1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
کِتَابُ الْاِیْمَانِ
کتاب: ایمان کا بیان
54. باب نزول عيسى بن مريم حاكما بشريعة نبينا محمد صلي الله عليه وسلم
54. باب: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے اور ان کے شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق چلنے کا بیان
حدیث نمبر: 95
95 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمَا مُقْسِطًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لاَ يَقْبَلَهُ أَحَدٌ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم (عیسیٰ علیہ السلام) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 95]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 102 باب قتل الخنزير»

حدیث نمبر: 96
96 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب عیسیٰ بن مریم تم میں اتریں گے (تم نماز پڑھ رہے ہو گے) اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 96]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 49 باب نزول عيسى ابن مريم عليهما السلام»

55. باب بيان الزمن الذي لا يقبل فيه الإيمان
55. باب: اس زمانے کا بیان جب ایمان مقبول نہ ہوگا
حدیث نمبر: 97
97 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَإِذَا طَلَعَتْ وَرَآهَا النَّاسُ آمَنُوا أَجْمَعُونَ، وَذَلِكَ حِينَ لاَ يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا ثُمَّ قَرَأَ الآية
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو لے جب مغرب سے سورج طلوع ہو گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لائیں گے لیکن یہ وہ وقت ہو گا جب کسی کو اس کا ایمان نفع نہ دے گا پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی کیا یہ اس بات کے منتظر ہیں؟ کہ ان کے پاس فرشتے آئیں؟ یا تیرا رب آئے؟ یا تیرے رب کی بعض نشانیاں آ جائیں؟ جس دن تیرے رب کی بعض نشانیاں آ جائیں گی تو کسی شخص کو جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا اس کا ایمان مطلق فائدہ نہ دے گا نہ اسے جس نے اپنے ایان کی حالت میں نیکیاں نہ کی ہوں کہدے کہ اچھا منتظر رہو ہم بھی انتظار کر رہے ہیں۔ (الانعام ۱۵۸) [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 97]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 6 سورة الأنعام: 9 باب هلمّ شهداءكم»

حدیث نمبر: 98
98 صحيح حديث أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه، قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ، فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ قَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ هَلْ تَدْرِي أَيْنَ تَذْهَبُ هذِهِ قَالَ قُلْتُ اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: فَإِنَّهَا تَذْهَبُ تَسْتَأْذِنُ فِي السُّجُودِ فَيُؤْذَنُ لَهَا وَكَأَنَّهَا قَدْ قِيل لَهَا ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ، فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا ثُمَّ قَرَأَ (ذَلِكَ مُسْتَقَرٌّ لَهَا)
سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے پھر جب سورج غروب ہوا تو آپ نے فرمایا اے ابوذر کیا تمہیں معلوم ہے یہ کہاں جاتا ہے؟ بیان کیا کہ میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں فرمایا کہ یہ جاتا ہے اور سجدہ کی اجازت چاہتا ہے پھر اسے اجازت دی جاتی ہے اور گویا اس سے کہا جاتا ہے کہ واپس وہاں جاؤ جہاں سے آئے ہو۔ چنانچہ وہ مغرب کی طرف سے طلوع ہوتا ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ذالک مستقرلہا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 98]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في:97 كتاب التوحيد: 22 باب وكان عرشه على الماء وهو رب العرش العظيم»

56. باب بدء الوحى إِلى رسول الله ﷺ
56. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترنا کیونکر شروع ہوا
حدیث نمبر: 99
