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں وہ منافقین کہیں گے کہ ہم یہیں اپنے رب کے آنے تک کھڑے رہیں گے جب ہمارا رب آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے پھر اللہ عزوجل ان کے پاس (ایسی صورت میں جسے وہ پہچان لیں) آئے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں وہ بھی کہیں گے کہ بے شک تو ہمارا رب ہے پھر اللہ تعالیٰ انہیں بلائے گا پل صراط جہنم کے بیچوں بیچ رکھا جائے گا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اپنی امت کے ساتھ اس سے گذرنے والا سب سے پہلا رسول ہوں گا اس روز سوائے انبیاء کے کوئی بات بھی نہ کر سکے گا اور انبیاء بھی صرف یہ کہیں گے اے اللہ مجھے محفوظ رکھیو اے اللہ مجھے محفوظ رکھیو اور جہنم میں سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکس (آنکڑے) ہوں گے سعدان کے کانٹے تو تم نے دیکھے ہوں گے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ ہاں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) تو وہ سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوں گے البتہ ان کے طول و عرض کو سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا یہ آنکس لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق کھینچ لیں گے بہت سے لوگ اپنے عمل کی وجہ سے ہلاک ہوں گے بہت سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے پھر ان کی نجات ہو گی جہنمیوں میں سے اللہ تعالیٰ جس پر رحم فرمانا چاہے گا تو ملائیکہ کو حکم دے گا کہ جو خالص اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرتے تھے انہیں باہر نکال لو چنانچہ ان کو وہ باہر نکالیں گے اور موحدوں کو سجدے کے آثار سے پہچانیں گے اللہ تعالیٰ نے جہنم پر سجدہ کے آثار کا جلانا حرام کر دیا ہے چنانچہ یہ جب جہنم سے نکالے جائیں گے تو اثر سجدہ کے سوا ان کے جسم کے تمام ہی حصوں کو آگ جلا چکی ہو گی جب جہنم سے باہر ہوں گے تو بالکل جل چکے ہوں گے اس لئے ان پر آب حیات ڈالا جائے گا جس سے وہ اس طرح ابھر آئیں گے جیسے سیلاب کے کوڑے کرکٹ پر سیلاب کے تھمنے کے بعد سبزہ ابھر آتا ہے پھر اللہ تعالیٰ بندوں کے حساب سے فارغ ہو جائے گا لیکن ایک شخص جنت اور دوزخ کے درمیان اب بھی باقی رہ جائے گا یہ جنت میں داخل ہونے والا آخری دوزخی شخص ہو گا اس کا منہ دوزخ کی طرف ہو گا اس لئے کہے گا کہ اے میرے رب میرے منہ کو دوزخ کی طرف سے پھیر دے کیونکہ اس کی بدبو مجھ کو مارے ڈالتی ہے اور اس کی چمک مجھے جلائے دیتی ہے خداوند تعالیٰ پوچھے گا کیا اگر تیری یہ تمنا پوری کر دوں تو تو دوبارہ کوئی نیا سوال تو نہیں کرے گا؟ بندہ کہے گا نہیں تیری بزرگی کی قسم اور جیسے جیسے اللہ چاہے گا وہ قول و قرار کرے گا آخر اللہ تعالیٰ جہنم کی طرف سے اس کا منہ پھیر دے گا جب وہ جنت کی طرف منہ کرے گا اور اس کی شادابی نظروں کے سامنے آئی تو اللہ نے جتنی دیر چاہا وہ چپ رہے گا لیکن پھر بول پڑے گا اے اللہ مجھے جنت کے دروازے کے قریب پہنچا دے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا تو نے عہد و پیمان نہیں باندھا تھا کہ اس ایک سوال کے سوا اور کوئی سوال تو نہیں کرے گا؟ بندہ کہے گا اے میرے رب مجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ بد نصیب نہ ہونا چاہیے اللہ رب العزت فرمائے گا کہ پھر کیا ضمانت ہے کہ اگر تیری یہ تمنا پوری کر دی گئی تو دوسرا کوئی سوال تو نہیں کرے گا؟ بندہ کہے گا نہیں تیری عزت کی قسم اب کوئی دوسرا سوال تجھ سے نہیں کروں گا چنانچہ اپنے رب سے ہر طرح عہد و پیمان باندھے گا اور جنت کے دروازے تک پہنچا دیا جائے گا دروازے پر پہنچ کر جب جنت کی پہنائی تازگی اور مسرتوں کو دیکھے گا تو جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ بندہ چپ رہے گا لیکن آخر بول پڑے گا کہ اے اللہ مجھے جنت کے اندر پہنچا دے اللہ تعالیٰ فرمائے گا افسوس اے ابن آدم تو ایسا دغا باز کیوں بن گیا؟ کیا (ابھی) تو نے عہد و پیماں نہیں باندھا تھا کہ جو کچھ مجھے دے دیا گیا اس سے زیادہ اور کچھ نہیں مانگوں گا؟ بندہ کہے گا اے رب مجھے اپنی سب سے زیادہ بد نصیب مخلوق نہ بنا اللہ تعالیٰ ہنس دے گا اور اسے جنت میں بھی داخلے کی اجازت عطا فرما دے گا اور پھر فرمائے گا مانگ کیا ہے تیری تمنا؟ چنانچہ وہ اپنی تمنائیں (اللہ تعالیٰ کے سامنے) رکھے گا اور جب تمام تمنائیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فلاں چیز اور مانگو فلاں چیز کا مزید سوال کرو خود اللہ تعالیٰ ہی یاد دہانی کرائے گا اور جب وہ تمام تمنائیں پوری ہو جائیں گی تو فرمائے گا کہ تمہیں یہ سب (بھی) اور اتنی ہی اور (بھی) دی گئیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 114]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 129 باب فضل السجود»


Previous    7    8    9    10    11    12    13    Next