99 صحيح حديث عَائِشَةَ أُمّ الْمُؤُمِنِينَ قَالتْ: أَوَّلُ مَا بُدِىءَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرؤيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلاَّ جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلاَءُ، وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ، وَهُوَ التَّعَبُّدُ، اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ، وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا، حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارٍ حِرَاءٍ؛ فَجَاءَهُ الْمَلِكُ فَقَالَ اقْرَأْ، قَالَ: مَا أَنَا بِقَارِيءٍ، قَالَ: فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: اقْرَأْ قُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِيءٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنَّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِيءٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأكْرَمُ) فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ، فَقَالَ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ، وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلاَّ وَاللهِ، مَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِين عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ، وَكَانَ امْرءًا تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ فَيَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَكْتُبَ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ، فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ: يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَبَرِ مَا رَأَى فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: هذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللهُ عَلَى مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا، لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمكَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ قَالَ نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرُكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ابتدائی دور اچھے سچے اور پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا آپ خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا پھر من جانب قدرت آپ تنہائی پسند ہو گئے اور آپ نے غار حرا میں خلوت نشینی اختیار فرمائی اور کئی کئی دن اور رات وہاں مسلسل عبادت یاد الٰہی اور ذکر و فکر میں مشغول رہتے جب تک گھر آنے کو دل نہ چاہتا توشہ (کھانے پینے کا سامان) ہمراہ لئے ہوئے وہاں رہتے توشہ ختم ہونے پر ہی اہلیہ محترمہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے اور کچھ توشہ ہمراہ لے کر دوبارہ وہاں جا کر خلوت گزیں ہو جاتے یہی طریقہ جاری رہا یہاں تک کہ آپ پر حق منکشف ہو گیا اور آپ غار حرا ہی میں قیام پذیر تھے اچانک حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! پڑھو آپ نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا آپ فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے بھینچا کہ میری طاقت جواب دے گئی پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھو میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں اس پر فرشتے نے مجھ کو نہایت ہی زور سے بھینچا کہ مجھ کو سخت تکلیف محسوس ہوئی پھر اس نے کہا کہ پڑھ میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں فرشتے نے تیسری بار مجھ کو پکڑا اور تیسری مرتبہ پھر مجھ کو بھینچا پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ پڑھو اپنے رب کے نام کی مدد سے جس نے پیدا کیا انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے (العلق۳۱)پس (یہی آیتیں آپ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے سن کر) اس حال میں غار حرا سے واپس ہوئے کہ آپ کا دل اس انوکھے واقعہ سے کانپ رہا تھا آپ سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو مجھے کمبل اڑھا دو انہوں نے آپ کو کمبل اڑھا دیا جب آپ کا ڈر جاتا رہا تو آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا اور فرمانے لگے کہ مجھ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے آپ کی اہلیہ محترمہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہانے آپ کی ڈھارس بندھائی اور کہا کہ آپ کا خیال صحیح نہیں ہے اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں آپ تو کنبہ پرور ہیں بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں مفلسوں کے لئے آپ کماتے ہیں مہمان نوازی میں آپ بے نظیر ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں (ایسے اوصاف حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا) پھر مزید تسلی کے لئے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو ان کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے کاتب تھے چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کی بینائی بھی رخصت ہو چکی تھی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے آپ کے حالات بیان کئے اور کہا کہ اے چچا زاد بھائی اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبانی ذرا ان کی کیفیت سن لیجئے وہ بولے کہ بھتیجے آپ نے جو کچھ دیکھا ہے اس کی تفصیل سناؤ چنانچہ آپ نے از اول تا آخر پورا واقعہ سنایا جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ تو وہی ناموس (معزز راز داں فرشتہ) ہے جسے اللہ نے سیّدناموسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا کاش میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟ (حالانکہ میں تو ان میں صادق و امین و مقبول ہوں) ورقہ بولا ہاں یہ سب کچھ سچ ہے مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہی ہو گئے ہیں اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 99]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 1 كتاب بدء الوحى: 3 باب حدثنا يحيى ابن بكير»

حدیث نمبر: 100
100 صحيح حديث جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الأَنْصَارِيِّ، قَالَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ، فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: بَيْنَا أَنَا أَمْشِي إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي فَإِذَا الْمَلكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَرُعِبْتُ مِنْهُ، فَرَجَعْتُ، فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي، فَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى (يأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ) إِلَى قَوْلِهِ: (وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ) فَحَمِيَ الْوَحْيُ وَتَتَابَعَ
سیّدناجابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے رک جانے کے زمانے کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک روز میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان کی طرف ایک آواز سنی اور میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے بیچ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے میں اس سے ڈر گیا اور گھر آنے پر میں نے پھر کمبل اوڑھنے کی خواہش ظاہر کی اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آیات نازل ہوئیں اے لحاف اوڑھ کر لیٹنے والے اٹھ کھڑا ہو اور لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھ اور گندگی سے دور رہ (المدثر ۵۱) اس کے بعد وحی تیزی کے ساتھ پے در پے آنے لگی۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 100]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 1 كتاب بدء الوحى: 3 باب حدثنا يحيى ابن بكير»

حدیث نمبر: 101
101 صحيح حديث جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الأَنْصَارِيِّ عَنْ يَحْي بْنِ كَثِيرٍ، سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمنِ عَنْ أَوَّلِ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ قَالَ يأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُلْتُ يَقُولُونَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ سَأَلْتُ جَابِرَ بنَ عَبْدِ اللهِ عَنْ ذَلِكَ، وَقُلْتُ لَهُ مِثْلَ الَّذِي قُلْتَ، فَقَالَ جَابِرٌ لاَ أُحَدِّثكَ إِلاَّ مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي هَبَطْتُ فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، وَنَظَرْتُ عَنْ شِمَالِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، وَنَظَرْتُ أَمَامِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، وَنَظَرْتُ خَلْفِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا؛ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ شَيْئًا، فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي وَصُبُّوا عَلَيَّ مَاءً بَارِدًا، قَالَ فَدَثَّرُونِي وَصَبُّوا عَلَيَّ مَاءً بَارِدًا، قَالَ فَنَزَلَتْ (يأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ)
یحییٰ بن کثیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رحمہ اللہ سے پوچھا تھا کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی؟ ابو سلمہ نے فرمایا کہ یاایہا المدثر (اے کپڑے میں لپٹنے والے) میں نے ان سے کہا کہ مجھے تو خبر ملی ہے کہ اقرا باسم ربک الذی خلق سب سے پہلے نازل ہوئی تھی تو انہوں نے کہا کہ میں تمہیں وہی خبر دے رہا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے غار حراء میں تنہائی اختیار کی جب میں وہ مدت پوری کر چکا اور نیچے اتر کر وادی کے بیچ میں پہنچا تو مجھے پکارا گیا میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا اور مجھے دکھائی دیا کہ فرشتہ آسمان اور زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہے پھر میں خدیجہ کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اڑھا دو اور میرے اوپر ٹھنڈا پانی ڈالو اور مجھ پہ یہ آیت نازل ہوئی اے کپڑے میں لپٹنے والے اٹھئے پھر لوگوں کو عذاب آخرت سے ڈرائیے اور اپنے پروردگار کی بڑائی کیجئے۔ (المدثر: ۳۱) [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 101]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 74 سورة المدثر: باب حدثنا يحيى»

57. باب الإسراء برسول الله صلی اللہ علیہ وسلم إِلى السموات وفرض الصلوات
57. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور نمازوں کا فرض ہونا
حدیث نمبر: 102
102 صحيح حديث أَبِي ذَرٍّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُرِجَ عَنْ سَقْفِ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ فَفَرَجَ عَنْ صَدْرِي، ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِيءٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَأَفْرَغَهُ فِي صَدْرِي، ثُمَّ أَطْبَقَهُ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ بِي إِلَى السّمَاءِ الدُّنْيَا، فَلَمَّا جِئْتُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا قَالَ جِبْرِيلُ لِخَازِنِ السَّمَاءِ افْتَحْ، قَالَ: مَنْ هذَا قَالَ: هذَا جِبْرِيلُ، قَالَ: هَلْ مَعَكَ أَحَدٌ قَالَ: نَعَمْ مَعِي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَوَ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ: نَعَمْ؛ فَلَمَّا فَتَحَ عَلَوْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَإِذَا رَجُلٌ قَاعِدٌ، عَلَى يَمِينِهِ أَسْوِدَةٌ وَعَلَى يَسَارِهِ أَسْوِدَةٌ، إِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَسَارِهِ بَكَى، فَقَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالاِبْنِ الصَّالِحِ، قُلْتُ لِجِبْرِيلَ: مَنْ هذَا قَالَ: هذَا آدَمُ، وَهذِهِ الأَسْوِدَةَ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ نَسَمُ بَنِيهِ، فَأَهْلُ الْيَمِينِ مِنْهُمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ، وَالأَسْوِدَةُ الَّتِي عَنْ شِمَالِهِ أَهْلُ النَّارِ؛ فَإِذَا نَظَرَ عَنْ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى حَتَّى عَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ فَقَالَ لِخَازِنِهَا افْتَحْ، فَقَالَ لَهُ خَازِنُهَا مِثْلَ مَا قَالَ الأَوَّلُ؛ فَفَتَحَ قَالَ أَنَسٌ فَذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ فِي السَّموَاتِ آدَمَ وَإِدْرِيسَ وَمُوسَى وَعيسَى وَإِبْرَاهِيمَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يُثْبِتْ كَيْفَ مَنَازِلُهُمْ؛ غَيْرَ أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ آدَمَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ قَالَ أَنَسٌ، فَلَمَّا مَرَّ جِبْرِيلُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِدْرِيسَ قَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالأَخِ الصَّالِحِ فَقُلْتُ: مَنْ هذَا قَالَ: هذَا إِدْرِيسُ ثُمَّ مَرَرْتُ بِمُوسَى فَقَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالأَخِ الصَّالِحِ؛ قُلْتُ: مَنْ هذَا قَالَ: هذَا مُوسَى ثُمَّ مَرَرْتُ بِعِيسَى فَقَالَ مَرْحَبَا بِالأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ؛ [ص:36] قُلْتُ: مَنْ هذَا قَالَ: هذَا عِيسَى ثُمَّ مَرَرْتُ بِإِبْرَاهِيمَ فَقَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالاِبْنِ الصَّالِحِ؛ قُلْتُ: مَنْ هذَا قَالَ: هذَا إِبْرَاهِيمُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ عُرِجَ بِي حَتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوَى أَسْمَعُ فِيهِ صَريفَ الأَقْلاَمِ، فَفَرَضَ اللهُ عَلَى أُمَّتِي خَمْسِينَ صَلاَةً، فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى، فَقَالَ: مَا فَرَضَ اللهُ لَكَ عَلَى أُمَّتِكَ قُلْتُ: فَرَضَ خَمْسِينَ صَلاَةً، قَالَ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعَنِي فَوَضَعَ شَطْرَهَا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقُلْتُ: وَضَعَ شَطْرَهَا؛ فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ، فَرَاجَعْتُ فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعْتُهُ، فَقَالَ: هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ لاَ يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ رَاجِعْ رَبَّكَ، فَقُلْتُ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي ثُمَّ انْطَلَقَ بِي حَتَّى انْتَهَى بِي إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لاَ أَدْرِي مَا هِيَ ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا فِيهَا حَبَايِلُ اللُّؤْلُؤِ، وَإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْكُ
سیّدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی اس وقت میں مکہ میں تھا پھر جبریل علیہ السلام اترے اور انہوں نے میرا سینہ چاک کیا پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا اس کو میرے سینے میں رکھ دیا پھر سینے کو جوڑ دیا پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبریل نے آسمان کے داروغہ سے کہا کھولو اس نے پوچھا آپ کون ہیں؟ جواب دیا کہ جبریل پھر انہوں نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ جواب دیا ہاں میرے ساتھ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں انہوں نے پوچھا کہ کیا ان کے بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا جی ہاں پھر جب انہوں نے دروازہ کھولا تو ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے وہاں ہم نے ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا ان کے داہنی طرف کچھ لوگوں کے جھنڈ تھے اور کچھ جھنڈ بائیں طرف تھے جب وہ اپنی داہنی طرف دیکھتے تو مسکراتے اور جب بائیں طرف نظر کرتے تو روتے انہوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے میں نے جبریل سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور ان کے دائیں بائیں جو جھنڈ ہیں یہ ان کے بیٹوں کی روحیں ہیں جو جھنڈ دائیں طرف ہیں وہ جنتی ہیں اور بائیں طرف کے جھنڈ دوزخی روحیں ہیں اس لئے جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتے ہیں تو خوشی سے مسکراتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو (رنج سے) روتے ہیں پھر جبریل مجھے لے کر دوسرے آسمان تک پہنچے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ کھولو اس آسمان کے داروغہ نے بھی پہلے داروغہ کی طرح پوچھا پھر کھول دیا سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا کہ آپ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر حضرات آدم ادریس موسیٰ عیسیٰ اور ابراہیم رضی اللہ عنہ کو موجود پایا اور سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کا ٹھکانا بیان نہیں کیا البتہ اتنا بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم علیہ السلام کو پہلے آسمان پر پایا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب جبریل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ادریس علیہ السلام پر گزرے تو انہوں نے فرمایا کہ آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں پھر میں موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا انہوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبریل نے بتایا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں پھر میں عیسیٰ علیہ السلام تک پہنچا انہوں نے کہا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبریل نے بتایا کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں پھر میں ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا انہوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبریل نے بتایا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ پھر مجھے جبریل لے کر چڑھے اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے قلم کی آواز سنی (جو لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آواز تھی) پس اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں میں یہ حکم لے کر واپس لوٹا جب موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ تعالیٰ نے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا پچاس وقت کی نمازیں فرض کی ہیں انہوں نے فرمایا آپ واپس اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے میں واپس بارگاہ رب العزت میں گیا تو اللہ نے اس میں سے ایک حصہ کم کر دیا پھر موسیٰ کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حصہ کم دیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ دوبارہ جائیے کیونکہ آپ کی امت میں اس کے برداشت کی بھی طاقت نہیں ہے پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوا پھر ایک حصہ کم ہوا جب موسیٰ کے پاس پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ اپنے رب کی بارگاہ میں پھر جائیے کیونکہ آپ کی امت اس کو بھی برداشت نہ کر سکے گی پھر میں بار بار آیا گیا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں (عمل میں) پانچ ہیں اور (ثواب میں) پچاس (کے برابر) ہیں میری بات بدلی نہیں جاتی اب میں موسیٰ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جاؤ لیکن میں نے کہا مجھے اب اپنے رب سے شرم آتی ہے پھر جبریل مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانک رکھا تھا جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 102]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 1 باب كيف فرضت الصلاة: في الإسراء»

حدیث نمبر: 103
103 صحيح حديث مالِكِ بْنِ صَعْصَعَة رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائمِ وَالْيَقْظَانِ، وَذَكَرَ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ، فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُلِيءَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، فَشُقَّ مِنَ النَّحْرِ إِلَى مَرَاقِّ الْبَطْنِ، ثُمَّ غُسِلَ الْبَطْنُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ مُلِيءَ حِكْمَةً [ص:37] وَإِيمَانًا، وَأُتِيتُ بِدَابَّةٍ أَبْيَضَ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ، الْبُرَاقُ، فَانْطَلَقْتُ مَعَ جِبْرِيل حَتَّى أَتَيْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا، قِيلَ مَنْ هذَا قَالَ: جِبْرِيلُ؛ قِيلَ: مَنْ مَعَكَ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ: نَعَمْ؛ قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ؛ فَأَتَيْتُ عَلَى آدَمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنِ ابْنٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ قِيلَ: مَنْ هذَا قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ قَالَ: مَحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ؛ فَأَتَيْتُ عَلَى عِيسَى وَيَحْيَى فَقَالاَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّالِثَةَ قِيلَ: مَنْ هذَا قِيلَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ يُوسُفَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ، قِيلَ: مَنْ هذَا قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ قِيلَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلِيْهِ قِيلَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَأَتَيْتُ عَلَى إِدْرِيسَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ مَرْحَبًا مِن أَخٍ وَنَبِيٍّ فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ، قِيلَ: مَنْ هذَا قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَأَتَيْنَا عَلَى هرُونَ، فَسَلَّمتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ فَأَتَيْنا عَلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، قِيلَ: مَنْ هذَا قِيلَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ قَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَلَمَّا جَاوَزْتُ بَكَى، فَقِيلَ: مَا أَبْكَاكَ فَقَالَ: يَا رَبِّ هذَا الْغُلاَمُ الَّذِي بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَفْضَلُ مِمَّا يَدْخلُ مِنْ أُمَّتِي فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ السَّابِعَةَ، قِيلَ: مَنْ هذَا قِيلَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَأَتَيْتُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنِ ابْنٍ وَنَبِيٍّ فَرُفِعَ لِيَ الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: هذَا الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، يَصَلِّي فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، إِذَا خَرَجُوا لَمْ يَعُودُوا إِلَيْهِ آخِرَ مَا عَلَيْهِمْ وَرُفِعَتْ لِي سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى، فَإِذَا نَبِقُهَا كَأَنَّهُ قِلاَلُ هَجَرٍ وَوَرَقُهَا كَأَنَّهُ آذَانُ الْفُيُولِ، فِي أَصْلِهَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ، نَهْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَفِي الْجَنَّةِ، وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ وَالْفُرَاتُ ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلاَةً، فَأَقْبَلْتُ حَتَّى جِئْتُ مُوسَى، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ قُلْتُ: فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلاَةً، قَالَ أَنَا أَعْلَمُ بِالنَّاسِ مِنْكَ، عَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ، وَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ، فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ، فَرَجَعْتُ فَسَأَلْتُهُ، فَجَعَلَهَا أَربَعِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ، ثُمَّ ثَلاَثِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ، فَجَعَلَ عِشْرِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ، فَجَعَلَ عَشرًا، فَأَتَيْتُ مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ، فَجَعَلَهَا خَمْسًا، فَأَتَيْتُ مُوسَى، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ قُلْتُ: جَعَلَهَا خَمْسًا، فَقَالَ مِثْلَهُ، قُلْتُ: سَلَّمْتُ بِخَيْرٍ، فَنُودِيَ إِنِّي قَدْ أَمْضَيْت فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي وَأَجْزِي الْحَسَنَةَ عَشْرًا
سیّدنا مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایک دفعہ بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کے درمیان لیٹے ہوئے ایک تیسرے آدمی کا ذکر فرمایا (پھر فرمایا) اس کے بعد میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے بھر پور تھا میرے سینے کو پیٹ کے آخری حصے تک چاک کیا گیا پھر میرا پیٹ زمزم کے پانی سے دھویا گیا اور اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا اس کے بعد میرے پاس ایک سواری لائی گئی سفید خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی یعنی براق میں اس پر سوار ہو کر جبریل علیہ السلام کے ساتھ چلا جب ہم آسمان دنیا پر پہنچے تو پوچھا گیا کہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جبریل پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے کہا ہاں اس پر جواب آیا کہ اچھی کشادہ جگہ آنے والے کیا ہی مبارک ہیں پھر میں آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں سلام کیا انہوں نے فرمایا آؤ پیارے بیٹے اور اچھے نبی۔ اس کے بعد ہم دوسرے آسمان پر پہنچے یہاں بھی وہی سوال ہوا کون صاحب ہیں؟ کہا جبریل سوال ہوا آپ کے ساتھ کوئی اور صاحب بھی آئے ہیں؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! سوال ہوا انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا کہ ہاں اب ادھر سے جواب آیا اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں آنے والے کیا ہی مبارک ہیں اس کے بعد میں عیسیٰ اور یحییٰ علیہما السلام سے ملا ان حضرات نے بھی خوش آمدید مرحبا کہا اپنے بھائی اور نبی کو۔ پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کون صاحب ہیں؟ جواب جبریل سوال ہوا آپ کے ساتھ بھی کوئی ہے؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سوال ہوا انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں اب آواز آئی اچھی کشادہ جگہ آئے آنے والے کیا ہی صالح ہیں یہاں یوسف علیہ السلام سے میں ملا اور انہیں سلام کیا انہوں نے فرمایا اچھی کشادہ جگہ آئے ہو میرے پیارے بھائی اور نبی۔ یہاں سے ہم چوتھے آسمان پر آئے اس پر بھی یہی سوال ہوا کون صاحب؟ جواب دیا کہ جبریل سوال ہوا آپ کے ساتھ اور کون صاحب ہیں؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں پوچھا کیا انہیں لانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا جواب دیا کہ ہاں پھر آواز آئی اچھی کشادہ جگہ آئے کیا ہی اچھے آنے والے ہیں یہاں میں ادریس علیہ السلام سے ملا اور سلام کیا انہوں نے فرمایا مرحبا بھائی اور نبی۔ یہاں سے ہم پانچویں آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب؟ جواب دیا کہ جبریل پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟ جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوچھا گیا انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا کہ ہاں آواز آئی اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں آنے والے کیا ہی اچھے ہیں یہاں ہم ہارون علیہ السلام سے ملے اور میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے فرمایا مبارک میرے بھائی اور نبی تم اچھی کشادہ جگہ آئے۔ یہاں سے ہم چھٹے آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب؟ جواب دیا جبریل پوچھا گیا آپ کے ساتھ اور بھی کوئی ہیں؟ کہا کہ ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں پوچھا گیا کیا انہیں بلایا گیا تھا؟ کہا ہاں کہا اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں اچھے آنے والے یہاں میں موسیٰ علیہ السلام سے ملا اور انہیں سلام کیا انہوں نے فرمایا میرے بھائی اور نبی اچھی کشادہ جگہ آئے جب میں وہاں سے آگے بڑھنے لگا تو وہ رونے لگے کسی نے پوچھا بزرگوار آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اے اللہ یہ نوجوان جسے میرے بعد نبوت دی گئی اس کی امت میں سے جنت میں داخل ہونے والے میری امت کے جنت میں داخل ہونے والوں سے زیادہ ہوں گے۔ اس کے بعد ہم ساتویں آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب ہیں جواب دیا کہ جبریل علیہ السلام سوال ہوا کہ کوئی صاحب آپ کے ساتھ بھی ہیں؟ جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوچھا انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا ہاں مرحبا اچھے آنے والے یہاں میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا اور انہیں سلام کیا انہوں نے فرمایا میرے بیٹے اور نبی مبارک اچھی کشادہ جگہ آئے ہو اس کے بعد مجھے بیت المعمور دکھایا گیا میں نے جبریل علیہ السلام سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ یہ بیت المعمور ہے اس میں ستر ہزار فرشتے روزانہ نماز پڑھتے ہیں اور ایک مرتبہ پڑھ کر جو اس سے نکل جاتا ہے تو پھر کبھی داخل نہیں ہوتا اور مجھے سدر المنتہی بھی دکھایا گیا اس کے پھل ایسے تھے جیسے مقام بحر کے مٹکے ہوتے ہیں اور پتے ایسے تھے جیسے ہاتھی کے کان اس کی جڑ سے چار نہریں نکلتی تھیں دو نہریں تو باطنی تھیں اور دو ظاہری میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جو دو باطنی نہریں ہیں وہ تو جنت میں ہیں اور دو ظاہری نہریں دنیا میں نیل اور فرات ہیں۔ اس کے بعد مجھ پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں میں جب واپس ہوا اور موسیٰ علیہ السلام سے ملا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا کر کے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ پچاس نمازیں مجھ پر فرض کی کی گئی ہیں انہوں نے فرمایا کہ انسانوں کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں بنی اسرائیل کا مجھے بڑا تجربہ ہو چکا ہے تمہاری امت بھی اتنی نمازوں کی طاقت نہیں رکھتی اس لئے اپنے رب کی بارگاہ میں دوبارہ حاضری دو اور کچھ تخفیف کی درخواست کرو میں واپس ہوا تو اللہ تعالیٰ نے نمازیں چالیس وقت کی کر دیں پھر بھی موسیٰ علیہ السلام اپنی بات (یعنی تخفیف کرانے) پر مصر رہے اس مرتبہ تیس وقت کی رہ گئیں پھر انہوں نے وہی فرمایا تو اب بیس وقت کی اللہ تعالیٰ نے کر دیں پھر موسیٰ علیہ السلام نے وہی فرمایا اور اس مرتبہ بارگاہ رب العزت میں میری درخواست کی پیشی پر اللہ تعالیٰ نے انہیں دس کر دیا میں جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو اب بھی انہوں نے کم کرانے کے لئے اپنا اصرار جاری رکھا اور اس مرتبہ اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت کی کر دیں اب میں موسیٰ علیہ السلام سے ملا تو انہوں نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ کر دی ہیں اس مرتبہ بھی انہوں نے کم کرانے کا اصرار کیا میں نے کہا کہ اب تو میں اللہ تعالیٰ کے سپرد کر چکا پھر آواز آئی میں نے اپنا فریضہ (پانچ نمازوں کا) جاری کر دیا اپنے بندوں پر تخفیف کر چکا اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 103]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 59 كتاب بدء الخلق: 6 باب ذكر الملائكة»

حدیث نمبر: 104
104 صحيح حديث ابنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي؛ مُوسَى، رَجُلاً آدَمَ طُوَالاً جَعْدًا كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ؛ وَرَأَيْتُ عَيسَى رَجُلاً مَرْبُوعًا، مَرْبُوعَ الْخَلْقِ إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ، سَبِطَ الرَّأْسِ، وَرَأَيْتُ مَالِكًا خَازِنَ النَّارِ، وَالدَّجَّالَ فِي آيَاتٍ أَرَاهُنَّ اللهُ إِيَّاهُ، فَلاَ تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَائِهِ
سیّدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب معراج میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تھا گندمی رنگ لمبا قد اور بال گھنگھریالے تھے ایسے لگتے تھے جیسے قبیلہ شنو کا کوئی شخص ہو اور میں نے عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا تھا درمیانہ قد میانہ جسم رنگ سرخی اور سفیدی لئے ہوئے اور سر کے بال سیدھے تھے (یعنی گھنگھریالے نہیں تھے) اور میں نے جہنم کے داروغہ کو بھی دیکھا اور دجال کو بھی منجملہ ان آیات (نشانیوں) کے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو دکھائی تھیں (سورہ سجدہ۲۳ میں اسی کا ذکر ہے کہ) (اے نبی) ان سے ملاقات کے بارے میں آپ کسی قسم کا شک و شبہ نہ کریں (یعنی موسیٰ علیہ السلام سے ملنے میں)۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 104]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 59 كتاب بدء الخلق: 7 باب إذا قال أحدكم آمين والملائكة في السماء»


Previous    6    7    8    9    10    11    12    13    Next